• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں ایک عدالتی ٹریبونل کو بتایا گیا ہے کہ شمیمہ بیگم نے کم عمری میں برطانیہ چھوڑ کر شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنسی استحصال کے لیے ان کی انسانی سمگلنگ کی گئی تھی۔ شمیمہ نے 2015میں شام کا سفر کیا اور 2019میں قومی سلامتی کی بنیاد پر ان کی برطانوی شہریت ختم کر دی گئی تھی اب اس پانچ روزہ امیگریشن ہیئرنگ میں برطانوی شہریت ختم ہونے کے فیصلے کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ محکمہ داخلہ کے مطابق شمیمہ اب بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ شمیمہ کے کیس کی سماعت سپیشل امیگریشن اپیلز کمیشن (ایس آئی اے سی) میں ہو رہی ہے جس کی حیثیت کسی ہائیکورٹ کے برابر ہے، ضرورت پڑنے پر وہاں خفیہ طور پر قومی سلامتی سے متعلق شواہد بھی دکھائے جا سکتے ہیں۔ 23سالہ شمیمہ کے وکلا نے عدالت کو بتایا ہے کہ سابق وزیر داخلہ ساجد جاوید کا برطانوی شہریت ختم کرنے کا فیصلہ غیر قانونی تھا کیونکہ اس میں یہ زیر غور نہیں لایا گیا کہ وہ بچپن میں انسانی سمگلنگ سے متاثر ہوئی تھیں۔ اب قریب آٹھ برس بعد وہ شمالی شام میں ایک ایسے خیمے میں رہتی ہیں جہاں مسلح گارڈ پہرا دیتے ہیں۔ وہ محض 15ال کی عمر میں لندن کی مزید دو سکول کی لڑکیوں کے ساتھ شام چلی گئی تھیں۔ باقی دو لڑکیاں، 16برس کی خدیجہ سلطانہ اور 15سالہ امیرہ عباس تھیں سلطانہ کے خاندانی وکیل کے مطابق وہ شام میں ایک روسی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں جب کہ امیرہ عباس سے متعلق کوئی معلومات نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ سال 2019میں ایک انٹرویو میں شمیمہ بیگم نے کہا تھا کہ انھوں نے سنا ہے کہ امیرہ زندہ ہیں۔ اگست میں بی بی سی نیوز کی ایک تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ شمیمہ بیگم کو شام ایک ایجنٹ سمگل کر کے لے گیا تھا جو اس وقت کینیڈا کے لیے کام کرتا تھا۔ کینیڈین حکومت نے کہا تھا کہ وہ ان الزامات پر ’فالو اپ‘ یعنی پیشرفت کریں گے۔ شام میں شمیمہ کی شادی ایک ڈچ جنگجو سے کی گئی تھی۔ شمیمہ نے وہاں تین برس دولت اسلامیہ کے زیرِ تسلط گزارے۔ 2019میں ان کے بارے میں اخبار ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ وہ نو ماہ کی حاملہ ہیں اور شام میں ایک پناہ گزین خیمے میں رہتی تھیں۔ ان کا بچہ نمونیا سے وفات پا گیا تھا۔ شمیمہ بیگم نے کہا کہ وہ مزید بچے کھو چکی ہیں۔ ستمبر 2021میں بی بی سی کی پوڈ کاسٹ ’آئی ایم ناٹ اے مانسٹر‘ کے ساتھ انٹرویو میں شمیمہ نے کہا تھا کہ انھیں اپنی ساری زندگی یہی پچھتاوا رہے گا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برطانیہ کی مدد کرنا چاہتی ہیں، 2017میں مانچسٹر ایرینا حملے میں 22 لوگ ہلاک ہو گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔ اس پر شمیمہ بیگم نے کہا تھا کہ یہ حملہ دولت اسلامیہ کے زیرِ تسلط علاقوں پر امریکی فوجی کارروائی کی طرح تھا۔ انھوں نے مانچسٹر حملوں کو ’انتقامی کارروائی‘ قرار دیا تھا۔ جاش بیکر، جنھوں نے شمیمہ بیگم کا انٹرویو کیا، کہتے ہیں کہ قریب آٹھ سال قبل شمیمہ مشرقی لندن کے ایک سکول سے اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ عائب ہوئی تھیں اور یہ تین لوگ شام میں دولت اسلامیہ کے پاس چلے گئے تھے۔ ’ایک سال سے میں ان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہوں۔ وہ شمال مشرقی شام کے ایک بدحال حراستی کیمپ میں موجود ہیں۔ وہاں دولت اسلامیہ سے جوڑی جانے والی مزید خواتین اور بچے بھی ہیں۔‘ شمیمہ نے پوڈکاسٹ اور دستاویزی فلموں کے لیے انٹرویوز کے دوران یہی دعویٰ کیا کہ وہ انسانی سمگلنگ کی متاثرہ خاتون ہیں اور برطانیہ چھوڑنے سے قبل انھیں دولت اسلامیہ کے ارکان نے شام پہنچنے کا تفصیلی طریقہ بھیجا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی شام نہ پہنچ پاتیں اگر دولت اسلامیہ کے سمگلر محمد الرشید ان کی مدد نہ کرتے۔ شمیمہ کے وکلا نے پیر کی سماعت کے دوران شواہد پیش کیے کہ وہ کم عمر تھیں جب انھیں سمگل کیا گیا۔ ان کی برطانوی شہریت ختم کرنا ایسا کوئی طریقہ نہیں تھا جس سے مبینہ قومی سلامتی کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔ سمانتھا نائٹس کے سی نے کہا کہ یہ ایک 15سال کی برطانوی بچی کا کیس ہے جسے دولت اسلامیہ کے مؤثر پروپیگنڈا اور دوستوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پھنسایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر سوچے سمجھے لیے گئے اقدامات کی وجہ سے انھیں اپنی برطانوی شہریت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ محکمہ داخلہ کے وکلا نے دلائل دیے کہ شمیمہ بیگم کی شہریت ختم کرنا درست عمل تھا کیونکہ وہ اپنے تحفظ کیلئے دولت اسلامیہ کے علاقوں سے بھاگیں، نہ کہ اس لیے کہ وہ اس گروہ سے اپنا تعلق ختم کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ساجد جاوید کے فیصلے سے قبل متعدد انٹرویوز میں شمیمہ کہہ چکی تھیں کہ انھیں دہشتگرد گروہ میں شامل ہونے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ شمیمہ کو معلوم تھا کہ اس گروہ کی کیا حیثیت ہے، جب وہ ان کے پاس گئی تھیں۔ برطانوی سکیورٹی سروس ایم آئی فائیو کے باقاعدہ جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ دولت اسلامیہ کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں جاتے ہیں وہ انتہا پسندی کی جانب راغب ہو چکے ہوتے ہیں اور دولت اسلامیہ کے تشدد اور شدت پسندی سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایم آئی فائیو کے مطابق دولت اسلامیہ سے متاثرہ کسی شخص کی واپسی قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہو سکتی ہے۔ سماعت کے دوران شمیمہ بیگم کے وکلا نے ایم آئی فائیو کے ایک افسر، جسے وٹنس ای کا نام دیا گیا ہے، سے پوچھا کہ آیا سکیورٹی سروس نے انھیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر بھی غور کیا کہ شمیمہ بیگم سمگلنگ سے متاثرہ بچی تھیں۔ وٹنس ای نے کہا کہ ایم آئی فائیو سمگلنگ کی تعریف میں ماہر نہیں تاہم متاثرین بھی خطرہ ہو سکتے ہیں۔ وٹنس ای نے کہا کہ شمیمہ بیگم کو دولت اسلامیہ کے مظالم کا علم ہو گا جس میں مغربی مغویوں کے سر قلم کرنا شامل ہے۔ محکمہ داخلہ نے کہا کہ نومبر 2015یں پولیس کو دی گئی معلومات کے مطابق شمیمہ کی واپسی کی کوئی خواہش نہیں تھی اور وہ شام میں ان کے علاقوں میں پہنچنے کے بعد بھی دولت اسلامیہ کی حمایت کرتی تھیں۔ اس کیس کی سماعت پانچ روز تک جاری رہنے کی توقع ہے۔(بشکریہ بی بی سی)
یورپ سے سے مزید