• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسیم امیرعالم قریشی

میں ایک بہت ٹھنڈی سی شام میں اپنے گھر میں گرم کمرے میں لحاف میں دُبکی چلغوزے اور مونگ پھلی کھانے کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر اپنے پسندیدہ کارٹون بھی دیکھ رہی تھی اور سردی کے مزے لے رہی تھی کہ اچانک مجھے کمرے میں بے پناہ ٹھنڈک کا احساس ہوا ، اور میں تھرتھرکانپنے لگی۔ یااللہ کیا کھڑکی کھلی رہ گئی ہے۔ 

میں نےگھبرا کر خواب گاہ کی کھڑکی کی جانب نظر دوڑائی تو وہ بھی بند تھی، اتنے میں گرم کمرے میں اچانک سردی کہاں سے آگئی، میں ٹھٹھر کر ہڑبڑائی تو جیسے کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی، ’’مجھے آنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں میرا دِل چاہتا ہے اور جب میرا دِل چاہتا ہے بلااجازت پہنچ جاتی ہوں‘‘۔ 

میں ڈر گئی۔ ’’گھبرائو نہیں! لوگ تو مجھے پسند کرتے ہیں تم ڈر رہی ہو۔ ان لفظوں کے ساتھ سفید مخمل جیسے کپڑے میں لپٹی برف جیسے بالوں والی دُودھیا سی رنگت والی خاتون میرے سامنے آ گئی۔’’ آپ… آ… آ… آپ کون ہیں؟ ہم نے گھبراتے ہوئے کہا۔’’ ارےاتنی جلدی بُھول گئی ابھی تو تم نے میرا نام لیا تھا۔ ‘‘سردی آنٹی مسکراتے ہوئے بولی ان کے مسکرانے سے ٹھنڈ میں اضافہ ہوگیا۔ میں نے جھرجھری سی لی، ان کو مُسکراتا دیکھ کر میری جان میں جان آ گئی، آپ اچانک میرے گھر… میرا مطلب یہاں کیسے۔‘‘میں سردی آنٹی کی اچانک آمد پر بوکھلا سی گئی۔ 

دراصل تم مجھے اکیلی بیٹھی نظر آئیں اور تم مجھے پسند بھی کرتی ہو، اسی لیے میں نے سوچا آج کی شام تمہارے ساتھ گزاری جائے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، موقع اچھا ہے کیوں نہ سردی آنٹی کا انٹرویو کر لیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی میں اُچھل پڑی اور سردی آنٹی سے اپنی خواہش کا اظہار کیا یہ سُن کر وہ مسکرا دی۔

ان کے مُسکرانے سے ٹھنڈ مزید بڑھ جاتی تھی ۔ انھوں نے شاہانہ انداز میں ہمیں باقاعدہ انٹرویو کی اجازت دے دی،اُسی لمحے ہم قلم و کاغذ سنبھال کر بیٹھ گئے اور لگے ان سے سوالات کرنے۔

سوال:۔ آپ کے اور بہن بھائی بھی ہیں یا اکیلی ہیں؟

سردی آنٹی:۔ جی میری دو بہنیں ہیں۔ میں زیادہ تر مغرب میں رہتی ہوں، مشرقی لوگوں کے پاس میری پڑوسن گرمی رہتی ہے۔لوگ مجھے بہت پسند کرتے ہیں اور میرے آنے پر خُوش ہوتے ہیں، بس کچھ بوڑھے مُنہ بنا کر مجھے ناپسند کرتے ہیں۔

سوال:۔ آپ جہاں جاتی ہیں خالی ہاتھ جاتی ہیں یا تحفے وغیرہ بھی لے کر جاتی ہیں؟

سردی آنٹی:۔ جی ہاں! کیوں نہیں مونگ پھلی، چلغوزے، اخروٹ اور دُوسرے خشک میوہ جات میری لائی ہوئی سوغاتیں ہیں،اس کے علاوہ پھل، کینو، ہم لوگ وغیرہ بھی میرے آنے سے ہی آتے ہیں۔ کافی اور گرم کپڑوں کامزہ بھی میری وجہ سے ہے، یہ سب میرے دیئے ہوئے ہی تو تحائف ہیں۔

سوال:۔ لیکن آپ کے آتے ہی بچّے خاص طور پر بیمار پڑ جاتے ہیں اس کی کوئی خاص وجہ؟

سردی آنٹی:۔ (سوچتے ہوئے) دراصل جب میں دھیرے دھیرے آ رہی ہوتی ہوں اور دھیرے دھیرے جا رہی ہوتی ہوں تب تو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچّوں کو میرے آنے جانے کےوقت تک ٹھنڈے پانی سے نہیں نہانا چاہیے، گرم کپڑے پہننے چاہئیں۔ خصوصاََ شام کے وقت پہننا چاہیے۔ گرما گرم ۔ سُوپ پینا چاہیے، چھوٹے بڑے بچّے روز ایل انڈہ ضرورکھائیں اس کے علاوہ گھروں کو بھی گرم رکھیں۔

سوال:۔ آپ کی کس بہن سے زیادہ دوستی ہے؟

سردی آنٹی:۔ میری دونوں بہنیں بہت اچھی ہیں، ہم اکٹھے رہتےہیں، کیونکہ اتحاد میں برکت ہے۔ بہن بھائی مل جل کر رہیں اس بات سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتے ہیں اور انعام دیتے ہیں۔

سوال:۔ آپ کی کبھی لڑائی نہیں ہوئی اپنی بہنوں سے؟

سردی آنٹی:۔ نہیں نہیں! ہم آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ گندے بچّے لڑتے ہیں۔ اللہ نے لڑائی کو ناپسند فرمایا ہے۔ جھگڑے سے دُور رہنا چاہیے۔

ہم نے(گہری سانس لیتے ہوئے)کہا، کوئی پیغام جو آپ بچّوں کو دینا چاہیں گی؟

سردی آنٹی: دُنیا میں عزت، شہرت، دولت حاصل کرنی ہے تو دِل لگا کر پڑھو، علم حاصل کرو گے تو سب کچھ مل جائے گا، اپنے اَمّی اَبّو کا اَدب کرو اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ پیار، محبت سے رہو، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ساتھ اَمّی جان کی آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔

پیارے بچو! کیسی لگی ہماری ملاقات سردی آنٹی سے۔