لندن (مرتضیٰ علی شاہ) متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق کنوینر اور اس کے بانی الطاف حسین کے دور کے چیف لیفٹیننٹ ندیم نصرت نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی علیحدگی پسند قیادت کو لندن ہائی کورٹ میں پارٹی کے بانی کے خلاف سات جائیدادوں کا کیس کبھی نہیں لانا چاہیے تھا۔
انسولوینسی اینڈ کمپنیز کورٹ (آئی سی سی) کے جج مسٹر کلائیو جونز کے سامنے ہائی کورٹ کے پراپرٹیز اینڈ بزنس ڈویژن میں اپنی گواہی دینے کے بعد جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سابق کنوینر نے کہا کہ بانی ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم گروپوں کو اختلافات کے باوجود یہ معاملہ عدالت سے باہر حل کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں اس کیس کو لڑنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ خرچ کر رہے ہیں۔ یہ رقم ایم کیو ایم کے مستحق خاندانوں کو دی جائے۔
ندیم نصرت نے جیو نیوز کو بتایا کہ مقدمے کے نتائج سے قطع نظر انہیں یقین نہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت لندن کی سات جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقم کو ایمانداری سے ڈیل کرے گی اگر ایم کیو ایم پاکستان کے فائدے میں فروخت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ لندن کی جائیدادیں نہ لندن دھڑے اور نہ ہی الگ ہونے والی پاکستان پارٹی کے پاس جانی چاہئیں جن کے قائد اور وفاقی وزیر سید امین الحق الطاف حسین کے خلاف دعویٰ لے کر آئے ہیں۔
ندیم نصرت نے سوال کیا کہ سید امین الحق کو الطاف حسین کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کی ترغیب دینے کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی دعوے اور کیس میں کہیں کیوں نہیں؟
ندیم نصرت نے خالد مقبول صدیقی اور دیگر سے ایم کیو ایم کی وہ جائیدادیں خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے جنہیں وہ ذاتی استعمال میں لے رہے ہیں۔