• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان خاک کا پتلا ہے سب ایک دن خاک ہو جائیں گے، پھر بھی اس میں غرور کس بات پر ہے نہیں انسان میں غرور کس چیز کا ہے۔ کسی کو پیسے پر، توکسی اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ ملازمت پر غرور ایسے کرنا کہ جیسے دنیا ان کے قابو میں ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ غرور کرنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے۔

ایک کالج کی طرف سے طلباء کے لیے تفریحی سفر کا انعقاد کیا گیا۔ تمام طلبا بس میں سوار ہوگئے ساتھ اساتذہ بھی تھے۔ سفر شروع ہوا ، سب کو خوب مزا آرہا تھا کہ راستے میں ان کا گزر ایک سرنگ سے ہوا جس کے نیچے سے بس ڈرائیور پہلے بھی گزرکر جاتا رہا تھا۔ سرنگ کے دہانے پر پانچ میٹر اونچائی لکھی تھی۔ ڈرائیور نے بس نہیں روکی کیونکہ اس کی اونچائی بھی پانچ میٹر تھی لیکن اس بار بس سرنگ کی چھت سے رگڑ کر درمیان میں پھنس گئی، جس سے طلبا خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے۔

بس ڈرائیور کہنے لگا، ہر سال میں بغیر کسی پریشانی کے سرنگ عبور کرتا ہوں، مگر نہ جانے اب کیا ہوا؟

ایک پروفیسر نے جواب دیا، لگتا ہے سڑک پکی ہوگئی ہے اس لیےاس کی سطح تھوڑی بلند ہو گئی ہے۔

وہاں رش لگ گیا ایک شخص نے بس کو باہر نکالنے کے لیے اپنی کار سے باندھنے کی کوشش کی لیکن ہر بار رگڑ کی وجہ سے رسی ٹوٹ جاتی، کچھ نے بس کو کھینچنے کے لیے ایک مضبوط کرین لانے کا مشورہ دیا ،اور کچھ نے سڑک کھود نے کا مشورہ دیا۔

ان مختلف تجاویز کے دوران ایک طالب علم بس سے اترا اور کہا، میرے پاس حل ہے، پروفیسر صاحب نے ہمیں پچھلے سال ایک سبق دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اپنے دل و دماغ سے غرور و تکبر نفرت، خود غرضی اور لالچ کو نکال دینا چاہیے جن کی وجہ سےسب کے سامنے پھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان الفاظ کو بس پر لگا دیں اور اس کے ٹائروں سے تھوڑی سی ہوا نکال دیں تو وہ سرنگ کی چھت سے نیچے اترنا شروع کر دے گی اور ہم باحفاظت گزر جائیں گے۔ طالب علم کے شاندار مشورے سے ہر کوئی حیران رہ گیا اور واقعی بس کے ٹائروں سے ہوا کا دباؤ کم کیا گیا تو بس سرنگ (ٹنل) کی چھت کی سطح سے نیچے گزر گئی اور سب بحفاظت باہر نکل آئے۔

ہمارے مسائل ہم میں ہیں، ہمارے دشمنوں کی طاقت میں نہیں، اس لیے اگر ہم اپنے اندر سے غرور اور باطل کی ہوا نکال دیں تو دنیا کی اس سرنگ میں سے ہمارا گزر بآسانی ہوجائے گا،بس اپنے اندر کی غرور وتکبر و انا اور خود غرضی کی ہوا نکال دیں معاشرہ اچھا ہو جائے گا۔ درج بالا واقعہ میں ڈرائیور کویہ غرور تھا کہ وہ اتنے عرصے سے بس چلا رہا ہے اور ہر راستےسے وہ با آسانی گزرسکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ اس نے جانے اور دیکھے بغیر کہ سرنگ کی سڑک نئی بنی ہے، جس کی وجہ سے اس کی اونچائی میں اضافہ ہوگیا ہے، بس سرنگ میں لے گیا اور اس کا غرور اس وقت خاک ہوگیا جب بس سرنگ کے دہانے پر ہی پھنس گئی۔ تب اُسے پتا چلا کہ ہوا کیا ہے۔

دوستو! ، ہر اڑان زمین سے شروع ہوتی ہے اور زمین پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پرندوں کو کبھی اڑتے ہوئے دیکھیں، اگر وہ آسمان کی طرف اوپر منہ کر کے اڑے تو منہ کے بل زمین پر گر کر فنا ہو جائے۔ اپنے آپ کو ہر معاملے میں دوسروں سے بہتر تصور کرنا اور دوسروں کو حقیر جاننا تکبرہی ہے۔ اپنے علم پر گھمنڈ کرنا ، ریا کاری، دکھاوا کرنا بھی تکبر کے زمرے میں آتا ہے۔ 

بہت سے نوجوانوں کو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ وہی ہیں، ان سے بہتر کوئی کام نہیں کر سکتا، نہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے، جب اپنے سے بہتر اور قابل نوجوان کو دیکھتے ہیں، تب بھی اسے سراہتے نہیں، اپنی قابلیت کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ جب انہیں احساس ہوتا ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے، پھر بھی اصلاح تو کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کو اپنے پر ناز ہے تو ضرور کریں، یہ آپ کا معاملہ ہے لیکن غرور سے بچیں۔