لندن (مرتضیٰ علی شاہ) متحدہ قومی موومنٹ کے سابق کنوینر فاروق ستار نے برطانوی ہائی کورٹ کو بتایا کہ رینجرز نے الطاف حسین کو معطل کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ22 اگست 2016 کو الطاف حسین کی تقریر کے فوری بعد رینجرز نے انھیں گرفتار کرلیا اور انھیں پریس کانفرنس سے روک دیا لیکن رینجرز کی حراست میں ایک رات گزارنے کے بعد دوسرے دن لندن میں مقیم جلاوطن رہنما سے علیحدگی کا اعلان کرنے کیلئے پریس کانفرنس کی اجازت دیدی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ باتیں لندن میں الطاف حسین کے زیر قبضہ ایک کروڑ پونڈ مالیت کی 7 پراپرٹیز کا کنٹرول حاصل کرنے کے ایم کیو ایم کے دعوے کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے پراپرٹیز اور بزنس ڈویژن میں اپنی شہادت قلمبند کراتے ہوئے کہیں۔ دیوالیہ اور کمپنیر کورٹ (ICC) کے جج مسٹر کلائیو جونز نے ایم کیو ایم کے قائد کی متنازعہ تقریر والے دن رینجرز کی کارروائی، جیو نیوز کو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے انٹرویو، کراچی کے ہنگاموں اور ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے الطاف حسین کو پارٹی سے معطل کرنے کیلئے اپنے اختیارات کے استعمال کے حوالے سے واقعات کی سماعت کر رہے تھے۔ الطاف حسین کے وکیل رچرڈ سلیڈ نے الطاف حسین کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان کے دعوے کی سپورٹ میں عدالت میں پیش ہونے پر دوسرے دن ڈاکٹر فاروق ستار پر جرح کی۔ عدالت میں انھوں نے الطاف حسین کے سابق وفاداروں کی جانب سےالطاف حسین کے خلاف کی جانے والی ہر کارروائی کا بھرپور دفاع کیا۔ لندن کے علاقے مل ہل میں واقع ایبے ویو، جہاں الطاف حسین مقیم ہیں، ایج ویئر میں واقع نمبر ون ہائی ویو گارڈنز، جو کرایہ پر اٹھاہوا ہے، ایج ویئر میں واقع نمبر 5 ہائی ویو گارڈنز، ایج ویئر میں واقع نمبر 185 وہٹ چرچ لین، ایج ویئر میں واقع نمبر 221 وہٹ چرچ لین، مل ہل میں واقع بروک فیلڈ ایونیو اور ایج ویئر میں واقع فرسٹ فلور ایلزبتھ ہائوس، جوایم کیو ایم کے انٹر نیشنل سیکریٹریٹ کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے، کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے وفاقی وزیر مواصلات سید امین الحق نے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ ایم کیوایم پاکستان نے برطانوی ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا کہ یہ پراپرٹیز ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے کی جائیں کیونکہ ایم کیو ایم کا نظام ایم کیو ایم پاکستان چیپٹر کی طرف سے سنبھالے جانے کے بعد الطاف حسین کا اب ٹرسٹ کی ان پراپرٹیز پر کوئی حق نہیں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار الطاف حسین کی جانب سے پاکستان میں ایم کیوایم کی قیادت کرتے رہے ہیں اور ندیم نصرت لندن سے پارٹی کے کنوینر تھے۔ ان دونوں نے الطاف حسین کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت میں گواہی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ فاروق ستار نے کراچی میں اپنے گھر سے ویڈیو لنک کے ذریعہ شہادت قلمبند کرائی۔ الطاف حسین، افتخار حسین، قاسم علی رضا، اقبال حسین، مصطفیٰ عزیز آبادی کے ساتھ مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے حامی عدالت کے کمرے میں بیٹھے ڈاکٹر فاروق ستار کی بعض باتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے نظر آئے۔ الطاف حسین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کے دوسرے رہنمائوں نے الطاف حسین کو کس ڈرامائی انداز میں ان کے منصب سے ہٹا کر انہیں اثر ورسوخ سے محروم کیا۔ کنگز کونسل نے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے بانی کے خلاف 22 اگست کو ان کی تقریر کے رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور انھیں اور ایم کیو ایم کو الطاف حسین اور لندن میں ان کے ساتھیوں کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنے کے دبائو اور دھمکیوں کے بعد کام کرنا شروع کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے سازش کی تردید کی اور بتایا کہ یہ کراچی میں ایم کیو ایم کا متفقہ فیصلہ تھا کہ پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے پارٹی کا کنٹرول حاصل کرلیا جائے۔ وکیل فاروق ستار کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتے رہے کہ وہ ریاست کے دبائو کی وجہ سے پارٹی کے خلاف غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر پارٹی کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ فاروق ستار نے اس کی تردید کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ انھوں نے یہ قدم پارٹی اور کارکنوں کی حمایت سے اٹھایا تھا لیکن وکیل مسلسل عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ انھیں صرف ایک رات رینجرزکی حراست میں رکھ کر کس طرح الطاف حسین کو بے اختیار کرنے اور انھیں پارٹی سے نکالنے پر آمادہ کیا گیا۔ مسٹر ٹھاکر کی معروف قسط، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی بڑی مونچھوں والے رینجر کے افسر نے ایک نحیف ونزار فاروق ستار کو کراچی پریس کلب میں میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا تھا۔ فاروق ستار نے تسلیم کیا کہ انھوں نے 23 اگست کو لندن میں ندیم نصرت سے بات کی تھی۔ الطاف حسین کے وکیل کا کہنا تھا کہ فاروق ستار نے 22 اگست کو بھی ندیم نصرت سے بات کی تھی اور انھوں نے مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا تھا، جس میں الطاف حسین کی جانب سے اپنی تقریر پر معذرت کرنا شامل تھا لیکن فاروق ستار نے اس کی تردید کی۔ جب فاروق ستار سے سوال کیا گیا کہ رینجرز کے افسران سے ان کی کیا بات چیت ہوئی اور ایک رات کی حراست کے دوران رینجرز نے انھیں کیا احکام دیئے تھے تو فاروق ستار نے کہا کہ رینجرز یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ احتجاج میں کون کون شریک تھا اور متنازع نعرے کس نے لگائے اور کچھ نہیں معلوم کیا۔ رینجرز یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ الطاف حسین کو کون سپورٹ کررہا ہے اور الطاف حسین کے نعروں کا کون جواب دے رہا تھا، وہ بعض لوگوں کی نشاندہی کرنا چاہتے تھے۔ فاروق ستار سے الطاف حسین کے وکیل کی جرح کے دوران الطاف حسین کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود ایم کیو ایم کے سپورٹر مسکراتے رہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا رینجرز نے انھیں الطاف حسین کو معطل کرنے کو کہا تھا تو فاروق ستار نے کہا ان کو پارٹی سے ہٹانے کا فیصلہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔ فاروق ستار نے یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے آواری ہوٹل میں پارٹی کی کارروائی کے دوران، جس میں انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اب ایم کیو ایم کے معاملات صرف پاکستان میں طے ہوں گے اور فیصلے لندن میں نہیں، پاکستان میں ہوں گے اور پارٹی کے رہنما الطاف حسین صرف اپنی صحت پر توجہ دیں گے۔ فاروق ستار نے تسلیم کیا کہ ندیم نصرت سے بات چیت کے دوران انھوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ الطاف حسین کو ہٹانے جا رہے ہیں اور وہ پارٹی سے علیحدہ ہو رہے اور پارٹی کو دولخت کرنے جا رہے ہیں۔ ایم کیوایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن اور پاکستان میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ ایم کیوایم پاکستان الطاف حسین کی صحت بہتر ہونے اور معاملات پرسکون ہونے تک کچھ عرصے کیلئے پارٹی کے معاملات چلائے گی۔ فاروق ستار نے کہا کہ انھیں الطاف حسین کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور انھوں نے کوئی قانون شکنی نہیں کی، الطاف حسین نے خود ہی ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایم کیوایم کا کنٹرول کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت کو دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ وہی اصلی اور واحد ایم کیو ایم ہے، جو 22 اگست 2016 کو موجود اور لندن میں الطاف حسین سے راہیں جدا کرنے کے بعد ایم کیو ایم کا تسلسل ہے اور اس کو 2012 کے پارٹی کے اصل آئین کے مطابق چلایا جا رہا ہے، جس میں الطاف حسین کو بے اختیار کرنے کیلئے اگست2016 میں ترمیم کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے 31 اگست 2016 میں ترمیم کر کے الطاف حسین کو اختیارات سے محروم کردیا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو الطاف حسین کی منظور ی کی ضرورت نہیں تھی۔ آئین کی دفعہ 9-B ن کے تحت دوتہائی اکثریت نے اس کی منظوری دی تھی۔ ایم کیو ایم الطاف یا ایم کیو ایم لندن کا کہنا ہے کہ وہی اصل ایم کیو ایم ہے، جس کی قیادت الطاف حسین کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی 21 اکتوبر 2015 کو سینیٹر سید احمد کے تیار کردہ آئین کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم لندن کا کہنا ہے کہ اس آئین کے مختلف مسودے ہیں لیکن صرف اصلی وہی ہے، 22 اکتوبر2016 کو رابطہ کمیٹی نے جس کی منظوری دی تھی۔ ایم کیوایم لندن کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے اس کی منظور دی تھی۔ مقدمے کی سماعت جاری ہے۔