سرفراز احمد نے اپنی ہمت اور مضبوط ارادوں کے ساتھ بہت سارے لوگوں کو غلط ثابت کردکھایا اپنی کارکردگی سے ناقدین جو جواب دیا۔ سوشل میڈیا پر کراچی ٹیسٹ میں فائٹنگ اور میچ بچانے والی سنچری بنانے کے بعد جس طرح سرفراز احمد کے مداح ان کو راستے سے ہٹانے والوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سابق کپتان اور ٹیسٹ وکٹ کیپر کو پاکستانی شائقین ابھی بھول نہیں پائے تھے۔ 36سالہ سرفراز احمد کے بارے میں سالہا سال سے مشہور ہے کہ سرفراز احمد دھوکا نہیں دیتا۔
نیوزی لینڈ کی سیریز میں چار سال اور24ٹیسٹ کے وقفے سے واپسی کے بعد ان کی فارم، کارکردگی اور سب سے بڑھ کر انکساری نے ثابت کرد یا کہ شائقین کرکٹ پی سی بی کے اس نئے سسٹم سے خوش نہیں تھے جسے آسٹریلوی سسٹم قرار دیا گیا لیکن اس سسٹم کی آڑ میں جس طرح میرٹ کا قتل عام ہوا۔ پسند ناپسند کی وجہ سے کئی کھلاڑی پس منظر میں چلے گئے۔ کچھ لوگ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر رمیز راجا کو بورڈ کے سربراہ ہوتے اور محمد وسیم چیف سلیکٹر ہوتے سرفراز احمد ماضی کا حصہ بن چکے ہوتے اور ان کی کرکٹ میں واپسی کا خواب خواب ہی رہ جاتا۔
رمیز راجا تو سرفراز احمد کے کیئریئر کے خاتمے کا اعلان کرچکے تھے ۔پی سی بی چیئرمین کا موڈ دیکھ کر پی سی بی کے ایک مشہور ڈائریکٹر اور سندھ کے ایک کوچ نے سرفراز احمد کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن کو اچھی کارکردگی کے باوجود موقع دینے سے گریز کیا۔ سرفراز احمد نے ہمت نہیں ہاری اور وہ مسلسل محنت سے اس وقت کا انتظار کررہے تھے جب انہیں موقع ملے۔جن لوگوں کے ہاتھوں میں سلیکشن کے لئے انصاف کا پرازو تھا وہ بڑے صاحب کو کس طرح ناراض کرسکتے تھے۔
ورنہ میرٹ پر تو سرفراز احمد انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں جگہ بناسکتے تھے۔ سرفراز احمد کو کھلانے کا کریڈٹ چیف سلیکٹر شاہد خان آفریدی اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے۔جس دن سرفراز احمد نے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں نصف سنچری بنائی پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی نے مجھے واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں سرفراز احمد واقعی ٹیم میں شمولیت کے اہل تھے۔ سابق وزیر اعظم اور سابق کپتان عمران خان نے اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے احسان مانی کو کہا تھا کہ بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنایا جائے۔
جس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ سرفراز احمد کو بورڈ نے نہیں کسی اور کے کہنے پر ہٹایا گیا تھا۔ سرفراز احمد کے خلاف سازشوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 2019 کے ورلڈ کپ سے قبل انہیں آرام کا مشورہ دیا گیا تھا۔ وہ بمشکل ورلڈ کپ میں کپتانی کے لئے انگلینڈ جاسکے۔ ورلڈ کپ کے بعد سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں تینوں ٹی ٹوئینٹی میچوں میں شکست نے پی سی بی کا ایسا بہانہ دیا کہ اس وقت کے سی ای او نے لاہور سے فیصل آباد جاکر سرفراز احمد کو کپتانی چھوڑنے کی پیشکش کرتے رہے لیکن سرفراز احمد نے از خود کپتانی چھوڑنے سے انکار کردیا لیکن اسلام آباد سے ملنے والے احکامات کے بعد انہیں کپتانی سے فارغ کردیا گیا۔
اسی طرح پاکستانی ٹیم انگلینڈ میں ایک شہر سے دوسرے شہر کے لئے سفر کررہی تھی جب منیجر طلعت علی ملک کو فون پر حکم ملا کہ اظہر علی کو ٹیسٹ کی کپتانی سے ہٹا دیا جائے۔ طلعت نے فون کرنے والے کا پیغام احسان مانی کو دیا اور اظہر علی کو بھی کپتانی سے فارغ کردیا گیا۔ اظہر علی نے حالیہ سیزن میں ریٹائر منٹ کا اعلان کیا لیکن وہ ابھی مزید کھیلنا چاہتے تھے انہیں بھی ریٹائر منٹ پر مجبور کیا گیا۔ یہ پاکستان کرکٹ کی وہ کہانیاں ہیں جن کا کسی کے پاس دستاویزی ثبوت نہیں، لیکن ان کہانیوں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا، اس طرح کی کہانیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ میں کتنے اہل کرکٹرز بغیر کھیلے ماضی کا حصہ بن گئے۔
سرفراز احمد اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انہوں نے چار سال بعد اپنا50 واں ٹیسٹ کھیلا اور پھر ناقدین اور مخالفین کے منہ اپنی کارکردگی سے بند کئے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ سیریز میں مین آف دی میچ اور پلیئر آف دی سیریز قرار پانے والے سابق کپتان سرفراز احمد نے دونوں ٹیموں کی جانب سے سب سے زیادہ 335 رنز تین نصف سنچریوں اور ایک سنچری کی مدد سے بنائے۔ ان کا بیٹنگ اوسط83رنز فی اننگز رہا۔ رفراز احمد نے آٹھ سال بعد پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ سنچری بناکر کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کو مشکلات سے نکالا۔
سرفراز احمدکے آوٹ ہونے کے بعد نسیم شاہ اور ابرار احمد نے13منٹ میں 21 گیندیں کھیل کر پاکستان کو یقینی شکست سے بچالیا۔پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ سنسنی خیز ڈرامے کے بعد ڈرا ہوگیا۔ سیریز کے دونوں ٹیسٹ ہارجیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگئے۔ سرفراز احمد کو مین آف دی میچ اور مین آف دی سیریز کے ایوارڈز ملے۔ سرفراز آوٹ ہوئے تو پاکستان کو میچ بچانے کے لئے39 گیندیں کھیلنا تھی۔ ہوم گراونڈ پر دو سیریز میں چار ٹیسٹ ہارنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے دونوں ٹیسٹ ڈرا کرکے لاج رکھ لی۔ البتہ دو سال میں پاکستانی ٹیم ہوم گراونڈ میں کوئی ٹیسٹ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
سرفراز احمد نے کیئریئر کا سب سے زیادہ اسکور بناکر پاکستان کے لئے امید کی کرن پیدا کی لیکن پاکستان ٹیم319رنز کے ہدف کے قریب آکر ہارتے ہارتے بچی۔جس وقت میچ خراب روشنی کی وجہ سے ختم ہوا تین اوورز باقی تھے۔پاکستان نے دوسری اننگز میں 9وکٹ پر304رنز بنائے تھے۔ نسیم شاہ نے 11گیندوں پر15اور ابرار احمد نے13 گیندوں پرسات رنز بنائے اور دونوں ناٹ آوٹ رہے۔ سرفراز احمد نے 288 منٹ بیٹنگ کی اور118رنز بنائے۔ 36سالہ سرفراز احمد نے نومبر2014 میں اپنی آخری سنچری بھی نیوزی لینڈ کے خلاف دبئی میں بنائی تھی۔ سرفراز احمد چار سال اور 24 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان ٹیم سے ڈراپ رہے اور جب ان کی واپسی ہوئی تو انہوں نے پہلی تین اننگز میں 86,53,78 رنز بنائے اور چوتھی اننگز میں سنچری بناکر پاکستان کو مشکلات سے نکالا اور ایسے مقام پر لے آئے جہاں سے جیت کی جانب پیش قدمی کی گئی۔
سرفراز احمد نے چوتھی ٹیسٹ سنچری 135گیندوں پر 9چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے بنائی۔ہوم گراونڈ نیشنل اسٹیڈیم میں یہ ان کی پہلی سنچری تھی۔ سرفراز احمد نے جو کردار نبھایا، وہ کسی لوک داستاں سے کم نہیں تھا۔ جہاں پاکستان کی اولین ترجیح اپنی جیت سے زیادہ کیوی فتح کے خدشے کو ٹالنا تھا، وہاں سرفراز نے پانسہ یوں پلٹا کہ کیوی اٹیک کو پچھلے قدموں پہ جانا پڑا۔ اگر وہ میچ کو کنارے تک لے جاتے تو یہ اننگز لوک داستانوں کا حصہ بن کر امر ہو جاتی۔ سرفراز کے لئے یہ اننگز یوں بھی یادگار رہے گی کہ طویل غیر حاضری کے بعد انہیں ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کا پہلا موقع ملا اور اپنے ہوم گراؤنڈ پہ پے در پے تین نصف سینچریوں کے بعد یہ ان کی پہلی سینچری تھی۔
چوتھی اننگز کے دباؤ کے ہنگام ایسی لمبی اننگز اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ بطور بیٹرسرفراز کے تجربے کا فی الوقت کوئی نعم البدل موجود نہیں۔ پلیئر آف دی سیریز اور پلیئر آف میچ کے بعد سرفراز احمد نے پریس کانفرنس میں سب سے پہلے اپنے محسنوں کو یاد کیا۔ ندیم عمر اور اعظم کے علاوہ میڈیا کے دوستوں کو بھی نہیں بھولے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا۔ میں پہلے ٹیسٹ میں بہت دباؤ میں تھا لیکن لڑکوں اور کپتان نے مجھے اعتماد دیا۔جب 140 رنز رہ گئے تھے تو ٹیم انتظامیہ نے کہا کہ تمھیں جب ہٹ والی بال ملے تو اسکور کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ لیکن پھر دو وکٹیں گر گئیں اور ہمارا کھیلنے کا انداز بدل کیا۔
اگر وہ دو وکٹیں نہ گرتیں تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ انہوں نے سنچری سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ چوتھی اننگز میں بنائی گئی سنچری ہے تو خاص ہے، شاید میری بہترین سنچری ہے۔ کراچی کے شائقین سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا ہے اور ہمیشہ ٹیم کو سپورٹ کیا ہے۔ ان سے درخواست ہے کہ ون ڈے میچز کے لیے ضرور آئیں۔نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی سنچری میرے کیئریئر کی سب سے بہترین اور یادگار سنچری تھی یہ سنچری صحیح وقت پر بنی جس کی خوشی ہے۔ہم ٹیسٹ جیتنا چاہتے تھے ۔ہمارے سیٹ بیٹسمین آوٹ ہوئے تو مشکل ہوگئی۔سلمان آغا ساتھ ہوتے تو میچ جیت سکتے تھے۔
چار سال بعد ہوم گراونڈ پر سنچری بنائی اس لئے سنچری بناکر جذباتی ہوئی سنچری کا جشن منایا۔ ہوم گراؤنڈ پر سنچری بنانے کی تمنا پوری ہوگئی۔ چار سالوں میں مجھے جو کرکٹ ملی اس سے فائدہ اٹھایا۔ صحافت کے کچھ لوگوں نے بھی مجھے سپورٹ کیا۔معین خان،اعظم خان اور ندم عمر بھائی حمایت کرتے رہے لیکن اللہ تعالی نے عزت دی۔ انہوں نے کہا کہ انگلینڈ الگ طرز کی کرکٹ کھیل رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کا انداز الگ ہے ہم اپنے انداز میں کھیلتے ہیں اس لئے ہمیں اپنی طرز کی کرکٹ کھیلنی چاہیے۔ وکٹ کیپر بیٹر نے مزید کہا کہ ہم سیشن بائی سیشن کھیل رہے تھے، کوشش میچ جیتنے کی تھی لیکن 2 وکٹیں گرنے کے بعد میچ مشکل ہوگیا۔
آغا سلمان جب آؤٹ ہوئے تو ڈرا کی جانب سوچ جانے لگی، سعود شکیل اور آغا سلمان طویل کھیل جاتے تو نتیجہ ہمارے حق میں ہوتا۔ سرفراز احمد شہ سرخیوں میں جگہ پاکر امر ہوگئے اور اس ٹیسٹ کے ساتھ پاکستان کا ٹیسٹ انٹر نیشنل سیزن ختم ہوا۔نتائج کے اعتبار سے یہ سیزن مایوس کن رہا۔پاکستان کو گذشتہ سال مارچ میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز میں ایک صفر سے شکست ہوئی۔انگلینڈ نے گذشتہ سال کے آخر میں تینوں ٹیسٹ جیت لئے۔نیوزی لینڈ کے دونوں ٹیسٹ ڈرا ہوگئے۔
ہوم سیزن میں پاکستان نے آخری ٹیسٹ دو سال پہلے جنوبی افریقا کے خلاف پنڈی میں جیتا تھا۔ اب پاکستان نے اگلی سریز چھ ماہ بعد جولائی میں سری لنکا کے خلاف کھیلنا ہے۔ سرفراز احمد کا نام ون ڈے ٹیم میں نہیں ہے لیکن پاکستان سپر لیگ میں وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے ایکشن میں ہوں گے۔ایکشن میں تو نیا بورڈ بھی ہے جس نےآتے ہی ڈومیسٹک کرکٹ سے وابستہ آٹھ غیر ملکیوں سمیت 154کوچز، سلیکٹرز، چیف ایگزیکٹیو آفیسرز اور دیگر عملے کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوچز پاکستانی ٹیم کے سلیکٹرز بھی تھے۔غیر ملکیوں میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے ہیڈ کوچ پال نکسن،سندھ کے فیلڈنگ کوچ نیل جانسن، بولنگ کوچ گورڈن پارسن،فزیو تھراپسٹ اینڈ ریوڈیکن، سندھ کےکوچ ای ین فشرپنجاب کے ہیڈ کوچ پال فرینکس، فیلڈنگ کوچ بلال شفاعت، رچرڈ اسٹونرز شامل ہیں۔ ہیڈ کوچز پال فرینکس اور پال نکسن کی تنخواہیں9لاکھ37ہزار500روپے تھی۔ اس میں کئی ٹیسٹ اور انٹر نیشنل کرکٹرز شامل ہیں۔ امید ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی سے پاکستان کرکٹ ایک بار پھر پٹری پر چڑھ جائے گی اور کھلاڑیوں کو انصاف ملے گا۔سرفراز کی طرح اہل کھلاڑی غیبی مدد کے بجائے انصاف کے ساتھ ہونے والی سلیکشن سے ٹیموں میں آئیں گے۔
ون ڈے سیریز نیوزی لینڈ لے اڑا
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دو ٹیسٹ میچوں کی سیریزڈرا ہونے کے بعد ایک روزہ میچوں کی سیریز مہمان ٹیم کے نام رہی، کراچی میں کھیلے گئے پانچ میچوں کےشان دار انعقاد سے اس شہر کے حوالے سے مثبت پیغام دنیا بھر میں گیا، ون ڈے میں تماشائیوں کی تعداد حوصلہ افزاء رہی،ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی کار کردگی بہت زیادہ متاثر کن نہیں رہی اس سال ایک روزہ میچوں کا ورلڈ کپ بھی ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کی پلاننگ بنانا ہوگی۔