• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گرینڈ ڈائیلاگ: سیاسی و معاشی بحران کا واحد حل

مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والا ہر شہری یہ سوال کر رہا ہے کہ پاکستان کے آئندہ سیاسی منظر نامے میں کس کس سیاستدان کا سر کس کس سیاسی و غیر سیاسی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے کے لیے بے قرار ہے ، تین بار وزارت عظمیٰ پر براجمان رہنے اور عدالت عظمی سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد احتساب عدالتوں سے سزا یافتہ ( ن) لیگ کے قائد محمد نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی آخری سیاسی قوت قرار دیتے ہوئے ان کی وطن واپسی ضرروی سمجھتے ہی، الیکشن سے قبل نواز شریف کی عدم واپسی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو ملکی سطح پر کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرئے گی، اسٹیبلشمنٹ بھی اسی کے ساتھ ہو گی جس کا ڈیرہ مضبوط اور بارونق ہوگا۔ 

سیاسی حلقے اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ پنجاب میں (ن) کے لوگوں نے وفاق میں اپنی نوکریاں بچانے کیلئےاتنی تندہی سے چوہدری پرویز الٰہی کے سیاسی بونسروں کا مقابلہ نہیں کیا جس طرح ایک سیاسی تجربہ کار کھلاڑیوں کو کرنا چاہیے تھا ،ٹیلی ویژن کی سکرین کے(ن) لیگی مجاہدین سیاسی حکمت عملی سے بے بہرہ ہو کر ٹھنڈ میں بیٹھے قائد کے لیے صرف اور صرف سوکھی بھڑکیں مارتے رہے حالانکہ جن پر تکیہ تھا وہ پتے ہوا دے گئے اور جیو فینسنگ دھری کی دھری رہ گئی، چوہدری پرویز الٰہی کی پنجاب اسمبلی میں 186ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیابی پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ ،ملک احمد خان اور عطا تارڑ کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شاخسانہ سمجھی جا رہی ہے، وہ جیو فینسنگ پر مطمئن رہے جبکہ پارٹی کے مرکزی عہدیدار شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، سردار ایاز صادق ،خواجہ سعد رفیق اور رانا تنویر حسین عملاً لاتعلق نظر آئے۔ 

لندن میں نواز شریف کے قریبی ذرائع پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل تو بضد تھے کہ قائد الیکشن سے قبل وطن واپس آکر انتخابی مہم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں مگر اب انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک ۔انصاف کی سپریم کورٹ میں پٹیشن کے فیصلے تک انتظار کر لیا جائے ، نواز شریف کے قریبی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ نواز شریف شاید تاخیری مشورے پر عمل پیرا نہ ہوں اور انتخابی شیڈول کے ساتھ ہی وطن واپس پہنچ جائیں۔ 

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صرف انتخابات کو سیاسی ومعاشی بحران کا حل قرار دے رہے ہیں جبکہ صرف انتخابات مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کا حل صرف اور صرف گرینڈ ڈائیلاگ میں ہے، جب تک سیاست دان نہیں مل بیٹھیں گے بڑے فیصلے نہیں ہوں گے، فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے گارنٹی بھی چاہیے ہو گی، انتخابات میں 75فیصد نشستیں جیت لینے سے بھی معاشی بحران مل بیٹھنے کا تقاضا کرے گا، مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے سے معاشی مسائل ختم نہیں ہوتے، معاشی استحکام سیاسی استحکام سے ہی آئے گا اور سیاسی استحکام پرامن حالات کا تقاضا کرتے ہیں ،سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور چوری روکنا ممکن نہیں تو چوری کا مال بیرون ملک جانے سے روکنا ہوگا ،دولت کی بیرون ملک منتقلی روکے بغیر روپے کو طاقتور بنانا ممکن نہیں، سیاسی قیادت کو سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے سے قبل گرینڈ ڈائیلاگ پر مل بیٹھنا چاہیے ،قومی سلامتی کے اداروں کو قومی ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ 

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو صرف اور صرف قومی یکجہتی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار سے نہیں، وطن سے محبت کی جائے، وطن عزیز میں نفرت نہیں محبت کی فضا پیدا کی جائے، 2013ء کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر جس عدم استحکام کا آغاز کیا گیا تھا، 2023ء کے انتخابات سے قبل اسے ختم کر دینے میں ہی بھلائی ہے، گرینڈ ڈائیلاگ کے بغیر انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ،ہارنے والے سیاسی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے ،جیتنے والے بھاری قرضوں کے باوجود معیشت کو سہارا نہیں دے سکیں گے ،2014ء میں پارلیمنٹ کے سامنے 126دن کے دھرنے اور پاناما ریفرنس میں نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو نااہل کرنے کے فیصلے سے شروع ہونے والی سیاست کتنے لوگوں کو نااہل قرار دے چکی ہے، کتنے اقتدار سے نکالے اور قاتلانہ حملے کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 

آئی ایم ایف سری لنکا اور مصر کو فوج میں کمی کا حکم دے چکا ہے اس سے پہلے کہ ہم ایسی شرائط سننے پر مجبور ہوں ہمیں اپنی سیاست میں برداشت کا جذبہ شامل کر لینا چاہیے، پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد کے پی کے اسمبلی بھی نشانے پر ہے دونوں صوبوں میں نگران وزیراعلی کی تقرری کے لئے آئینہ طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود فریقین نے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے ہر راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی ،وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کے لیے مجبور کرنا عمران خان کی آخری خواہش کا روپ دھار گئی تھی حالانکہ عمران خان اپنے ارکان اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کے بعد آٹھ ماہ سے اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملوں میں ملوث رہے، چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کی خواہش پر پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر بھی تبادلہ خیال کیا ،جس پر عمران خان نے انہیں وزارت اعلیٰ کا منصب تفویض کرنے کا وعدہ تو کیا مگر ساتھ ہی (ق) لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا،چوہدری صاحب تو پرویز مشرف کا لگایا ہوا پودا ختم کرنے کے خواہاں نہیں مگر پسران چوہدری پرویز الٰہی اب اپنی پوری سیاست عمران خان پر نچھاور کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز 21 جنوری کو وطن واپسی کا عزم کر چکی ہیں ان کی آمد سے عمران خان پر جوابی سیاسی حملوں کا آغاز بھی متوقع ہے، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ شروع نہ ہونے کی صورت میں سابق عالمی چیمپئن کوسخت راستوں سے گزرنے کے خدشات موجود ہیں ،بعض مخالفین تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے نااہل بھی ہو گا اور جیل بھی جائے گا تاہم اتحادی حکومت کے مخالفین کی خواہش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی خطاؤں پر درگزر سے کام لے، دوبارہ اس کی سرپرستی کرئے قومی دولت لوٹ کر سمندر پار ڈیرے ڈالنے والوں کے خلاف عمران خان کو اپنی حسرت پوری کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈالنے کا موقع فراہم کرے۔

2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے حکومت تو بنا لی مگر تبدیلی کا جو نعرہ لگایا تھا اس پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکا، اپوزیشن پونے چار سال بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسے اقتدار سے نکالنے میں تو کامیاب ہو گئی مگر وطن عزیز میں مہنگائی پر قابو پانے اور ڈالر کو 200سے کم قیمت پر لانے میں کامیاب نہ ہو سکی،بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے ہر چیز کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے ملک کی آبادی 25 کروڑ بتائی جا رہی ہے جس میں سے 7کروڑ غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، غربت کے خاتمے کے لیے بھی پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی ضرورت ہے مگر خطے کے تناظر میں ہم عسکری ریاست بن گئے ہیں ، ایف -17 تو بنا لیتے ہیں مگر گاڑیاں باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں، زیر زمین کوئلے اور گیس کے ذخائر دریافت کرنے پر توجہ نہیں دے پا رہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید