• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال2022 ء میں افواجِ پاکستان کی کارکردگی اور بعض فیصلوں کو قومی ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی لائقِ تحسین قرار دیا گیا۔ یہ سال اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ اس سال پاک فوج کی کمان تبدیل ہوئی۔فوج کی اعلیٰ قیادت نے باضابطہ طور پر اے پولیٹیکل (غیر سیاسی)ہونے کا اعلان کیا۔ 

نیز، کسی نہ کسی حوالے سے پورا سال ہی پاک فوج اور خصوصاً اعلیٰ قیادت خبروں کا حصّہ رہی۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے نمٹنے، امدادی سرگرمیوں میں افواجِ پاکستان نے بڑا حصّہ ڈالا۔ بعد ازاں، 29نومبر2022 ء کو جنرل سیّد عاصم منیر نے پاک فوج کے17 ویں سپہ سالار کی حیثیت سے کمان سنبھالی، تو لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کیا گیا۔اس سلسلے میں جنرل ہیڈ کوارٹرز راول پنڈی میں ایک پُر وقار تقریب منعقد ہوئی۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ سالِ رفتہ پاک فوج نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی سابقہ پالیسیوں میں تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہوئے اور اپنے حلف کے عین مطابق آئندہ ملکی سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا، تواس سلسلے میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ(ر) نے بھی جی ایچ کیو ،راول پنڈی میں منعقدہ یومِ دفاع و شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’فوج کا اوّلین فریضہ اپنی سرحدوں کا دفاع ہےاورفوج نے فروری 2022ء میں متفقّہ فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ ملکی سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی اور ہم اس فیصلےپر سختی سے کاربند ہیں۔

فوج پربات یا تنقید شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے،لیکن اس ضمن میں مناسب الفاظ کا چناؤ کیا جانا چاہیے۔نیز،فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ ناکام ہوں گے۔‘‘جب کہ اسی حوالے سے مُلک کی75 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک طویل پریس کانفرنس بھی کی، جس میں نہ صرف اے پولیٹیکل ہونے کے عزم کا اعادہ کیا گیا بلکہ صحافیوں کے تندو ترش سوالات کے تسلّی بخش جوابات بھی دیئے۔

ماہِ مارچ میں افواجِ پاکستان نے نہایت پیشہ ورانہ ذمّے داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ سے بچایا۔یاد رہے، 9مارچ 2022 ء کو ضلع خانیوال کے شہر میاں چنوں میں بھارتی میزائل ’’براہموس‘‘آگرا، پاکستانی حدود میں بھارتی میزائل گرنے سے گرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،لیکن دفاعی ماہرین کے مطابق کسی بھی مُلک کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی کوئی بھی شئے حملہ ہی تصوّر کی جاتی ہے اور ایسی صورت میں دفاعی قواعد و ضوابط متاثرہ مُلک کوفوری جوابی حملے کی پوری اجازت دیتے ہیں، لیکن یہ دیکھنے کے بعد کہ مذکورہ بھارتی میزائل پر وارہیڈ نہیں تھا، افواجِ پاکستان نے فوری ردِ عمل سے گریز کیا۔

دوسری طرف یہ میزائل گرنے کے دو روز بعد11 مارچ کو بھارتی وزارتِ دفاع کی طرف سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا کہ’’معمول کی دیکھ بھال کے دوران تیکنیکی خرابی کے باعث میزائل حادثاتی طور پر فائر ہوگیا تھا، اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔‘‘دفاعی ماہرین کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے مابین یہ تنازع بڑھنے کی صُورت میں خطّے میں غیر یقینی کی سی صورتِ حال پیدا ہو سکتی تھی، لیکن پاکستان کے ذمّےدارانہ ردّعمل کی وجہ سے جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ سے بچ گیا۔23 مارچ ’’یومِ پاکستان ‘‘کے موقعے پر اسلام آباد کے شکرپڑیاں پریڈ گراؤنڈ میں پریڈ کی ایک شان دار تقریب منعقدکی گئی، جس میں تُرکیہ، سعودی عرب، ازبکستان اور آذربائیجان کے فوجی دستوں نے بھی خصوصی طور پرشرکت کی۔

یاد رہے، چِین کے اشتراک سے بننے والا جنگی طیارہ ’’جے 10 -سی‘‘ بھی اسی پریڈ میں پہلی مرتبہ فلائی پاسٹ کا حصّہ بنا۔اس ولولہ انگیز تقریب میں آلاتِ حرب کی نمائش کے دوران پاکستان کے تیارکردہ مختلف میزائلز مرکزِنگاہ بنے رہے۔ پھر ماہِ اپریل میں پاکستان نے زمین سے زمین تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل’’ شاہین تِھری‘‘ کا کام یاب تجربہ کیا ۔ اس موقعے پر پاک فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل افتخار بابر کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کا مقصد ہتھیاروں کے نظام کے مختلف ڈیزائنز اور تکنیکی پیرا میٹرز کا جائزہ لینا ہےاورحالیہ تجربے سے شاہین بیلسٹک میزائل کے ڈیزائن اور تکنیکی پہلوؤں کی ایک بار پھر توثیق کی گئی ہے۔‘‘ 

واضح رہے کہ شاہین تھری پاکستان کا جدید ترین درمیانی حدِ ضرب والا بیلسٹک میزائل (ایم آر بی ایم) ہے ،جو زمین سے زمین پر 2,750 کلومیٹر کے فاصلےاور 22,226 کلومیٹر فی گھنٹہ کی (آواز سے 18 گنا زیادہ) تیز رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس رینج اور رفتار کا مطلب یہ ہے کہ بھارت سے جنگ کی صُورت میں شاہین تھری بیلسٹک میزائل دہلی کو صرف تین منٹ میں نشانہ بناسکے گا اور بھارتی فوج کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں ہوگا۔ یہ ’’شاہین بیلسٹک میزائل‘‘سلسلے کا تیسرا میزائل ہے،جس کی خاص بات اس میں ٹھوس ایندھن کا استعمال ہے۔ 

اسے بیک وقت کئی وار ہیڈز سے لیس کیا جاسکتا ہے،جو روایتی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر روایتی (نیوکلیائی) بھی،جب کہ ان کا مجموعی وزن 1000 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔اسی طرح پاک فوج جہاز سازی کی صنعت میں بھی روز افزوں ترقّی کر رہی ہے، جس کا ثبوت مُلک ہی میں جے ایف تھنڈر17اور مشّاق جہازوں کی تیاری کا کام ہے۔ یعنی سامانِ حرب اور افرادی قوّت کسی بھی معاملے میں افواجِ پاکستان کسی سےکم نہیں۔

اکتوبر میں پاکستان کو ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف)‘‘ کی گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان کیا گیا، جس میں عسکری اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ واضح رہے، پاکستان2008 ء سے ایف اے ٹی ایف کی مانٹیرنگ لِسٹ میں شامل تھا، جب کہ جنوری2018 ء میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا،جس سے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر ہوئی، بلکہ یہاں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات بھی معدوم ہو کر رہ گئے، جس کا پاکستانی معیشت پر نہایت منفی اثر پڑا۔ بعدازاں، ایف اے ٹی ایف کے اس شکنجے سے نکلنے کے لیے2019 ء میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی زیرِ نگرانی جی ایچ کیو راول پنڈی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا۔

پاک فوج کے قائم کردہ اس سیل نے شب وروز کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ پر ایک مکمل لائحہ عمل ترتیب دیا اور اس پر عمل درآمد کرکے وسط2022 ء میں اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا۔اس طرح عالمی برادری کو یہ پیغام پہنچا کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث ہےاور نہ ہی ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ۔ بلاشبہ اس کام یابی کا سہرا سبک دوش ہونے والے آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے سر ہے،جنھوں نے عالمی رِسک بیسڈ اسٹریٹیجی کی پاس داری کی روایت برقرار رکھی اور پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی بھارت کی تمام تر مذموم کوششوں کو ناکام بنادیا۔

نومبر2022 ءمیں قطر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی سیکیوریٹی کی ذمّے داری افواجِ پاکستان کو سونپی گئی،جو بلاشبہ پاکستان اور ا فواجِ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ کھیلوں کے اس عالمی مقابلے کی سیکیوریٹی کے لیے کئی ممالک، بالخصوص امریکا اور بھارت بھی قطار میں موجود تھے،لیکن قطر نے پاکستان کا انتخاب کیا۔نیز،حکومتِ قطر کی خصوصی درخواست پر پاک بحریہ کاجنگی جہاز’’تبوک‘‘بھی دوحابھیجا گیا۔ یوں،فُٹ بال کے اس عالمی مقابلےمیں گرچہ پاکستان کی ٹیم تو نہیں کھیل رہی تھی، لیکن سیکیوریٹی ڈیوٹی پرمامور پاکستانی فوجی دستہ اور کھیل کےمیدان میں کھلاڑیوں کو اپنے پیچھے بھگانے والی ’’الرحلہ‘‘نامی فُٹ بال قدم قدم پر پاکستان کی موجودگی کااحساس دلاتے رہے۔

ماہِ نومبر کے تیسرے ہفتے میں کراچی میں دفاعی نمائش’’آئیڈیاز 2022 ء‘‘کا شان دار اور کام یاب انعقاد کیا گیا۔ اس چارروزہ نمائش میں 64 ممالک اپنی دفاعی مصنوعات کےساتھ شریک ہوئے۔ اس ضمن میں سال2000 ء میں پہلی بار کراچی میں منعقد ہونے والی’’انٹرنیشنل ڈیفنس ایگزیبیشن اینڈ سیمینار‘‘ عالمی دفاعی مارکیٹ میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کابیّن ثبوت تھی۔ یاد رہے،’’آئیڈیاز‘‘خطّےمیں دفاعی سازو سامان کی نمایش کاسب سے بڑا فورم بن چُکاہے،جس میں اسلحے کی صنعت سے وابستہ مقامی و غیر ملکی اسلحہ ساز کمپنیز اور ڈیلرز کو اپنی مصنوعات وخدمات اُجاگر کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہےاوراس نمایش میں افریقا،امریکا،مشرقِ وسطیٰ، ایشیائی، وسط ایشیائی اوریورپی ممالک بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ڈیفینس پروموشن آرگنائزیشن میجر جنرل عارف ملک کے مطابق ’’آئیڈیاز‘‘ دراصل دفاعی سفارت کاری کا ایک بڑا اور اہم ایونٹ ہوتا ہےکہ یہ نمایش پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے ایک جدید،ترقّی یافتہ اور پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنے والی ریاست کے طور پر اُجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان نے ’’آئیڈیاز 2022ء‘‘میں بھی حسبِ سابق مقامی سطح پر تیار کیے گئے اپنے جنگی ہتھیار نمایش کے لیے پیش کیے۔نیز،اس میں پاک بحریہ نے بھی بھرپور شرکت کی۔ آبی سرحدوں کی محافظ پاکستان بحریہ کے اسٹال پر بحری بیڑے کی موجودہ انوینٹری کے مختلف ماڈلز اور تازہ ترین انڈکشنز ڈسپلے کیے گئے۔

علاوہ ازیں، اسٹال کا دَورہ کرنےوالے مندوبین کو مقامی طور پر تیارکردہ گن بوٹ اور ’’جناح کلاس فریگیٹ (JCF)‘‘سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی۔پاک فضائیہ نے بھی ’’آئیڈیاز 2022 ء‘‘میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے ’’نیشنل ایرواسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک پراجیکٹ (NASTP)‘‘کا اسٹال لگایا، جو خاص طور پر غیر ملکی مہمانوں کی توجّہ کا مرکز بنا رہا ۔یاد رہے، یہ پراجیکٹ سربراہ پاک فضائیہ، ائیر چیف مارشل، ظہیر احمد بابر سدھو کے ازخود اقدامات کی بدولت مقرّرہ وقت پرمکمل ہوسکا۔

علاوہ ازیں’’آئیڈیاز‘‘میں پاک فضائیہ کےتیارکردہ ’’جےایف 17 تھنڈر‘‘ طیارےکے علاوہ لڑاکا پائلٹس کی تربیت کے لیے تیار کردہ ’’مشّاق‘‘، ’’سُپرمشاق‘‘ اور ’’کے 8 طیارے‘‘بھی نمایش کے لیے پیش کیے گئے۔ہمارے لیے قابلِ فخر بات یہ ہے کہ پاک فضائیہ نے اپنے ہی مُلک میں جنگی ہوائی جہاز بنانے پر خصوصی توجّہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں اب ’’جے ایف 17 تھنڈر طیارے‘‘کا نیا بلاک بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چِین کے اشتراک سے پاکستان میں بننے والے اس جنگی ہوائی جہاز کا اَپ گریڈڈ وَرژن پرانے ہی نام سے، مگر اس سے کہیں بہتر معیار اور جدید خصوصیات کاحامل ہوگااورپاکستان کے کئی دوست ممالک اس جہاز کو خریدنے میں دل چسپی ظاہر کررہے ہیں، جب کہ تُرکیہ اور مصر پہلے ہی پاکستان کا تیار کردہ ’’مشّاق طیارہ‘‘خرید چُکے ہیں۔ بلاشبہ جہاز سازی کی صنعت میں ہماری اس روز افزوں ترقّی ہی نےعالمی سطح پر جے ایف- 17 تھنڈر اور مشّاق جہازوں کے خریداروں میں اضافہ کیا ہے۔

2022 ءمیں آنے والے سیلاب نے پاکستان کے چاروں صوبوں کو شدید متاثر کیا اور ہر مرتبہ کی طرح مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے شہریوں کو بچانے اور ان کی بحالی میں افواجِ پاکستان نےانتہائی اہم کردار اداکیا۔واضح رہے کہ کسی بھی قسم کی سیلابی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج نے’’آرمی فلڈ پروٹیکشن اینڈ ریلیف آرگنائزیشن‘‘کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کر رکھی ہے۔سیلاب کےدوران اور بعد از سیلاب افواجِ پاکستان کے جرّی سپاہیوں نے اندرونِ سندھ، بلوچستان،خیبر پختون خوا اور جنوبی پنجاب میں ہزاروں متاثرین کو ریسکیو کرکے محفوظ مقامات تک پہنچایا۔

ٹھٹھہ میں ساٹھ خاندانوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خیمہ بستی قائم کی،تھر،بدین،سانگھڑ، دادو، میرپورخاص، نوشہرو فیروز اور خیر پور سمیت متعدّد اضلاع میں متاثرین کو راشن اور دیگر امدادی اشیا فراہم کرنے کے علاوہ سانگھڑ میں ’’فیلڈ میڈیکل سینٹر‘‘ بھی قائم کیا اور ٹنڈو اللہ یار اور مٹیاری میں موبائل میڈیکل ٹیمز کے ذریعے طبّی امداد فراہم کی۔جنوبی پنجاب میں متاثرین کے لیے50 سے زائد ریلیف کیمپس اور چار فیلڈ میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے۔ بلوچستان میں چالیس ہزار سے زائد شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور طبّی امداد کی فراہمی کے لیے پانچ فیلڈ میڈیکل کیمپس قائم کیے۔

اسی طرح خیبر پختون خوا کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھی پاک فوج نےامدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیا۔ یہی نہیں، سیلاب زدگان میں اپنا تین دن کا راشن بھی(قریباً 1500 ٹن) تقسیم کردیا۔ اس مشکل ساعت میں نہ صرف فوجی جوان بلکہ اعلیٰ فوجی افسران بھی میدانِ عمل میں موجود رہے۔اسی دوران بلوچستان میں سیلابی علاقوں کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے کور کمانڈر کوئٹہ، لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہو گیااورحادثے میں کور کمانڈر، کوئٹہ سمیت پانچ فوجی افسران نے جامِ شہادت نوش کیا۔

پاک فوج کی چھے آزادکشمیررجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل سرفرا ز علی کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے79 ویں لانگ کورس سے تھا۔پاک فوج کے اس ہونہار افسر کو 2012ءمیں 111 بریگیڈ کا کمانڈر تعینات کیا گیا۔وہ امریکا میں پاکستان کے دفاعی اتاشی کے طور پر بھی خدمات انجام دیتےرہے۔امریکا سے واپسی کے بعد انھیں اسٹاف اینڈ کمانڈ کالج، کوئٹہ کا کمانڈنٹ تعینات کر دیاگیا۔وہ 2018ء سے دسمبر 2019ءتک ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جینس رہے۔ 

نومبر2020 ءمیں انھیں لیفٹیننٹ جنرل کے عُہدے پر ترقّی دی گئی اور اگلے ہی مہینے کور کمانڈر کوئٹہ تعینات کردیا گیا۔ یکم اگست 2022ء کو سیلاب متاثرہ علاقوں کا دَورہ کرتے ہوئے ان کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہو گیا۔ حادثے میں شہید ہونے والے دیگر افسروں، جوانوں میں بریگیڈیئر امجد حنیف، بریگیڈیئر محمّد خالد، میجر سعید احمد، میجر طلحہ منّان اور نائیک مدثّر فیاض شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھی قریباً سال بھر ہی ملکی سرحدوں کا دفاع یقینی بناتے ہوئے مادرِ گیتی کے بیٹے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتےرہے۔

سالِ گزشتہ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامّہ اور سِکس سگما پلس کے اشتراک سے پیش کیے جانے والے ڈراماسیریل ’’صنفِ آہن‘‘ نے بھی خاصی مقبولیت حاصل کی۔ علاوہ ازیں 2022 ءمیں آئی ایس پی آر کی طرف سے پانچ نئے نغمے جاری کیے گئے، جن میں ’’دل اور قریب آجائیں گے‘‘،’’نذرانہ‘‘،’’جرأت کے نشان‘‘، ’’شاد رہے پاکستان‘‘ اور ’’نکل پڑا‘‘ شامل ہیں۔