• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کیا حکومت اپوزیشن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے‘‘

اسلام آباد(فاروق اقدس/تجزیاتی رپورٹ) قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ حکومت اور ایک جماعتی اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے کا جو ماحول فریقین کی جانب سے دیئے جانے والے خوش کن بیانات سے شروع ہوا تھا وہ صرف 24گھنٹوں میں ہی مایوس کن اور جارحانہ بیانات سے ختم ہوتا نظر آ رہا ہے ۔خیبرپختونخوا میں اپنی پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ اگر حکومت الیکشن کی تاریخ پر بات نہیں کرتی تو پھر ان سے کس موضوع پر بات چیت ہوگی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ان لوگوں سے بات چیت ہو ہی نہیں سکتی۔ عمران خان کی جانب سے جب مذاکرات کی پیشکش سامنے آئی تھی تو حکومتی ارکان نے اسے ایک ’’مثبت یوٹرن‘‘قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا تھا حتیٰ کہ رانا ثنااللہ جیسے تندوتیز لہجے میں بات کرنے والے وزیر نے اس ردعمل کا اظہار اپنے مزاج سے ہٹ کر کیا تھا لیکن جب بار بار الیکشن کی تاریخ لینے کی تکرار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پہلے اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ مذاکرات میں الیکشن کی تاریخ دی جائے گی یا نہیں پھر معاملات آگے بڑھیں گے تو اس مشروط پیشکش کو حکومت میں عمران خان کی جانب اپنی طاقت اور حکومت کی کمزوری کے تاثر سے تعبیر کیا گیا اور پھر پیشکش کے الفاظ اور بیان کو حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دھمکی آمیز پیشکش قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ دھمکیاں اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اور اتحادی جماعتوں کے پلیٹ فارم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ایک جماعتی اپوزیشن کے سربراہ عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کرنے کی جو شرط رکھی تھی۔ اس پر انہوں نے حکومتی ذمہ داران کے سامنے اپنے شدید ردعمل اور تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی باور کرایا تھا کہ مشروط مذاکرات کی پیشکش کو تسلیم کرنا حریف کی بالادستی کو قبول کرنا اور اپنی کمزوری ظاہر کرنے کے مترادف ہے جس کے بعد حکومت نے بھی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا اور پھر اس کے بعد فریقین کی جانب سے آنے والے بیانات کے بعد مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہونے کے آثار واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ہر چند کہ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی اور اپنی وزارت اعلٰی کو عمران خان کی امانت اور مرہون منت قرار دے رہے ہیں اور باربار یہ یقین دہانی بھی کرا رہے ہیں کہ وہ اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے عمران خان کی ہدایت پر عمل کرنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے لیکن اس یقین دہانی کا بار بار اظہار ہی اسے غیر معتبر اور مشکوک بناتا ہے۔پاکستان میں روایتی سیاست کے بہترین کھلاڑی اور نشیب و فراز سے آگہی رکھنے والے چوہدری براداران جو سیاست کی گرم ریت پر کسی صورت گرم پائوں نہیں رکھتے وہ آج بھی چوہدری شجاعت کی شکل میں وفاقی حکومت کے ساتھ اور پنجاب میں عمران خان کا دم بھرتے ہیں آصف علی زرداری بھی لاہور مشن مکمل کر چکے ہیں اور چوہدری پرویزالٰہی ہر پیشرفت سے پیشتر اس کے آغاز اور انجام کا ایک قابل قبول جواز پہلے ہی سوچ کر رکھتے ہیں۔

ملک بھر سے سے مزید