اسلام آباد(جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ میں نیب آرڈیننس میں ترامیم کے آرڈیننس 2022 کے خلاف پی ٹی آئی کے سربراہ ، عمران خان کی پٹیشن کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ قانون سازی صرف اور صرف پارلیمنٹ کا اختیار ہے جس میں کوئی عدالت بھی مداخلت نہیں کر سکتی ہے جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے سواال اٹھایا ہے کہ کیا ملکی سلامتی، ترقی اور بہتری کے برخلاف قانون سازی ممبران پارلیمنٹ کے حلف کی خلاف ورزی تصور ہو گی یانہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جج ملکی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے مطابق فیصلوں کا حلف نہیں لیتے ہیں بلکہ وہ قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف لیتے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا ء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی سپیشل بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدلیہ ، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہیے، آئین میں عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے عدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار دیاہے لیکن عدالتی فیصلے میں بھی قوانین کالعدم قرار دینے کا اختیار مشروط ہے ، ممبران پارلیمنٹ آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف لیتے ہیں، جس پر جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کے حلف میں یہ بھی ہے کہ وہ تمام فیصلے ملکی سلامتی، ترقی و بہتری کے لیے کریں گے۔