• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

طوفانی بارشوں کی تباہ کاری، حالات اب تک خراب ہیں

سندھ میں طوفانی بارشوں کی تباہ کاری سے انسان، مویشی اور فصلیں، جس طرح تباہ ہوئیں ، اس کی داستان اب تک ختم نہیں ہو سکی ہے اور لوگ بے سروسامانی کے عالم میں اب بھی چاروں طرف بارش کے پانی میں گرے ہوئے بے یارومددگار بیٹھے ہیں اور اس کے ساتھ ہی سینکڑوں افراد نہ صرف لقمہ اجل بن گئے، بلکہ ہزاروں مویشی اور فصلیں جن سے صوبے کے کروڑوں افراد کو استفادہ کرنا تھا محروم ہو گئے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ اس بڑی تباہی کے بعد اب پورا سندھ بد امنی کی آگ میں جل اٹھا ہے۔ 

ضلع شہید بینظیر آباد جو کہ امن و امان کے سلسلے میں ایک مثالی ضلع تھا اب جرائم کی آماج گاہ بن چکا ہے، موبائل فون اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں تواتر سے جاری ہیں۔ دوسری جانب شہر میں بھی امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے ، تاجر انجمنوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے اور شہر ہو یا دیہات لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، جب کہ مزاحمت کر نے پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں، گو کہ اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے بلند و بانگ دعوے بھی جاری ہیں۔

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا ہے کہ واردات کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن پولیس کی اصل کارکردگی یہ ہے کہ واردات ہونے کے بعد ملزمان کی گرفتاری اور ان سے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کرائی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پولیس کو کئی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پولیس بُری طرح ناکام ہوئی ہے، لیکن شہری بھی پولیس کے ساتھ تعاون کریں، تو جُرم کا خاتمہ جلد ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ملزم کو پہچان لینے کے بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں کر آتے، جس کی وجہ سے ملزم کو فائدہ پہنچتا ہے اور وہ گواہی نہ ہونے پر عدالت سے باعزت بری ہو جاتا ہے۔ 

امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ ضلع میں ایف آئی آر درج نہ کرنے یا ایف آئی آر درج کرنے کی رشوت لینے والے پولیس افسران کو ضلع بدر کیا گیا ، جب کہ ناقص کارکردگی پر کئی ایس ایچ او کو لائن حاضر کیا گیا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی ڈیوٹی میں جانے والے ضلع شہید بینظیر آباد کے پندرہ سو پولیس اہل کاروں کی وجہ سے بھی وارداتیں ہوئی تھیں۔ تاہم اس پر کنٹرول پایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی أئی جی محمد یونس چانڈیو کی جانب سے جرائم کو کنٹرول کرنے کی سلسلے میں کی میٹنگ ہوچکی ہیں اور اس کے نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ چور، ڈاکوؤں کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

دوسری جانب صوبے میں بھوک بدحالی اور بے روزگاری کی وجہ سے جو جرائم بڑھ رہے ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ سود خوروں نے بھی اپنے جال پھیلا دیے ہیں اور آمدنی کے وسائل ختم ہونے کے بعد اپنے بچوں کو بھوکا نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے لوگ سود پر قرض لے کر اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ‏موت کے منہ میں جانے سے بچانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ تاہم سود پر رقم دینے والوں کی چیرہ دستیاں بھی اپنی جگہ اور رقم کی واپسی کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ انسان اس کی تاب نہ لاکر خودکشی جیسے فعل کا مرتکب ہو کر اپنے خاندان اور بچوں کو مصیبت میں مبتلا کرکے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ 

اسی طرح کا ایک واقعہ قاضی احمد میں ہوا، جہاں ناصر بلوچ نامی نوجوان جو کہ ٹک ٹاکر بھی تھا، لیکن سود پر رقم واپس نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشی کر کے موت کے منہ میں چلا گیا، جب کہ ابھی اس واقعے کو کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ سردار کالونی قاضی احمد کا ایک اور نوجوان شان علی راول جو کہ ڈینٹسٹ ہے، نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا چراغ گل کر نے کی کوشش کی، لیکن گھر والوں نے فوری طور پر اس کو تعلقہ اسپتال قاضی احمد منتقل کیا، جہاں اس کا معدہ واش کرنے کے بعد اس کو پیپلز میڈیکل اسپتال نواب شاھ منتقل کر دیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے کوشش کرکے اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے سے بچا لیا۔ 

اس سلسلے میں قاضی احمد شہر میں سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہرہ بھی کیا گیا اور سود خوروں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کیا، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ سود خور کس قدر بااثر ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق ڈی آئی جی عرفان بلوچ اور موجودہ ڈی آئی جی یونس چانڈیو کی جانب سے بلند و بانگ دعوے کیے گئے کہ سود خوروں کو کسی طور معاف نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود یہ دھڑلے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور انسانوں کو غلام بنا کر ان کو جمع پونجی سے محروم کر رہے ہیں۔ 

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سودخوروں کہ خلاف اقدامات کے سلسلے میں مختلف قسم کے بیانات داغے جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں عملی طور پر کوئی کوشش سامنے نہیں آئی ہے اور سودی کاروبار میں ملوث این جی اوز لوگوں کو سود پر رقم دے کر ان سے سرمایہ لوٹ رہے ہیں، لیکن تمام قوانین کی موجودگی کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔ 

ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی جانب سے ضلع کے تمام تھانوں میں بینر لگائے گئے تھے کہ سود پر رقم دینے والے سے کسی بھی شخص کو شکایت ہو تو وہ درخواست جمع کرائیں تاکہ اسے مہاجن کے خلاف کارروائی کی جاسکے لیکن ان کے تبارلہ کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ،جب کہ اس بارے میں ممتاز عالم دین عقیل احمد قریشی کا کہنا ہے کہ سود کی لعنت نے پورے معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید