• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بے اختیار علیحدہ سیکرٹریٹ: لوگوں کیلے ڈرامہ ثابت ہوا؟

دن بدن بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال سے جہاں عوام پریشان ہے، وہاں سیاستدانوں کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ موجودہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، خاص طور پر سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے یکے بعد دیگرے 70ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری نے بڑھتے ہوئے سیاسی انتشار میں مزید اضافہ کر دیا ہےصورتحال یہ ہے جن حلقوں کے ارکان اسمبلی کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈی نوٹیفائی کیا گیا ہے، ان حلقوں کے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار گومگوں کی کیفیت کا شکار ہیں، انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ الیکشن کی تیاری کریں یا پھر دیکھیں کہ حالات کس سمت کو جاتے ہیں، سب سے بڑا ابہام تحریک انصاف کے امیدواروں میں موجود ہے، جنہیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ان قومی اسمبلی کے خالی ہونے والے حلقوں میں ضمنی انتخاب عمران خان خود لڑیں گے یا تحریک انصاف کے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ 

ایک عام تاثر یہ موجود ہے کہ پہلے کی طرح خالی ہونے والی نشست پر عمران خان ہوں گے اور ان کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنا امیدوار کھڑا کریں گی ، پہلے حکومتی وزراء کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر عمران خان نے ضمنی انتخابات میں بطور امیدوار تمام حلقوں سے حصہ لیا ،تو ان کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گی ،مگر اب یہ سننے میں آرہا ہے کہ یہ واک اوور نہیں دیا جائے گا اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جہاں جہاں ان کی نشستیں یا اکثریت موجود رہی ہے، وہاں سے ضمنی انتخاب میں حصہ لیں گے، جن 70ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ہیں، ان میں ملتان کے دو بڑے نام بھی شامل ہیں ، ایک پارٹی کی وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور دوسرے قومی اسمبلی کے سابق چیف وہپ ملک عامر ڈوگر۔

اس وقت ملتان قومی اسمبلی کی چھ نشستیں ہیں ،ان میں سے دو نشستوں پر ملک احمد حسین ڈہیڑ اور رانا قاسم نون پی ٹی آئی سے بغاوت کرکے اس دھڑے میں شامل ہو چکے ہیں، جس کے اسمبلی میں راجہ ریاض پارلیمانی لیڈر ہیں ،جبکہ ایک نشست پر جو شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی ،پر سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں ہیں جبکہ چھٹی نشست پر تحریک انصاف کے ابراہیم خان شجاع آباد سے امیدوار ہیں اور ابھی تک وہ ڈی نوٹیفائی ہونے والے ارکان کی فہرست میں نہیں آئے ،خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کا استعفی شاید قبول نہ کیا جائے، کیونکہ وہ بہت زیادہ متحرک کردار ادا کرنے والے ارکان اسمبلی میں کبھی شامل نہیں رہے، یوں ملتان میں استعفے منظور ہونے کےبعد دو نشستیں حلقہ 150اور حلقہ 149 خالی ہو چکی ہیں، ان پر ضمنی انتخابات ہوں گے ،جس کیلئے مسلم لیگ ن کے امیدوار متحرک ہو چکے ہیں ، جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے ابھی تک چونکہ یہ واضح نہیں ہوا کہ ان انتخابات میں پارٹی چیئرمین حصہ لیں گے یا دیگر امیدوار کھڑے کئے جائیں گے ، اس لیے کوئی نام سامنے نہیں آ سکا، اگر کوئی نام سامنے آیا بھی تو وہ شاہ محمود قریشی اور ملک عامر ڈوگر کا ہی ہوگا، کیونکہ یہ دونوں نہیں چاہیں گے کہ ان کی جگہ کوئی دوسرا امیدوار ان حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے ، جبکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے بہت سے امیدوار میدان میں اتر سکتے ہیں ، مگر ظاہر ہے کہ ٹکٹوں کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کرے گی، چونکہ ان نشستوں پر 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 

اس لیے پی ڈی ایم کے فارمولا کے مطابق ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حصہ لیں گے،شاہ محمود قریشی کے حلقہ 150میں ان کا مقابلہ 2018ء کے انتخابات میں عامر سعید انصاری نے کیا تھا، جو نسبتاً ایک کمزور امیدوار تھے،چونکہ وہ ہمیشہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصہ لیتے رہے اور پہلی بار انہیں قومی اسمبلی کی نشست کا ٹکٹ دیا گیا تھا ، اس بار اس حلقہ سے سینیٹر رانا محمود الحسن ، سابق صوبائی وزیر عبدالوحید آرائیں اور عامر سعید انصاری امیدوار بننے کے منتظر ہیں، اس نشست پر رانا محمودالحسن کئی بار ایم این اے بن چکے ہیں، مگر 2018ء کے انتخابات میں انہیں پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مسلم لیگ ن اس حلقہ سے کسے ٹکٹ دیتی ہے، جہاں تک ملک عامر ڈوگر کی خالی ہونے والی نشست 149 کا تعلق ہے ، تو اس کی ایک دلچسپ صورتحال ہے، اس پر سابق وفاقی وزیر مخدوم جاوید ہاشمی ،سابق ایم این اے طارق رشید ن لیگ کے امیدوار ہو سکتے ہیں، مخدوم جاوید ہاشمی کو ٹکٹ ملنے کے امکانات اس لئے کم ہیں کہ انہوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بڑے سخت بیانات دئیے ہیں اور مقامی مسلم لیگ ن کی تنظیم بھی انہیں زیادہ سپورٹ نہیں کر رہی، مگر ان کا ا س حلقہ میں خاصہ ووٹ بنک موجود ہے، جبکہ دوسری طرف شیخ طارق رشید کا ایک مضبوط سیاسی دھڑا موجود ہے، اب دیکھنا یہ ہےکہ کیا مسلم لیگ ن مخدوم جاوید ہاشمی جیسے قدآور شخصیت کو اس حلقہ میں اتارتی ہے،یا قرعہ فال شیخ طارق رشید کے نام نکلتا ہے،دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے متحرک ہوچکی ہیں ، خاص طور پر مسلم لیگ ن کے متوقع امیدواروں نے اپنی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔ 

تاہم انہیں اس حوالے سے دشواری کا سامنا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے حالات نے عوام کو موجودہ حکومتی سیٹ اپ سے متنفر کررکھا ہے ، اس لئےمسلم لیگ ن کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کیلئے ایک بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،لیکن بہرحال وہ یہ میدان خالی نہیں  چھوڑیں گے اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی چارسالہ بری کارکردگی کو بنیاد بنا کر اپنی انتخابی مہم چلائیں گے ،خاص طور پر ملتان کے مسائل میں جس طرح اس چارسال کے عرصہ میں اضافہ ہوا او ر کوئی میگا پراجیکٹ نہیں مل سکا، علیحدہ صوبہ کیلئے صرف بے اختیار سیکرٹریٹ کا ڈرامہ رچا کر لوگوں کے ساتھ مذاق کیا گیا ،یہ ساری باتیں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے لئے ایک اچھی انتخابی مہم کا جواز بن سکتی ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید