ڈاکٹر ظفر فاروقی
نوجوانوں میں اس بات کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ جان سکیں کہ ’’حقیقی کامیابی‘‘ ہے کیا، تاکہ ان کی محنت اور کاوشیں رائیگاں نہ جاسکیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی معاشی اور سائنسی ترقی ہوئی وہ صرف اور صرف تعلیم کی بدولت ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی اس سے جڑے دیگر معاشرتی پہلوئوں میں بھی ترقی دیکھنے میں آئی ۔ سویڈن، ڈنمارک، ناروے، سوئٹزر لینڈ، فن لینڈ، فرانس، اٹلی، جرمنی ان تمام ممالک کی ترقی کا راز بھی تعلیمی شرح کی بلندی میں مضمر ہے۔
ہمارا ملک ہمارے نوجوان ایسی ترقی سےکوسوں دور ہیں۔ آخر کیا وجوہات ہیں؟ کبھی اس بات پر غور کیا؟ بحیثیت والدین اور استاد کیا ہم نے اپنے نوجوان طالب علموں میں اخلاقی، معاشرتی شعور اجاگر کیا۔ کیا ہمارے نظام تعلیم میں سماجی علوم کے وہ مضامین شامل ہیں جن میں معاشرتی اور سماجی اقدار کے تمام پہلوئوں کو پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حصول کے سلسلے میں ان کی سماجی اقدار کی تربیت بھی لازمی ہونی چاہیے۔
جس کی مثال جاپان کی ہے، جہاں پر اسکولوں میں داخلہ 5سال کی عمر میں دیا جاتا ہے اور پورے دو سال تک صرف اور صرف سماجی امور کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، جس میں کلاس میں بیٹھنے کے مراطب سے لے کر روڈ پر زیبرا کراسنگ تک کے امور سکھائے جاتے ہیں، جب 7سال کی عمر کے بچوں کی تربیت اس طرح ہو تو وہ کس قدر نظم و ضبط والا معاشرہ ہوگا، مگر ہمارے نوجوانوں میں ’’سماجی امور‘‘ کے شعور کا شدید فقدان ابتدا ہی سےہے، جس کی وجہ سے ’’حقیقی کامیابی‘‘ کو حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ آج کل کے دور میں سب کے پاس انٹرنیٹ اوراسمارٹ فون موجود ہیں، ہزاروں اقوال زریں روزانہ پڑھتے اور ڈیلیٹ کردیتے ہیں۔
کیا سوچا کہ اس قدر انفارمیشن اور معلومات کے باوجود ہمارے اندر ’’سماجی امور‘‘ میں کتنی ترقی ملی؟ کیا نوجوانوں میں معاشرتی اور سماجی شعور کو پروان چڑھاسکےہیں؟ جواب نفی میں ہی آئے گا۔ اصل وجوہات ابتدائی تعلیمی مراحل میں پنہاں ہے، ان مراحل میں دونوں ستون یعنی والدین اور اساتذہ کرام پر ذمہ دار ی عاید ہوتی ہے۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے بچوں کی ابتدائی دور میں وہ سماجی اخلاقی تربیت کرپائے ہیں جس سے بڑے ہو کروہ معاشرے میں ایک بااخلاق، باکردار اور باشعور شہری نظر آئیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہی آئےگا تو ذرا سوچیے کہ ابھی بھی کس قدر محنت کرنےکی ضرورت ہے۔
نوجوانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ جو مغربی اقدار سے اتنے مرعوب ہیں، انہوں نے آخر معاشی، معاشرتی اور سماجی ترقی کیوں کر کیا، لکین وہ تو بسن کی ظاہری بودو باش سے متاثر ہوتے ہیں ،پسِ پشت ان کی کاوشوں اور محنت پر نظر کیوں نہیں جاتی۔ کیا ان کی طرح حقیقی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں بٹھا لیں کہ کسی بھی ملک کی مضبوطی، ترقی صرف اور صرف تعلیم کے حصول اور اخلاقی، سماجی، معاشرتی اطوار کا بلند سطح پر استوار ہونے میں ہے۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول ساتھ ساتھ تمام سماجی امور میں اپنا کردار بلند کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ بات ہمارا مذہب بھی سکھاتا ہے اور مغربی معاشرے کی سماجی بلندی سے بھی یہی سبق ملتا ہے جو انہوں نے مسلمانوں سے ہی سکھیں تھیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا۔ہمارے بیش تر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اب ان ممالک کی طرف صرف اور صرف ان ہی وجوہات کی بنا پر ’’امیگریشن کےلئے اپلائی کرتے ہیں اوروہاں جاکر زندگی بسر کرنے کے خواہاں رہتے ہیں اور کیوں نہ ہوں، ہر انسان کی فطری خواہش اور جستجو ہوتی ہے کہ اس کی اور اس کی اولاد کی زندگی خوش و خرم اور ایک بہترین سماجی اقدار سے وابسطہ معاشرے میں ہو۔
اسی بنا پر ہمارا معاشرہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ملک سے نکل جانے کی بنا پر ’’برین ڈرین ہوگیا ہے‘‘ ۔ یعنی یہاں کے بہترین ذہن اب ان جدید مہذب معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں۔ تو ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر خوفناک صورت حال ہے، ہمارے معاشرے کا المیہ بھی یہی ہے، جبکہ اگر سوچ اور عزم کر لیا جائے کہ ہم اپنے ملک کو ہی کیوں نہ اُن ممالک کی طرح بنانے کی کوشش کریں جن سے وہ مرعوب ہیں لیکن وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم اس مغربی معاشرے جیسے ترقی، ان جیسا سماجی و معاشرتی معاشرہ قائم نہیں کرپا رہے، کیوں ہمارے معاشرے میں کرپشن اور ناانصافی، لاقانونیت نے ڈیرہ جما لیا ہے۔
تعلیمی اور معاشرتی لحاظ سے ہمارا شمار کہاں ہوتا ہے۔ ’’حقیقی کامیابی‘‘ کا راز جو انہوں نے حاصل کرلیا۔ دنیاوی ترقی انہوں نےحاصل کرلی، مگرہم ا یسا نہ کرسکے۔ انہوں نے بہترین زندگی گزارنے کے لیے تمام سائنسی و فنی ترقی کے مراحل طے کئے اور ہم نے صرف اور صرف ان کی ایجادات پر انحصار کیا ، ہمارے یہاں سائنسی ترقی و ایجادات نہ ہوسکیں، سماجی ترقی کے لحاظ سے ان کے معاشرے میں اقدار ملتی ہیں جہاں دودھ کے ڈبے پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ ’’خالص دودھ ہے‘‘ اس میں ملاوٹ یا ہیرا پھیرا نہیں ملے گی۔
سچ بولنے، قانون کی پاسداری ، قطار میں نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے رہنے، پارلیمنٹ میں کثرت رائے کھو دینے کے بعد وزیراعظم خود استعفیٰ دینے کی روایات ملیں گی۔ اگر مہنگائی پر کنٹرول نہ کرپائے تو وزیراعظم کی خود استعفیٰ دینے کی روایات ملیں گی اور اپنا ہینڈ بیک خود پرائم منسٹر ہائوس سے واپس لے جانےکی روایات ملیں گی۔ یہ روایات صرف اور صرف ایک ’’کامیاب معاشرے‘‘ کی ہی مثالیں ہوسکتی ہیں جو ہم ابھی تک حاصل نہیں کرپائے ہمارا نوجوان اپنے ملک میں کامیاب معاشرہ جنم دے تو سکتا ہے، مگر کینیڈا، امریکا، آسڑیلیا اور یورپ کے حقیقی کامیاب معاشرے میں امیگریٹ ہوکر، جہاں خود کو بھی وہاں کے معاشرے کا حصہ بنالیتا ہے اور اپنی صلاحتیں و قابلیت کو ان کے سپرد کردیتا ہے کیونکہ اس کو یہ یقین ہوتاہے کہ اس کی صلاحیتوں اور قابلیت کا صلہ اسے مل کر رہے گا ،جہاں اس کی نسل ایک خوبصورت معاشرتی، معاشی، اقتصادی کامیاب معاشرے میں پروان چڑھ کر واقعی خوشحالی ، سکون واطمینان انصاف، قانون کی بالادستی حاصل کرلیتی ہے اور پھر اسے ایک خوبصورت زندگی کے خواب کی تعبیر مل جاتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو ایک حقیقی کامیاب معاشرہ آخر کیوں نہیں بنا پارہے ؟ ہمارے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان اسی طرح اپنے ملک کو خیر آبا کر کے جاتے رہیں گے تو اس ملک کو حقیقی کا میابی کون دلائے گا۔اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے یہ وہ جان لیں ،کیوں کہ جب ان ممالک میں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں مصیبت آجاتی ہے تو ایسے میں وہ اپنے ملک کی طرف دوڑ لگاتے ہیں، تو پھر کیوں نہ اپنے ہی ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں، اس امید اور یقین کے ساتھ کہ ایک وقت تو آئے گا کہ ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہونے لگیں گے۔ کرپشن اور ناانصافی، لاقانونیت کا حصہ بننےکے بجائے اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کرام دونوں کو اپنا کردار ا ور ادا کرنااور نوجوانوں کا ساتھ دینا ہوگا۔