لندن (سعید نیازی/طاہر انعام شیخ) برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سکاٹش حکومت ، برطانیہ حکومت کی مرضی کے بغیر آزادی کے حصول کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد نہیں کرسکتی۔ سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن آئندہ برس 19اکتوبر کو ریفرنڈم کرانا چاہتی تھیں لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ اسے ایسا کرنے کا اختیار نہیں۔ سکاٹ لینڈ کی آزادی کیلئے 2014ء میں ریفرنڈم منعقد ہوا تھا جس میں اکثریت نے آزادی کے خلاف اور یونائٹیڈ کنگڈم کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پریذیڈنٹ لارڈ ریڈ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 1999ء میں سکاٹ پارلیمنٹ کو جو اختیار ات ملے، ان میں یہ اختیار شامل نہیں تھا کہ وہ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی یونین کے حوالے سے کوئی آئینی فیصلہ کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ دوبارہ ریفرنڈم کرانے کی اجازت برطانوی پارلیمنٹ ہی دے سکتی ہے اور فریقین کے درمیان معاہدے کی عدم موجودگی میں سکاٹش پارلیمنٹ ریفرنڈم کیلئے قانون سازی کرنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے سکاٹش حکومت کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا کہ کوئی بھی ریفرنڈم مشاورتی ہوگا اور اس کا یونائٹیڈ کنگڈم کے اتحاد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ریفرنڈم میں یہ سوال پوچھا جائے گا کہ سکاٹ لینڈ کو آزاد ملک بننا چاہئے یا نہیں۔ لارڈ ریڈ نے کہا کہ قانونی طور پر منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے یونین اور برطانوی پارلیمنٹ پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتےہیں۔ سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ جج قانون نہیں بناتے، صرف اس کی تشریح کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس این پی آئندہ عام انتخابات آزادی کے نکتہ پر لڑے گی اور نتائج یہ بتائیں گے کہ سکاٹ لینڈ کے عوام آزادی کے حامی ہیں۔ وزیراعظم رشی سوناک نے پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے ’’واضح اور قطعی‘‘ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سکاٹ لینڈ کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان چیلنجز کو حل کرنے کیلئے مل کر کام کریں جیسا کہ معیشت، این ایچ ایس اور یوکرین کے مسئلہ پر۔ سکاٹش لیبر قائد انس سرور نے کہا کہ سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم یا آزادی کیلئے اکثریت نہیں لیکن سکاٹ لینڈ سمیت پورے ملک میں لوگ تبدیلی ضرور چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ دو روزہ سماعت کے دوران فریقین کے دلائل کو سنا تھا۔