سیاست ایک زندہ عمل ہے اور سیاسی عمل ہمیشہ چلتا رہتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ، ہمارئے ملک میں سیاست کے میدان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یا ہورہا ہے اس کے بعد تو یہ بات بالکل درست ثابت ہورہی ہے کہ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا بلکہ اب تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہماری سیاست میں کب کیا ہوجائے ، پاور پالیٹکس نے ہمارے ہاں بہت سی چیزوں کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، زندگی کے کسی بھی شعبے میں جمود تباہ کن جبکہ ہر شعبے کا فعال اور مثبت تبدیلی زندگی کی علامت ہوتی ہے لیکن ہماری سیاست میں کب تک تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس بارئے میں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، دنیا میں جہاں بھی سیاسی عمل فعال ہے وہاں تبدیلیاں نئی بات نہیں اور نہ ہی نئی جماعتوں کا قیام کوئی انہونی بات ہوتی ہے۔
سیاسی موقف یا نظریہ سے اختلاف کرنے والے ہم خیالوں کی جانب سے نئی جماعت بنانے یا جماعتوں کی جانب سے اتحاد کا قیام بھی روز اول سے سیاست اور سیاسی عمل کا حصہ رہا ہے ، کچھ ایسی ہی صورتحال اس ملک میں بنتے نظر آرہی ہے کہ شائد ملک میں ممکنہ طور پر کوئی نئی جماعت بننے جارہی ہے اس بات کو شائد تقویت اس سے مل رہی ہے کہ گزشتہ دنوں سنیئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کی قیادت میں ان کے ادارئے بلوچستان پیس فورم کی میزبانی میں کوئٹہ کے نوری نصیر خان کلچرل کمپلیکس میں شدیدی سرد موسم میں نیشنل ڈائیلاگ آن دی ری ایمیجنگ پاکستان یا نئے تصور پاکستان کے عنوان سے منعقد ہونے والا سیمینار ہے جس سے بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی سمیت سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی ، سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر ، گوادر حق دو تحریک کے رہنما واجہ حسین واڈیلا ، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عیسیٰ روشان ، زمیندار ایکشن کمیٹی کے حاجی عبدالرحمٰن بازئی ، مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر جمال شاہ کاکڑ،جماعت اسلامی کے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر اسحٰق بلوچ ، سابق سینیٹر و سماجی کارکن روشن خورشید بروچہ ، سینئر صحافی سابق صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس شہزادہ ذوالفقار ، سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان ، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما صوبائی وزیر خزانہ و خوراک انجینئر زمرک خان اچکزئی ، سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد ، سول سیکریٹریٹ آفیسرز ویلفئیر ایسوسی ایشن کے صدر عبدالمالک کاکڑ ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ ، تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ اور معروف قانون دان راحب بلیدی ایڈوکیٹ نے خطاب کیا ، پروگرام کے میزبان نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے بتایا کہ ان کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی جن میں سے کچھ جماعتوں نے شرکت نہیں کی۔
اگرچہ سیمینار کے انعقاد سے قبل ہی سیاسی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا کہ ملک میں ممکنہ طور پر نئی جماعت بننے جارہی ہے جس میں وفاقی سطح کی جماعتوں کے رہنما شامل ہورہے ہیں جبکہ یہ تاثر بھی ہے کہ اپنی اپنی جماعتوں سے ناراض یا نظرانداز سیاسی رہنما ممکنہ طور پر بننے والی نئی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، 21 جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والے سیمینار میں سینئر صحافی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے اپنے خطاب میں یہ استفسار کیا کہ اس سیمینار کا انعقاد کیا گیا کیا یہ ملک میں کسی نئی جماعت بننے کی کڑی تو نہیں، سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اپنے خطاب میں اس سے اتفاق نہیں کیا کہ ملک میں کوئی نئی جماعت بننے جارہی ہے جبکہ سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں پہلے ہی ایک سو جماعتیں موجود ہیں جو عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہیں ایسے میں ایک نئی جماعت کیا کرئے گی۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا موقف تھا موجودہ سیاسی نظام ملک اور قوم کے مسائل حل کرنا کی صلاحیت نہیں رکھتا ہماری کوشش ہے کہ سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر ایک ایسا فورم ہو جس کے ذریعے عوام کے مسائل کے حل کیلئے بات چیت ہوسکے جس کا بلوچستان سے آغاز کیا گیا ہے ، نیشنل ڈائیلاگ آن ری امیجنگ پاکستان یا نئے پاکستان کے تصور پر عمل پیرا ہوکر معاشی و سیاسی صورتحال کو بہتر بنانا ہے اعتماد کی فضاء قائم کرکے ڈائیلاگ کے ذریعے تمام بحرانوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
نئی جماعت قائم ہونے جارہی ہے یا نہیں لیکن یہ بات کوئٹہ سیمینار میں قومی سیاسی رہنماوں کی تقریر میں واضح تھی اور اس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا کہ ڈائیلاگ کا فورم پارلیمنٹ ہے مگر پارلیمنٹ اپنا یہ کردار نبھانے میں کامیاب نظر نہیں آرہی ، جس کی وجہ سے ملک بھر کے ہم خیال سیاسی رہنما جو کافی عرصے سے اس سلسلے میں رابطے میں تھے اور صورتحال پر غور و فکر کررہے تھے اب مل کر غیر سیاسی بنیادوں پر اس فورم کا قیام عمل میں لائے ہیں جہاں سے ملک و قوم کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا جائے گا ، یاد رہے کہ کوئٹہ میں ہونے والا فورم اس سیریز کی پہلی کڑی تھی جس کے بعد باقی تینوں صوبائی دارالحکومتوں اور آخر میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سیمینار کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس وقت ملک کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کوئی نئی جماعت اس سے نمٹ سکے گی اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کسی جماعت کیلئے مشکلات اور بحرانوں پر قابو پانا ممکن ہوگا دوسری جانب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سیمنار میں شریک سابق وزیراعظم سمیت دیگر رہنما کسی نئی سیاسی کے قیام کے تاثر کو مسترد کررہے ہیں لیکن اب جبکہ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے تیاریاں اور صف بندیاں شروع ہونے والی ہیں اس تناظر میں بھی مختلف حلقوں میں ملک میں کسی نئی سیاسی جماعت کا ممکنہ قیام موضوع بحث ہے اور ممکن ہے کہ ڈائیلاگ سیمینار ہم خیال سیاسی رہنماوں کے لئے عوام کی رائے جاننے میں مددگار ثابت ہوں۔