• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا، جنرل باجوہ کہتے تھے توسیع نہ ملی تو مشکل ہوگی، عمران خان

کراچی (نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اب شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا ،جنرل باجوہ کہتے تھے توسیع نہ ملی تو مشکل ہوگی ، 6گواہ ہیں کسی سے بھی پوچھ لیں ،باجوہ توسیع ملنے پر بدل گئے ، پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ نہیں اب وقت بدل گیا ہے ، اتحادی حکومت کے بڑے مسائل ہوتے ہیں، میرے لئے یہ عذاب تھا ، اسٹیبلشمنٹ اور میرا انٹرسٹ ایک ہے ، سری لنکا اور مصر کی طرح ملک نیچے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کا نقصان ہوگا، سچائی اور مصالحت کی ضرورت ہے ، ڈرا دھمکا کر آپ ملک کو بنانا ریپبلک بنارہے ہیں ، خیبرپختونخوا اسمبلی ایک ہفتے میں تحلیل ہوجائیگی ،پرویز الٰہی نے غیر مشروط ساتھ دیا، ذمہ داروں کو معافی مانگنی چاہئے، بدلہ لینےکا شوق نہیں، اپریل میں الیکشن ہو جائیں گے ،ایک انٹریو میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ صرف اعتماد کا ووٹ نہیں ہمارے اور بھی پلانز ہیں ان کو ذرا پہلی دفعہ امتحان میں ڈالیں، جنرل باجوہ کہتے تھے توسیع نہ ملی تو مشکل ہوگی ، سخت فیصلے کرنے کیلئے طاقتور حکومت چاہیے ، جیسے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل ہوتی ہے، اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر خیبرپختونخوا ہ کی اسمبلی بھی توڑ دیں گے، یہ تاثر غلط ثابت ہوگیا کہ پنجاب اسٹبیلشمنٹ کے خلاف نہیں کھڑا ہوتا ،اس تبدیلی کا اثر پورے صوبے کی سیاست پر پڑا،ہم شہباز شریف کو پوری طرح ٹیسٹ کریں گے، ہم صرف اعتماد کے ووٹ لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے اس کے علاوہ بھی منصوبے ہیں،اس نے ہمیں ٹیسٹ کیا، اب امتحان کی باری اس کی ہے تو بالکل کریں گے، ہمارا آج اتوار کو اجلاس ہے، اس میں فیصلہ کریں گے کہ کب اعتماد کے ووٹ لینے کا کہیں گے،اصل قربانی مسلم لیگ (ق) نے دی ہے، ہم ان کو تجویز دے رہے ہیں کہ آپ پارٹی ضم کریں کیونکہ اتحادی سیاست میں بڑے مسائل ہوتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے سارے لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں، جائزہ لے رہا تھا کہ ٹمپریچر کیا ہے، ہمارے چیف وہپ کو یقین تھا کہ نمبرز پورے ہوں گے، جب آصف زرداری، سندھ کے چند وزرا ء کے ساتھ نوٹوں کی تھیلیاں لے کر آئے، اس وقت ہمارے کئی اراکین گھبرائے ہوئے تھے،عمران خان نے کہا کہ جو گمنام نمبروں سے فون کرتے ہیں، یہ بھی دھمکیاں دے رہے تھے، یہ بھی پیشکش کررہے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)میں چلے جائیں، عمران خان پر ریڈ لائن ڈال دی ہے، اب اس نے آنا نہیں ہے، لیکن میں اپنے لوگوں کے ٹمپریچر کا جائزہ لے رہا تھا، پاکستان بدل گیا ہے، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس طرح کے رکن صوبائی اسمبلی اس طرح کا دبائو ڈالا گیا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اب جائیں گے نہیں،انہوںنے کہا کہ 16 جولائی کو پنجاب کے ضمنی انتخابات کا جو نتیجہ آیا ہے، اس سے پاکستان کی پوری سیاست کو شاک ویو گزرا، پنجاب کی سوچ ہوتی تھی کہ جدھر اسٹیبلشمنٹ ہے، ادھر پنجاب ہے، پنجاب اسٹبیلشمنٹ کے خلاف نہیں کھڑا ہوتا، اس تبدیلی کا اثر پوری پنجاب کی سیاست پر پڑا، اس کا ہمارے سارے اراکین اسمبلی کو بھی پتا تھا کہ اس وقت جو پارٹی چھوڑے گا، وہ اپنی سیاست کا جنازہ نکالے گا، یہ بہت بڑی تبدیلی تھی،پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم رات 10 بجے اندازہ ہوگیا کہ اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اعتماد ووٹ لے لیں،انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمننٹ ادھر کھڑی ہوئی تھی اور ہمیں خطرہ یہ تھا کہ یہ روک دیں گےاس لئے کسی کواعتماد کے ووٹ کا نہیں بتایا تھا بلکہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے بھی دو تین دن کی تاریخ بعد میں بتائی، ہم نمبر فالو کرتے جارہے تھے کہ اب کہاں کہاں پہنچے ہیں میں یہاں بیٹھ کر جس طرح کوئی ٹیسٹ میچ کا اسکور دیکھ رہا ہوتا تھا میں نمبر دیکھ رہا تھا ہماری ٹیم بیٹھی ہوئی تھی اسمبلی میں ہمیں رات دس بجے اندازہ ہوگیا کہ اب ہم اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ ووٹ لے لیں، اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، رات میں دھند نہیں پڑی کیوں کہ ہمارے تین چار آرہے تھے بڑی دور دور سے اگر دھند ہوتی تو یہ لوگ نہیں پہنچ سکتے تھے ، حافظ ضمار کا لگ رہا تھا کہ نہیں آئیں گے ، ہم نے پھر تین چار پولیس اسکوڈ کی گاڑیاں بھیجیں تاکہ کہیں راستے میں ہائی جیک ناں ہوجائیں، مونس الٰہی نے بڑا کردار ادا کیا، وہ ا سپین سے اپنے اراکین کو فون کررہا تھا کیونکہ آخر میں پاکستان مسلم لیگ (ق)کے اراکین کم تھے، ہمارے پورے ہوگئے تھے،انہوں نے بتایا کہ کسی رکن اسمبلی پر چھاپہ نہیں مارا گیا،کسی کو فورس نہیں کیا گیا، میں یقین دلاتا ہوں کہ صرف ڈر یہ تھا ،سیاست میں ہم نے ہارس ٹریڈنگ نہیں کی یہ چھانگہ مانگا کی سیاست کا تسلسل ہے ، ملک بدل گیا ہےاسٹبلشمنٹ یہ تسلیم نہیں کررہی، (ق)لیگ کے ساتھ اتحاد سے متعلق سوال پر انہوںنے کہا کہ جس طرح چوہدری پرویز الٰہی ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے، 10 ممبرز کے ساتھ وزیراعلیٰ بننااور پھر قربانی دینا ،اصل قربانی تو انہوں نے دی ہے،ہماری جماعت میں ان کو بڑا سراہا گیا، ہم ان کو تجویز دے رہے ہیں کہ آپ پارٹی ضم کریں کیونکہ اتحادی سیاست میں بڑے مسائل ہوتے ہیں، میں نے ساڑھے تین سال حکومت کی ہے، میرے لیے سب کو ہینڈل کرنا عذاب تھا، مطالبات ہوتے تھے، ہم انہیں ڈیویلپمنٹ فنڈ دیتے تھے تو ہمارے لوگ ناراض ہو جاتے تھے، میں یہ ہینڈل کرتے ہوئے پاگل ہو گیا تھا، یہ (ق)لیگ کے بھی مفاد میں ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں لیکن ہم ان کا احترام کریں گے وہ جو بھی فیصلہ کریں،فضل الرحمن کے منہ سے سنا ہے کہ دلدل میں ہم دھنستے جارہے ہیں یعنی یہ ثابت ہوتا ہے انہوں نے کوئی ملک میں مہنگائی کم کرنے کے لئے حکومت نہیں لی تھی ان کو تو اپنی چوری بچانے کے لئے لی تھی، عمران خان نے کہا کہ جدھر پاکستان پہنچ گیا ہے، اس وقت ایک مضبوط اور طاقتور حکومت کی ضرورت ہے، جو مشکل فیصلے کر سکے، جو ایسے فیصلے کر سکے جو آج تک کسی نے پاکستان میں نہیں کئے،بدقسمتی ہے کہ مارشل لا ء بھی لگا، مارشل لا ء کی حکومتیں ملک کو تو ٹھیک کر سکتی تھیں، احتساب، انصاف کا نظام اور اداروں کو تو ٹھیک کر سکتی تھیں، مافیاز کو کنٹرول کر سکتی تھیں،عمران خان نے کہا کہ مجھے خود کسٹم والے بتا رہے تھے کہ کمزور سے کمزور کوئٹہ کا کلکٹر بھی ایک ارب روپے مہینے کے بناتا ہے، آپ سوچ لیں وہاں اور کتنا پیسہ لوگوں کی جیبوں میں جا رہا ہے، حکومت کمزور ہے، لوگ امیر ترین ہیں۔حکومت کمزور ہے لوگ امیرترین ہیں، اس ملک کے ساری رولنگ ایلیٹ کے بڑے محلات ہیں، بینک بیلنس باہر ہیں لندن گرمیوں میں جائیں تو ہر دوسرا دن پاکستانی ایسے رہ رہے ہیں جیسےلندن ان کا دوسرا گھر ہے، اس بار پھر سیاسی انجینئرنگ دیکھ رہاہوں، ایم کیو ایم کو اکٹھا کر رہے ہیں، باپ کو پیپلز پارٹی بھیج رہے ہیں ،ساؤتھ میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو سیٹیں ،جے یو آئی کو پختونخوا میں اور پنجاب میں لوگوں کوکہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ میں چلے جاؤ، عمران خان پر کراس ڈال دیا انہوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ،سیاسی انجینئرنگ نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا کسی کو سمجھ ہو تاریخ کی سمجھ ہو اور ملک کا سوچیں یہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد ناں سوچیں،الیکشن کمیشن کو صرف فری اینڈ فیئر الیکشن کروانے چاہئیں،الیکشن کمیشن پر کسی کو اعتماد نہیں ہے، ہمارے خلاف جو یہ فیصلہ کرتے ہیں ہم عدالت جاتے ہیں وہ اس کو اور ٹرن کردیتے ہیں ، جب تک پاکستان کے اندر ایک فری اینڈ فیئر الیکشن ایک طاقتور حکومت مضبوط ادارے رول آف لاء یہ شروعات ہوگی ، ہندوستان کے ٹی وی پر دیکھیں جس طرح پاکستان کا مذاق اڑا رہے ہیں ہمارے ملک کو کس طرح پوٹرے کر رہے ہیں دنیا میں جو امیج آگیا جنیوا میں اپنا مذاق اڑایا ہے، میں مغربی ذہن کو سمجھتا ہوں، جب وہ ان کے وزیراعظم جا کر سادگی میں رہتے ہیں ،جو رہن سہن ہے ان کو سمجھ نہیں آتی مغرب کیسے ان کا مذاق اڑاتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں انجیلنا جولی نے جب وہ آئی یوسف گیلانی نے ، وہ آئی سیلاب متاثرین کے لیے اس کے کمنٹ دیکھیں کیا کئے، مجھے افسوس یہ ہے کہ اگر اس وقت غلط فیصلے کئے گئے کمزور حکومت لا کر میں کبھی کمزور حکومت میں نہیں بیٹھوں گا کیوں کہ ہم کچھ نہیں کرسکیں گے، اگر ملک نیچے جاتا ہے تو سب سے پہلے نقصان تو اسٹبلشمنٹ پر ہوگا، اب سری لنکا کو آئی ایم ایف نے حکم دیا ہے کہ اپنی فوج آدھی کرو پہلے تیس فیصد کم کرو پھر آدھی کرو تب وہ مدد کریں گے مصر کے اندر آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ اپنی فوج کی ساری فضول خرچیاں کم کرو چونکہ جب آپ کمزور ہوتے ہیں جو آپ کو قرضے دیتا ہے وہ حکم دیتا ہے میں نے سات مہینے پہلے کہا تھا کہ آخر میں ان اثاثوں پر آئیں گے جو پاکستان کو نہتا کر دے گا میں نے تب کہا تھا گورنمٹ ڈیفالٹ کی طرف لے جارہی ہے جو ہمیں بیل آؤٹ کرے گا وہ ہماری سیکورٹی پر سمجھوتا کروائے گا، جب تک طاقتور لوگوں کا احتساب نہیں ہوگا نیچے تک کبھی بھی پیغام نہیں جائے گا، جیسے ہی توسیع دی جنرل باجوہ کو اس کے بعد ایک اور باجوہ نظر آگئے، وہ باتیں شروع ہوگئیں این آر او کی،مجھے کہاجاتا معیشت پر زور دیں احتساب پر زور ناں دیں، اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا یہ کرنا ہے تو کبھی حکومت ناں لیتا میں پہلے کہتا الیکشن کراؤ، طاقت کسی اور کے پاس ہے ذمہ داری آپ کی ہے گالیاں ہمیں پڑ رہیں، ہمارے پاس ملک ٹھیک کرنے کی استعداد نہیں تھی کیوں کہ ہم بااختیار نہیں تھے، توسیع سے پہلے جنرل باجوہ بڑے مدد گار تھے،پاکستان کی فوج اس وقت تباہ نہیں ہو رہی ، منظم ہے، جہاں آپ اس کےذریعے کوئی کام کروائیں ہوجاتا ہے ان کے پاس صلاحیت ہے ،باقی ہمارے ادارے کمزور ہوگئے ہیں، ہمیں تو بڑا فائدہ تھا جب ہم ایک پیج کی بات کرتے تھے، کورونا آیا اس میں بڑا فائدہ تھا ہمیں کیوں کہ ہمیں بڑی اچھی سپورٹ دی ، پولیو کے اوپر بارڈر ایج ایریاز میں جا نہیں سکتے تھے ان کی پروٹیکشن تھی اور پھر ٹڈی آئی تو اس کے اندر پوری مدد کی لیکن جو انہوں نے احتساب نہیں ہونے دیا انتا بڑا نقصان کروایا اور این آر او ٹو دیا جنرل مشرف کی باقی ان کاٹائم ان دونوں پارٹی سے بہت بہتر تھا لیکن جو انہوں نے این آر او ون دیا وہ سب دھل گیا جتنا اچھا کام تھا اور این آر او ٹو باجوہ نے پہلے احتساب کا پراسیس روکا اور پھر این آر او ٹو دیا میرے خیال میں اس نے وہ نقصان پہنچایا ہے کہ شاید ہی کسی فیصلے کا اتنا بڑا نقصان ہو کہ رجیم چینج کر کے این آر او ٹو دے کر، جنرل باجوہ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر انسان کے اندر طاقت اور کمزوری ہوتی ہے ، ہماری شروع میں کمزور حکومت تھی پھر سے کہتا ہوں آگے جا کر ہونا کیا ہے مجھے پتہ ہوتا ہمیں inafictive کر دیا آخر میں جا کر ہم بالکل ہی مرہون منت ہوگئے آخر میں جا کر میں کبھی حکومت ناں لیتا لیکن ان کا شروع میں توسیع سے پہلے بالکل مختلف رویہ تھا ،توسیع کے بعد جو انہوں نے احتساب کا پراسیس روکا میری پارٹی کا نام ہے انصاف کی تحریک جب آپ نے رول آف لاء نہیں آنے دیا تو میری ساری آئیڈیالوجی کے خلاف چلا گیا اور گالیاں مجھے پڑیں وہ نیب سے باہر نکلتے تھے مجھے برا بھلا کہتے تھے کنٹرول نیب ان کے نیچے، میں نے توسیع کا سوچا ہی نہیں تھا میرے پاس ایک دن ہمارے سنیئر تھے ان کے ساتھ دو آرمی آفیسر ز تھے انہوں نے کہا یہ ٹائم آگیا ہے توسیع کامیں نے کہا بہت جلدی ہے ابھی ، میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا انہوں نے سب نے مجھے قائل کیا آخر جو قائل کرنے کاآرگیومنٹ تھا ایک آرمی آفیسر نے دیا اس نے کہا جنرل باجوہ کہہ رہے ہیں میرے لئے مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ سیاست بہت چلتی ہے، اسلئے اگر آپ نے ابھی توسیع ناں دی تو میری لئے آگے جا کر مشکل ہوجائے گا۔

اہم خبریں سے مزید