اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں)وفاقی پولیس نے سینئر صحافی اینکر پرسن ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
منگل کو ایس ایچ اوتھانہ رمنا سب انسپکٹر رشید احمد کی مدعیت میں زیر دفعہ 34/302درج کئے گئے مقدمہ میں کینیا کے شہر نیروبی میں فائرنگ کے موقع پر ارشد شریف کے ہمراہ موجود خرم احمد ،وقار احمداور طارق احمد وصی کو نامزد کیا گیا ہے اور مدعی مقدمہ نے عندیہ دیا ہے کہ ان افراد کا قتل میں ملوث ہونا پایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ کی موت اسلحہ آتشیں کے فائر لگنے سے واقع ہوئی۔ جسکی تفتیش بمطابق دفعہ 3تعزیرات پاکستان 1860، پاکستان میں ہو سکتی ہے،لہذا صورت بجرم 302/34 ت پ پائی ، ایف آئی آرمرتب ہوئی ہے۔ انسپکٹر میاں محمد شہباز انچارج کوتفتیش پر مامورکیا جاتا ہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکومت کو رات تک مقدمہ درج کرنے اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے وزارت خارجہ سے کینیا میں تحقیقات اور مقدمہ درج ہونے سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ صحافی قتل ہو گیا، سامنے آنا چاہئے کہ کس نے قتل کیا،معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ کیا وزیر داخلہ کو بلا لیں؟
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صحافی ارشد شریف کے قتل پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ ، سیکرٹری خارجہ امور ، سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، ڈی جی ایف آئی اے ، ڈی جی آئی بی اور صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے کے صدر کو نوٹس جاری کر کے معاملے کی فوری سماعت کیلئے پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا۔ منگل کی دوپہر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ، سیکرٹری داخلہ اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنی تھی ، ارشد شریف کی والدہ کا خط آنے کے بعد سپریم کورٹ کا ایچ آرسیل تحقیقات کر رہا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہو گیا۔ وزارت داخلہ نے پچھلے جمعہ کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ جمع کرانی تھی جو ابھی تک نہیں کرائی گئی۔
حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ کیا وزیر داخلہ کو بلا لیں؟ وزیر داخلہ کہاں ہیں ؟کہاں ہیں سیکرٹری خارجہ؟ اسد مجید صاحب تو پہلے سے ہی کافی مقبول ہیں،سوشل میڈیا پر کیا کیا نہیں کہا جارہا۔
سوشل میڈیا پر جو کہا جارہا ہے کیا وہ آپ نہیں دیکھتے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ رپورٹ میں بعض حساس چیزیں ہو سکتی ہیں ، وزیر داخلہ کے دیکھنے کے بعد رپورٹ بدھ (آج) تک سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیر داخلہ نے رپورٹ تبدیل کرنی ہے؟ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات کرنا حکومت کا کام،عدالت کا نہیں ، کینیا میں حکومت پاکستان کو رسائی حاصل ہے۔