اسلام آباد (انصار عباسی) پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازع پیدا کرے گی اور نہ ہی وزیراعظم شہباز شریف کے ذریعے ہونے والی آرمی چیف کی تقرری پر صدر عارف علوی کوئی رکاوٹ ڈالیں گے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پی ٹی آئی رہنما نے دی نیوز کو بتایا کہ عمران خان اور پارٹی قیادت نئے آرمی چیف کے تقرر کو متنازع نہیں بنائے گی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ صدر مملکت بھی تقرری کا عمل پرسکون انداز سے مکمل ہونے کو یقینی بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آرمی چیف کو بغیر کسی پریشانی کے قبول کریں گے چاہے وزیراعظم جسے عہدے پر مقرر کریں۔ اس موقف سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی موجودہ پالیسی کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی۔
انہوں نے کچھ حکومتی حلقوں کے اس خدشے کو مسترد کر دیا کہ عمران خان کے حالیہ بیانات کی وجہ سے شاید صدر مملکت آرمی چیف کے تقرر میں تاخیر کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ صدر مملکت کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے، اور یہ پارٹی پالیسی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی پالیسی پر پارٹی میں بحث ہوئی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی پالیسی نہیں رکھنا چاہئے۔
پی ٹی آئی لیڈر نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گزشتہ چار سے پانچ خطاب میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل کا نام تک نہیں لیا جسے وہ ارشد شریف کے قتل اور خود پر حملے کے معاملے میں ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم آفس سے نکال باہر کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سخت انداز سے ٹکرانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تمام اہم کھلاڑیوں کو ہدف بنائے رکھا اور اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان پر دبائو ڈالا جائے تاکہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر جلد الیکشن کرائے جائیں۔
اپنی حکومت کو امریکی سازش کے تحت ہٹانے اور شہباز شریف کی حکومت لانے میں امریکا کا ساتھ دینے کے معاملے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد عمران خان اور ان کی پارٹی کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق روزانہ خراب ہوتا چلا گیا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر عوام میں کھل کر تنقید کرنے کے بعد عمران خان کے حامیوں اور سوشل میڈیا ٹیم نے فوج کی اعلیٰ قیادت اور ادارے کیخلاف مہم کا سلسلہ شروع کر دیا۔
معاملہ اس وقت حد سے پار چلا گیا جب عمران خان نے اداروں پر ارشد شریف کے قتل کا الزام عائد کیا جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی۔ عمران خان کو اس کے بعد بھی نہ روکا جا سکا اور جب ان پر وزیر آباد میں حملہ ہوا تو انہوں نے آئی ایس آئی کے میجر جنرل کا نام لیا کہ حملہ کرنے والے تین افراد میں ایک یہ بھی ہیں۔ میجر جنرل کے علاوہ، انہوں نے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کا نام بھی لیا۔
نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے عمران خان نے پہلے یہ کہا کہ موجودہ حکومت اور وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اختیار نہیں کہ وہ آرمی چیف کا تقرر کریں۔ ان کی رائے تھی کہ موجودہ آرمی چیف کو آئندہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے آنے تک توسیع دینا چاہئے کیونکہ یہ تقرری نئی حکومت کا کام ہے۔
جب موجودہ آرمی چیف نے اشارہ دیا کہ وہ مزید توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے تو عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ پس پردہ بات چیت میں اعلیٰ فوجی عہدے کیلئے امیدوار سمجھے جانے والے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے نام پر اعتراض کیا۔ بعد میں وہ اس بات سے بھی دستبردار ہوگئے اور اب عمران خان کی پالیسی یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف چاہے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کر دیں، اسے قبول کیا جائے گا۔