اسلام آباد (تبصرہ،عمر چیمہ) جس وقت پی ڈی ایم والوں نے پی ٹی آئی حکومت کیخلاف عدم اعتماد تحریک لانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ وزیراعظم عمران خان کے پاس گئے اور انہیں مشورہ دیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تبدیل کر دیا جائے اور ساتھ ہی یہ دلیل دی کہ اس اقدام کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش رُک جائے گی۔
پہلے تو عمران خان اس خیال پر آمادہ نہیں تھے لیکن بعد میں وفاقی حکومت کو بچانے کیلئے اس رائے کو قبول کرنے پر راضی ہوئے۔ انہوں نے بزدار کی جگہ وزیراعلیٰ کسی اور کو وزیراعلیٰ بنانے کیلئے دو نام مانگ لیے جس پر باجوہ نے علیم خان اور پرویز الہٰی کا نام پیش کیا۔
عمران خان نے علیم خان کے نام پر اتفاق کیا لیکن جس وقت وہ لاہور سے اسلام آباد پہنچے تو عمران خان نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ جنرل باجوہ نے یہ کہانی ایک ملاقاتی کو سنائی۔
اس معاملے پر غور و خوص رواں سال جنوری میں عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے سے تین ماہ قبل ہوئے تھے۔ اُس وقت اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی جس میں پی ڈی ایم کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اتحاد کے اقدام سے حکومت چوکنا ہوگئی ہے جس کے بعد ہی یہ مشاورت ہوئی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔
جس دن گجرات کے چوہدریوں نے عمران خان کو وزارت اعلیٰ کے عہدے کیلئے ’’ہاں‘‘ کہا اس کے ایک دن پہلے تک وہ خود بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔
اُس وقت گجرات کے چوہدری پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی والوں کی پیشکشوں کو تول مول رہے تھے۔
اتحادی حکومت بننے کی صورت میں نون لیگ والے پنجاب میں بڑی جماعت بن جاتے اور نون لیگ کے ساتھ ماضی کے اختلافات کو دیکھتے ہوئے ق لیگ والوں کو مستقبل میں ان کے ساتھ پارٹنرشپ کے حوالے سے تحفظات تھے۔
دوسری جانب ق لیگ والے عمران خان کے ساتھ بھی مطمئن نہیں تھے کیونکہ عمران خان نے ہچکچاتے ہوئے مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا تھا لیکن شامل کرنے کے بعد ان کیخلاف اپنے احتساب کے معاون شہزاد اکبر کے ذریعے تحقیقات شروع کرا دیں۔
پس منظر میں گجرات کے چوہدری فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ کس کا ساتھ دیں۔ اُس وقت مونس نے ایک صحافی کو بتایا کہ وہ فیصلہ اسلئے نہیں کر پا رہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے واضح اشارہ نہیں مل رہا۔
انہوں نے کہا کہ جب انہیں رہنمائی کیلئے فون کالز کر رہے ہیں تو یہ لوگ فون نہیں اٹھا رہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ کس کو فون کر رہے تھے تو انہوں نے اس شخص کا نام نہیں بتایا۔ یہ بات چیت صبح میں ہوئی اور شام میں انہوں نے عمران خان سے ملاقات کے بعد ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اگلے دن مونس کی اسی صحافی سے ملاقات ہوئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیسے کیا تو ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔
تاہم، اس وقت زیر گردش اطلاعات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ ایک ریٹائرڈ جرنیل کی فون کال کے بعد کیا تھا۔
اس جرنیل کا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ تعلق تھا۔ لیکن یہ بات ٹھوس نہیں تھی کیونکہ فیض حمید کے جنرل باجوہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی تھی جبکہ پرویز الہٰی نے بھی فیض کے حوالے سے ایک انٹرویو میں کچھ طنزیہ باتیں کہی تھیں۔
اب مونس الہٰی کے واضح بیان سے ساری گرد چھٹ گئی ہے کہ فیصلے میں رہنمائی جنرل باجوہ نے کی تھی۔
اگرچہ ان کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا لیکن یہ واضح ہے کہ باجوہ گجرات کے چوہدریوں کو قابل بھروسہ سیاست دان سمجھتے تھے۔ یہ بات ان کی بات چیت سے بھی عیاں تھی۔ تین ماہ قبل انہوں نے ایک ملاقاتی سے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتے۔ اگر وہ ایسا چاہتے تو چوہدری شجاعت سے کہہ دیتے کہ آپ نکل جائیں۔
اس وقت چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں جبکہ چوہدری شجاعت اپنے تین ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ پی ڈی ایم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی طور پر منتقسم ہیں لیکن چوہدری جنرل باجوہ کے پیچھے متحد ہیں۔