ایم کیو ایم کے مطالبے پر ڈاکٹرسیف الرحمن کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا اور پی پی پی کے رہنما مرتضیٰ وہاب مستعفی ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے 7 اضلاع میں سے 3 (کورنگی، شرقی اور وسطی) کی ایڈمنسٹریٹرشپ بھی ایم کیو ایم کو دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈاکٹرسیف الرحمن گریڈ20 کے افسر ہیں۔ انہوں نے 1996 میں اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ دسمبر 2020 سے اب تک گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ہیں۔ سیف الرحمن کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہونے پر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ایک بار پھر ایک غیر قانونی ایڈمنسٹریٹر کی جگہ ایک اور غیرقانونی ایڈمنسٹریٹر لگادیا گیا ہے، ہمیں یہ تعیناتی قبول نہیں ہے سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیرزمان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر سیف الرحمن کو ایڈمنسٹریٹر بنانا بلدیاتی الیکشن سے قبل کی دھاندلی ہے یہ تقرری ناقابل قبول ہے جماعت اسلامی نے سیاسی ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کو چیلنج بھی کردیا ہے ایڈمنسٹریٹر کراچی کی تقرری پر ایم کیو ایم کے رہنما عامرخان نے کہاہے کہ اتنے کم عرصے کے لیے ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا ہے وہ کیا کام کرے گا عامر خان کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے ایڈمنسٹریٹر کو کام کا وقت نہیں ملے گا اور یہ عہدہ ایم کیو ایم کے لیے بے سود ہے۔
دوسری طرف گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ حکومت میں شامل ہونے پر رضامندی ہوگئی ہے، تاہم رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان اب بھی اس فیصلے پر ناخوش ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بلدیات کے علاوہ کوئی بھی وزارت ایم کیو ایم کے لیے سودمند نہیں ہے، وہ صحت اور تعلیم، ٹرانسپورٹ جیسی اہم وزارت لینے کا مشورہ دے رہے ہیں جن کا براہ راست شہری علاقوں سے تعلق ہے، امکان ہے کہ ایم کیو ایم کے تین وزراء اگلے ہفتے تک اپنے عہدے کاحلف اٹھالیں گے، ایم کیو ایم کی جانب سے جو نام فائنل کئے گئے ہیں ان میں جاوید حنیف کو بلدیات، محمدحسین کو امور نوجوان، کھیل جبکہ رعنا انصار کو خواتین اور انسانی حقوق کی وزارت کا قلم دان دیا جائے گا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور کئی منتخب نمائندوں کے دباؤ پر چند اہم نام واپس لے لیے گئے جن کے رویے سے کارکنان کی بڑی تعداد ناخوش ہے، ایم کیو ایم پاکستان کو دوسرے مرحلے میں سندھ کابینہ میں ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ بھی دیا جائے گا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی نے وزراء کے ناموں کی منظوری دے دی ہے۔ جبکہ نئے ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کے بعد بلدیاتی انتخاب سے قبل ایم کیو ایم کو کراچی کی تین ڈی ایم سیز کی ایڈمنسٹریٹر شپ دینے پر رضامند ہوگئی ہے جس میں لگائے جانے والے تینوں ایڈمنسٹریٹر سرکاری ملازم بھی ہیں، ذرائع کے مطابق ضلع وسطی میں سرکاری افسر فرقان اطیب، ضلع کورنگی کے ایڈمنسٹریٹر کے لیے سرکاری افسر شریف خان جبکہ ضلع شرقی کے ایڈمنسٹریٹر کے لیے سرکاری افسر شکیل احمد کا نام فائنل کیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے دیر سے ہی سہی تمام مطالبات مان لیے گئے تاہم سیاسی دفاتر کھولنے کی اجازت اور لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے مطالبات تاحال پورے نہیں ہوئے ناقدین کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ جتنے بھی حکومتی عہدے لے لیں انہیں جانا عوام کے پاس ہی ہے اور ان عہدوں کی بدولت انہیں عوامی پذیرائی نہیں ملے گی یہ اطلاعات بھی ہے کہ محدود پیمانے پر غیراعلانیہ ایم کیو ایم کے بعض علاقوں میں دفاتر نے کام شروع کردیا ہے تاہم ایم کیو ایم عوام میں کھل کر کام نہیں کر پارہی۔ ادھر کراچی میں غیرقانونی تعمیرات، غیرقانونی سوسائٹیوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کئی علاقوں میں تیس چالیس سال سے رہائش پذیر کالونیوں کومسمار کرنے کا بھی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔
غیرقانونی تعمیرات کا کاروبار منشیات کے کاروبار سے بھی زیادہ منافع بخش ہے غیرقانونی تعمیرات میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت ادارہ تحفظ ماحولیات برابر کے شراکت دار ہیں، بلند اور غیر قانونی عمارتیں بنتے وقت نہ تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کوئی ایکشن لیتی ہے اور نہ ہی ادارہ تحفظ ماحولیات پروجیکٹ کا ماحولیاتی تجزیہ کرتا ہے ان دونوں اداروں کے ڈی جیز انتہائی طاقتور مانے جاتے ہیں اور سندھ کی ایک با اثر شخصیت کے قریب تصور کئے جاتے ہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رکن قومی اسمبلی رمیش لال نے کہا ہے کہ سندھ میں بلڈنگ کے نقشے کے لیے بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ چالیس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں، ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سندھ فون بھی نہیں اٹھاتے، ڈی جی بلڈنگ کنٹرول سندھ نے لاڑکانہ کا براحال کردیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے ایک سماعت کے دوران ایس بی سی اے کی سرزنش کی،جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیئے کہ تمام غیرقانونی تعمیرات آپ کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں، یہاں جو لوگ پیش ہوتے ہیں وہ عدالت کی کوئی معاونت نہیں کرتے۔ ایس بی سی اے حکام نے بتایا کہ سندھ حکومت نے ڈپٹی کمشنر کو بھی غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا اختیار دے دیا ہے۔ جسٹس ندیم اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہم آپ سے بہت نرمی سے بات کررہے ہیں جس کے آپ مستحق نہیں، پہلے آپ تسلیم کریں کہ آپ کا ادارہ کچھ نہیں کررہا ہے۔ آپ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آپ کا ادارہ سب سے اچھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دو اداروں نے کراچی کو کنکریٹ میں تبدیل کردیا ہے ادھر سردی کی شدت کے باوجود سیلاب متاثرین کی دادرسی نہیں ہوسکی۔
سندھ اسمبلی میں تحریک التواء پر ایم کیو ایم کی رکن منگلاشرما نے کہا ہے کہ جہاز کے جہاز بھر کے آئے، امداد متاثرین تک کیوں نہیں پہنچی؟ جی ڈی اے کے رکن شہریار مہر نے کہاکہ کیا صوبہ ڈپٹی کمشنر چلارہے ہیں، تحریک انصاف کےا رسلان تاج نے کہا کہ کورونا کی طرح سیلاب کا پیسہ بھی کھالیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے ناصر قریشی نے کہا کہ آپ اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ جی ڈی اے کا رفیق بانبھن نے کہا کہ ہمیں محکمہ آبپاشی نے ڈبویا، حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔
سندھ کے وزیر جامعات اور بورڈز اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ سیلاب اور بارشوں نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ ہم نے کوئی دعویٰ نہیں کیا مگر کام کیا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی فورم پر بھی بات کی ہے۔ سیلاب سے ہر جگہ تباہی ہوئی ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس اس افتادہ سے نمٹنے کے لیے وسائل نہیں۔ سندھ اسمبلی میں حالیہ سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں کے بارے میں تحریک التواء پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کہ ریلیف کے نام پر سیلاب متاثرین سے مذاق کیا گیا، جو پیسے ملے کہاں گئے؟
پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ کسی طرح کرپشن لپیٹ دی جائے، استاد صرف استادی کررہے ہیں ٹینٹ سٹی کہیں نظر نہیں آئی۔ وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ نے کہاہے کہ حالیہ قدرتی آفت میں 19 ہزار سے زائد اسکول ختم ہوگئے، 23لاکھ بچوں کو ہم کہاں بٹھائیں گے، اس وقت 20 ہزار اسکول کیسے بنائیں، درحقیقت ہم 2 ہزار سے زائد اسکول نہیں بناسکتے، 18 ہزار اسکول ہمارے لیے چیلنج ہے، میں یہاں کھڑے ہوکر سبز باغ نہیں دکھا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں 37 ہزار ٹینٹ چاہئیں جس میں دو سے تین سال تک بچوں کو پڑھا سکیں وزیر تعلیم کی جانب سے تین سال تک ٹینٹ میں بچوں کو پڑھانے کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کا تعلیمی نظام سیلاب کے ساتھ بہہ گیا ہے اور سیلاب متاثرین کی آباد کاری میں وفاق اور صوبائی حکومت سنجیدہ نہیں اس کا اعتراف صوبائی مشیر منظور وسان نےخیرپور میں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت سے نکاسی آب میں کوتاہی ہوئی، بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہے۔
ادھر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کراچی کا دورہ کیا انہوں نے صوبائی امیر محمد حسین محنتی کی اہلیہ کی تعزیت کی، بعد ازاں انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی شہ رگ ہے، اسے خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے لیے بااختیار میئر شہری حکومت کی ضرورت ہے، ایک بااختیار شہری حکومت ہی کراچی کے مسائل حل کرسکتی ہے، کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ حال ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گلی، کوچوں میں غلاظت کے ڈھیر نظر آرہے ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔
سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سیلاب متاثرین کے لیے آنے والے بیرونی فنڈز کا حساب دیا جائے اور بتایا جائے کہ باہر سے کتنا فنڈ آیا اور حکومت نے کتنا جمع کیا اور یہ کہاں خرچ کیا گیا کراچی میں بلدیاتی انتخابات 3 بار ملتوی ہو چکے ہیں، امید ہے کہ الیکشن کمیشن 15جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے گا۔