28؍اپریل 1972ء کو کراچی کے جوبلی سینما میں شان دار گولڈن منانے والی اس فلم ایکشن اور رومانی فلم ’’دولت اور دُنیا‘‘ کے میوزک اور نغمات نے اُس دور میں مقبولیت کے ناقابل تسخیر ریکارڈ کیا، شائقین فلم نے اُسے زبردست کام یابی دلائی۔ رومانس پرور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اپنے مخصوص رومانٹک اسٹائل کو چینج کرتے ہوئے اس فلم میں ایکشن اینگری ینگ مین کے رول میں ناقابل فراموش اداکاری سے شائقین فلم کے دل جیت لیے۔ دوسری خوبی اس فلم میں اداکارہ عالیہ کے بجلی اور شعلہ آمیز ڈانسز تھے، جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے، جسے مقبول ایورگرین بنانے میں موسیقار کمال احمد اور نغمہ نگار خواجہ پرویز کا نمایاں کردارتھا۔ روزینہ کا گلیمراس فلم کی اضافی خوبی ثابت ہوا۔
اس فلم کی کہانی انور اور اختر نامی دو بھائیوں کے گرد گھومتی ہے۔ انور ایک رومان پرور مصور تھا، جس نے اپنے ارمانوں اور آرزئوں کو رنگ و برش کے ذریعے کینوس پر منتقل کرکے تصویروں سے آشکار کیا، لیکن ان تصویروں کا دوسرا رُخ بڑا بھیانک تھا۔ دولت کی پُوجا کرنے والی دُنیا نے اس کی غریب ماں اور بیمار بہن کے ساتھ بہت ظلم کیے، اس کے چھوٹے بھائی اختر کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اس کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دینے، قانون کے طالب علم اختر قانون کا مجرم بن کر کٹہرے میں آگیا۔
اپنی ماں اور بہن کی موت کے بعد اختر نے دُنیا والوں سے انتقام لیا، ظالم اور جابروں کے لیے اب وہ دلبر ڈاکو تھا، جس کے نام سے بڑے بڑے سُودخور اور لٹیرے کانپتے تھے، لیکن خانہ بدوش بجلی اس کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار تھی، کیوں کہ وہ دلبر کی دلبرجانی تھی، دوسری جانب انور کی خیالی و تصوراتی محبت کی تصویر حقیقی صورت میں شہر کی ایک امیرزادی نجمہ کی صورت میں سامنے آئی، تو فضائوں میں پیار کے نغمے گونج اٹھے اور فضا دل کش بن گئی، تو دونوں نے کہا۔’’حسین فضا کا تقاضا ہے مجھ سے پیارکروں‘‘ انور کی محبت کو نجمہ نے قبول کرتے ہوئے کہا ’’کہتی ہے دو دلوں کو محبت پکار کے‘‘ ان دونوں کی محبت کے درمیان نجمہ کا کزن اسلم، جوایک خطرناک اسمگلر اور لالچی انسان تھا، دیوار بن کر سامنے آیا۔ اختر جو اب دلبر ڈاکو بن گیا تھا۔
انورکی شرافت میں اسے سیدھے راستے پر نہ لاسکی۔ خانہ بدوش لڑکی بجلی سڑکوں پر ناچ گا کر لوگوں کی جیبیں کاٹتی اور اپنے حسن کے جلوے عام کرتے ہوئے کہتی’’میں بجلی ہوں میں شعلہ ہوں‘‘۔ اختر کو بجلی کی نشیلی آنکھوں نے جام پلاتے ہوئے کہا ’’جام سے جام ٹکرالے وہ پینے والے او پینے والے‘‘ اختر نے دلبر ڈاکو کے نام سے جتنے جرائم کیے تھے ، ان کا سرغنہ اسلم اور اس کے ساتھی تھے، جب اسلم نے اپنے چچا نواب واحد علی کا قتل کرکے الزام اخترکے شریف بھائی انور پر لگا کر اُسے جیل بھجوا دیتا ہے اور اس حقیقت کا جب نجمہ کو علم ہوتا ہے، تو وہ اختر کو سارا واقعہ بتاتی ہے، تو اختر اسلم اور اس کے ساتھیوں کو مار دیتا ہے۔
بجلی اس لڑائی میں اختر کی جان بچاتے ہوئے اپنی جان دے دیتی ہے۔ اختر، عدالت کے سامنے آکر اپنے سارے جرائم قبول کرکے اپنے ہم شکل بھائی انور کو بے گناہ ثابت کرتا ہے۔ اپنا اقبالی بیان دینے کے بعد اختر عدالت میں ہی مر جاتا ہے، جب کہ انور رہا ہو جاتا ہے۔ نجمہ کے ساتھ اس کا ملاپ ہو جاتاہے۔وحید مراد نے انور اور اختر کے ڈبل کردار کیے تھے۔ انور ایک مصور ہوتا ہے، جب کہ اختر لاء کا طالب علم تھا، جسے حالات نے دلبر ڈاکو بنا دیا تھا۔
عالیہ: خانہ بدوش قبیلہ کی ایک آوارہ رقاصہ بجلی، جو شہر میں چوری، ڈاکے کی وارداتیں کرتی ہے۔ اختر کی بہادری سے متاثر ہو کر اُسے چاہنے لگتی ہے۔ ایک موقع پر اختر کی جان بچاتے ہوئے گولی کا نشانہ بن کر موت کو گلے لگا دیتی ہے۔ روزینہ: شہرکی ایک تعلیم یافتہ رئیس زادی نجمہ، جو مصور انور کی بنائی ہوئی تصاویر سے محبت کرتے ہوئے خود اس کی محبت کا دم بھرنے لگتی ہے۔ اسلم پرویز: ایک لالچی اور مکار شخص اسلم کے کردار میں جو شہر میں ڈاکے اور چوری کی وارداتیں کرنے والے گروہ کا سرغنہ ہوتا ہے۔
اختر کی بہادری کو دیکھ کراُسے اپنے گروہ میں شامل کرکے پارٹنر بناتا ہے۔ اپنی کزن نجمہ کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے چچا کا قتل کردیتا ہے۔ ننھا: سیما کا لالچی باپ، جو اپنے ہونے والے داماد خلیفہ نذیر کو بیمہ کروا کر اس کے مرنے کی ترکیبیں کرتا ہے، تاکہ بیمے کی رقم اُسے مل جائے۔ سکے دار: اس فلم کے کامیڈی سیوکوینس کے تمام مناظر اور مکالمے تحریر کرنے والے اداکار اورکہانی نویس سکے دار نے اس فلم میں ہندو مہاجن کے کردار میں اس فلم میں موجود تھے، انور اور اخترکی والدہ کے گروی رکھے ہوئے زیورات ہڑپ کر جاتا ہے،جس کی وجہ سے ان کی ماں اور بیمار بہن انتقال کر جاتی ہیں۔ اختر دلبر ڈاکو بن کر اُسے اس سے انتقام لیتا ہے۔ سیما: انور اور اختر کی والدہ بنی، حسن آرا: انور اور اختر کی بیمار بہن
فلم دولت اور دُنیا سے جُڑی کچھ یادیں!! آج جب اس فلم کے گیت سماعتوں سے گزرتے ہیں ، تو فلمی صنعت کے سنہرے دور کی بے شمار یادیں اور باتیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ وحید مراد کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جو ڈریس اس فلم میں شیروانی ٹائپ کا کالا کرتا اورکالی پینٹ، انہوں نے پہنی تھی اورگلے میں ایک خُوب صورت لاکٹ پہنا تھا۔ یہ اُس دورمیں بے حد پسند کیا گیا اور فیشن کے طور پراُس وقت بوائز کی فرسٹ چوائس بن گیا۔ خصوصاً وحید مراد کے فینز اس طرح کا بلیک سوٹ اورلاکٹ پہن کر اس فلم کے شوز میں نظر آتے تھے۔