دریائے سندھ میں سکھر اور لاڑکانہ رینج کے کچے کا وسیع علاقہ موجود ہے، جہاں خطرناک بدنام ڈاکوؤں کی بڑی تعداد موجود ہے، جن میں 250 سے زائد ایسے ڈاکو ہیں، جن کے سروں پر حکومت سندھ کی جانب سے 50 کڑور روپے سے زائد انعامی رقم مقرر کردی گئی ہے ، ان کچے کے جنگلات دریائی جزیرے میں جدید ترین اسلحے سے لیس ڈاکوؤں کی درجنوں محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، کشمور سے گھوٹکی تک ان چار اضلاع میں ماضی میں بھی پولیس نے متعدد گرینڈ آپریشن کیے، لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آسکے، بلکہ ان کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا اور گزشتہ چند سال سے جن پولیس افسران نے نئی حکمت عملی کے ساتھ ٹارگیٹڈ آپریشن کیے، انہیں نمایاں کامیابیاں ملیں، اور درجنوں بدنام ڈاکو مارے گئے۔
سندھ کے اس مشکل کچے جنگلات کے سرکل سمیت متعدد اضلاع میں ایس ایس پی کے طور پر خدمات انجام دینے والے موجودہ ڈی آئی جی سکھر جاوید سونھارو جسکانی جو شروع سے ٹارگیٹڈ آپریشن کے حامی رہے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کی مختلف اضلاع میں تعیناتی کے دوران مقابلوں میں 300 یا اس سے زائد ڈاکو مارے گئے، وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ کچے کے ان جنگلات میں کوئی بھی گرینڈ آپریشن ممکن نہیں ہے، کیوں کہ چند سو ڈاکو ہیں، تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں عام لوگ خواتین بچے بھی ہیں انہیں کیسے خطرے میں ڈال سکتے ہیں اور ایسی صورت حال میں آپریشن کیسے کام یاب ہوسکتا ہے؟ اس لیے حکمت عملی کے ساتھ ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے پولیس کام یابی اور مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ سندھ پولیس نے نامساعد حالات اور محدود وسائل کے ساتھ ڈاکوؤں کے خلاف جو کام یاب ٹارگیٹڈ آپریشن کیے، اس کے باعث سندھ میں اغواء برائے تاوان کی فزیکل وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور گزشتہ چند سالوں سے ڈاکو نسوانی آواز کے جھانسے میں پھنسا کر لوگوں کو اغوا کرتے تھے، اب اس کے ساتھ ڈاکو سوشل میڈیا کے ذریعے سستے ٹریکٹر گاڑیاں مویشی مشینری یا دیگر اشیاء برائے فروخت کے اشتہار لگا کر لوگوں کو ایک مخصوص مقام پر بلا کر کچے میں لے جاتے ہیں اور اغوا کرلیتے ہیں، اب تک ملک کے مختلف شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اغوا کی وارداتوں کا شکار ہوچکے ہیں۔
تاہم پولیس نے جدید ٹیکنالوجی اور اسلحے کے ساتھ ڈاکوؤں کی سرکوبی اور علاقے میں قانون کی رٹ بحال کرنے کے لیے گرینڈ ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کردیا ہے۔ سکھر رینج میں ڈی آئی جی جاوید سونھارو جسکانی آپریشن کی نگرانی کررہے ہیں، جب کہ گھوٹکی میں آپریشن کمانڈر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو، سکھر میں ایس ایس پی سنگھار ملک اور خیرپور میں روحیل کھوسو آپریشن کی سربراہی کررہے ہیں۔
گھوٹکی ضلع، جو سکھر رینج کا بہت زیادہ متاثر ضلع اور اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری بنا ہوا تھا، ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کے آنے کے بعد وہاں اب اغواء کی وارداتیں کم اور مغویوں کی بازیابی زیادہ ہورہی ہے، ڈی آئی جی سکھر اور ایس ایس پی گھوٹکی کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے اور سندھ پنجاب کے سرحدی علاقے دریائے سندھ کے مرکزی بند پر پولیس چوکی قائم کردی گئی ہے، دم دمہ کے مقام پر پولیس اور کمانڈوز جدید اسلحے کے ساتھ ہائی الرٹ ہیں، پولیس کے مطابق رونتی کچے کے علاقے میں جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں کے 7 گروہ موجود ہیں، 50 کلو میٹر چوڑائی پر محیط دریائے سندھ کے کچے کا یہ علاقہ ڈاکوؤں کا مسکن بنا ہوا ہے، 2 ماہ قبل ایک ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ اوز سمیت 5 اہل کاروں کو شہید کرنے والے ڈاکوؤں نے بھی یہاں پناہ لے رکھی ہے، جب کہ دیگر ڈاکو اغوا برائے تاوان کی سنگین وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہیں۔
آپریشن کے دوران پولیس نے لوگوں کو جھانسے دے کر اغوا کرنے والے ڈاکوؤں کے خلاف متعدد کام یاب ٹارگیٹڈ آپریشن کیے، اور چند روز قبل پولیس نے مقابلے کے بعد 5 مغویوں کو بہ حفاظت بازیاب کرالیا، کوئٹہ، پشین، حیدرآباد، تنگوانی سے تعلق رکھنے والے مغوی 4 ماہ سے ڈاکوؤں کے پاس یرغمال تھے، کوئی این جی او کی کال پر امداد کی لالچ میں تو کوئی مویشی، ٹریکٹر و دیگر سامان سستے داموں خریداری کے بہانے ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسا۔ ڈاکو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو پرکشش ترغیبات دےکر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں، جس کے توڑ کے لیے بھی پولیس سرگرم عمل ہے اور ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کی معاونت بھی لے رہی ہے۔
بازیاب ہونے والے مغویوں نے اپنے تاثرات بیان کیے۔ عمر کوٹ کے رہائشی سعید احمد نے بتایا کہ سیلاب سے متاثر ہوں، این جی او کی کال آئی تھی، امدادی سامان لینے کے لیے کچے کے علاقے میں بلایا گیا، کوئٹہ کے رہائشی مولوی عصمت اللہ نے کہا کہ آن لائن خریداری کے دوران بھینس اور گائے کی تصاویر دکھائی گئیں، وہ خریدنے یہاں پہنچا، تواغواء کرلیا گیا۔ تنگوانی کے رہائشی محمد بخش نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر ٹریکٹر دکھایا، خریدنے کے لیے رقم بھی طے ہوگئی، رقم لےکر یہاں آیا تو یرغمال بن گیا۔ حیدرآباد کے رہائشی خلیل الرحمن نے کہا کہ ٹریکٹر کا اشتہار دیکھا تھا، خریدنے کے لیے آیا تھا۔ حسین احمد نے بتایا کہ میرا تعلق پشین سے ہے، بھینس اور گائے سستے داموں خریدنے کے لیے یہاں آیا تھا اور ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا، مغویوں نے بتایا کہ ڈاکو ان پر تشدد کرتے تھے۔
ایک جانب پولیس ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سرگرم عمل رہتی ہے، تو دوسری جانب فلاحی کاموں میں بھی سکھر پولیس کا کردار بہت زیادہ نمایاں دیکھا جارہا ہے۔ خاص طور پر طوفانی بارشوں اور سیلابی صورت حال کے دوران پولیس نے جس عزم نو اور مستعدی کے ساتھ متاثرین کے دکھوں کا مداوا کرنے اور ان کی تکالیف کو کم کرنے کی کوششیں کیں وہ قابل تحسین ہے۔ ڈی آئی جی سکھر جاوید سونہارو جسکانی نے سکھر خیرپور اور گھوٹکی کے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں بالخصوص کچے کے دور دراز علاقوں میں جاکر خدمت خلق کی روشن مثالیں قائم کیں۔
ایسے ماحول میں پولیس نے نہ صرف سیلاب میں پھنسے لوگوں کو رسیکیو کیا، بلکہ ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور متعدد بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ گزشتہ سال سکھر رینج کے تینوں اضلاع میں پولیس کی رپورٹ کے مطابق سکھر میں 184 گھوٹکی میں 201 خیرپور میں 155 سمیت مجموعی طور پر رینج میں 540 پولیس مقابلے ہوئے، گھوٹکی میں انعام یافتہ 3 ڈاکو مارے گئے، ایک انعام یافتہ ڈاکو گرفتار ہوا۔ سکھر میں 13 گھوٹکی میں 9 خیرپور میں 2 مجموعی طور پر 24 ڈاکو مارے گئے، 105 زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، مارے گئے ڈاکوؤں میں خطرناک بدنام ڈاکو سلطو شر پر ایک کڑور عیسو شر پر 50 لاکھ انعام مقرر تھا، پولیس نے مختلف کارروائیوں میں221 جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا، روپوش اور اشتہاریوں کی گرفتاری کے لیے کی گئی کاروائیوں میں 1351 اشتہاری 2427 روپوش اور ایک ہزار 25 دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کےخلاف 654 ملزمان کےخلاف مقدمات درج کرکے ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ ان کے قبضے سے 2 ہینڈ گرنیڈ، 27 کلاشنکوف، ایک جی تھری رائفل، 13رائفل، 66 شاٹ گن، 568 پستول، 1867 راؤنڈز برآمد ہوئے۔ منشیات فروشوں کے خلاف رینج کے تمام اضلاع میں بھرپور کریک ڈاون کئے گئے اور 1404 مقدمات درج کرکے 1534 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ایک ہزار 390 کلو گرام چرس 20 ہزار 963 شراب کی بوتلیں، ایک کلو گرام ہیروئن، 1727 کلو گرام بھنگ پان پراگ و دیگر گٹکا نشہ آور اشیاء میں استعمال ہونے والا پاؤڈر بھاری مقدار میں برآمد کیا گیا۔ آکڑا، پرچی سمیت دیگر جوے کے اڈے چلانے والوں کیخلاف 353 مقدمات درج ہوئے، 1735 ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
اغواء کے 13 مقدمات درج ہوئے، اغوا ہونے والے تمام 15 مغویوں کو بہ حفاظت بازیاب کرایا گیا۔ ہنی ٹریپ نسوانی آواز کے جھانسے میں ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسنے والے 25 مغویوں کو بھی بازیاب کرایا گیا، مجموعی طور پر 40 افراد کو اغوا ہونے سے بچایا گیا۔ ڈی آئی جی جاوید سونہارو جسکانی نے بتایا ہے کہ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر منشیات فروشوں اور معاشرتی برائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف ہر دن اور پورا سال کارروائیاں کریک ڈاون اور ٹارگیٹڈ آپریشن جاری رہتے ہیں۔
پولیس کی اولین ترجیح عوام کی جان و مال کا تحفظ اور قیام امن کو یقینی بنانا ہے، جس کے تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں، اب پولیس میں نمایاں بہتری یہ بھی آرہی ہے کہ عوام اور پولیس کے درمیان جو چند دہائیوں پہلے دوریاں نظر آتی تھیں، اب ایسا نہیں ہے، آج پولیس تاجر صنعت کار اور عوام ایک پیج پرہیں۔