میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: محمد اسرائیل انصاری
شریک گفتگو
ڈاکٹر شاہد رسول (ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی)
ڈاکٹر صابر میمن (چیف آپریٹنگ آفیسر، بے نظیر ٹراما سینٹر ،کراچی)
ڈاکٹر طارق محمود (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ریڈیولوجی، سائبر نائف سرجری،اینڈ اوکنولوجی)
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد (ڈین ،جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر/جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی)
پروفیسر ڈاکٹر خالد شر (پروفیسر آف یورولوجی)
مجھے سندھ حکومت سے اسٹاف کی قلت دور کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تعاون کی اشد ضرورت ہے، آج جناح میں ہونے والا علاج دیگر تمام سرکاری ہسپتالوں سے بہت بہتر ہے، ہم کسی کو دوسری جگہ جانے کا نہیں کہتے، ہمارا بڑا ٹارگٹ میڈیکل وارڈ کو وہاں سے نکال کرپیف کی مدد سے سرجیکل ٹاور کی طرح جو اسٹیٹ آف آرٹ ہے ایک میڈیکل ٹاور بنایا جائے، یہ بارہ منزلہ ہوگا جس میں چھ میڈیکل وارڈ اور چھ اسپیشلٹی کے ہوں گے پھر پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے انکالوجی کمپلیکس کا منصوبہ ہے۔
آرڈر نکلا ہوا ہے کراچی کے ملیر سعود آباد ،ابراہیم حیدری اور لانڈھی کورنگی ان تینوں اسپتال کو جناح سندھ یونی ورسٹی سے منسلک کردیا گیا ہے،وہاں ہائرنگ کی جائے، اسپتال 25سال کے لیے سندھ حکومت کے زیر انتظام چلا گیا ہے، اس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اگلا مرحلے میں اسے خود مختار باڈی بنا کر چلایا جائے۔
ڈاکٹر شاہد رسول
ہسپتال کے اختیار پر وفاق اور صوبے میں تنازعے یا اختلاف کی وجہ سے ہائرنگ نہ ہونا،اسٹاف کی کمی فیکلٹی کاریٹائرہونا ان کا متبادل نہ ملنا ہسپتال کےلیے گھمبیر مسئلے ہیں، اگر فیکلٹی کی ہائرنگ ہوجاتی ہےتو پھر جناح اسپتال میں اتنی صلاحیت ہےکہ وہ چند ماہ میں شہر کا سب سے بہترین اسپتال ہوجائے گا، کراچی سمیت سندھ بھر میں جتنے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ہیں انہیں کسی نہ کسی یونی ورسٹی سے منسلک کرکے ٹیچنگ اسپتال قرار دیا جائے، ان اسپتالوں کو خود بہ خود معیار بلند ہوجائے گا۔
ڈاکٹر صابر میمن
کراچی ملک کا معاشی حب ہے گزشتہ پچاس سالوں میں جناح یا سول جیسا بڑا کوئی تیسرا ہسپتال کسی بھی حکومت نے نہیں بنایا ہے، جس کی وجہ سے ان ہسپتالوں میں مریضوں کا بے تحاشا دباؤ ہے ہم علاج کےلیے سب کو داخل بھی نہیں کرسکتے، کسی بھی اسپتال کی کارکردگی بہتر رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے اس کی صلاحیت کے مطابق یعنی جتنے بیڈ ، ڈاکٹر، لیبارٹری، دوائی اور بجٹ دیا ہے اسی کے مطابق مریض دیئے جائیں، ہرضلع میں اتنا ہی بڑا ہسپتال بنایا جائےتب آپ اس ہسپتال کو لے کر چل سکیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسرور احمد
جب تک کراچی وفاقی دارلحکومت رہا جناح بہترین اسپتال تھا، پھر اگلے پچاس سال کسی بھی حکومت نے ایک روپے کا ترقیاتی کام یہاں نہیں کیا، سائبر نائف پراجیکٹ میں حکومت پاکستان نے 80کروڑ روپے دینے تھے، جس کی مد میں انہوں نے صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے جناح اسپتال کو اداکیے، 2200بیڈ کے مطابق بجٹ فراہم کیا جائےگا۔
جناح کے پاس جو آلات ، مشینری خاص طور پر بعض شعبہ جات کے آلات ہیں، وہ ملک میں کسی دوسرے کے پاس نہیں، اس میں ہمارا ریڈیالوجی اور انکالوجی ڈیپارٹمنٹ شامل ہے، ہمارا سرجیکل کمپلیکس کے تھیٹر اگلے پانچ ماہ میں مکمل ہوجائیں گے، تو اس کے بعد پاکستان بھر میں ہمارے مقابلے کے جرمنی کے بنے جدید آپریشن تھیٹر کسی کے پاس نہیں ہوں گے، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سول سوسائٹی کی مدد اور پیف کی تعاون سے ہم میڈیکل ٹاور بھی بنانے والے ہیں۔
ڈاکٹر طارق محمود
جناح اسپتال یا کسی بھی سرکاری اسپتال کا ذکر آئے تو عوامی شکایت کا انبارلگ جاتا ہے،ناقص صفائی،ڈاکٹروں کی غفلت، مریضوں سے لاپرواہی ، ٹھیک سے یا بروقت نہ دیکھنا ،غیر حاضر یا ڈاکٹرزکی قلت ،دیگر عملے کا دستیاب نہ ہونا،دوائیاں نہ ملنے کی شکایت ،اسٹریچر اور ویل چیئرناپید،بیڈ کی کمی کی شکایت غرض بنیادی اور ضروری سہولت پر درجنوں سوال سامنے آتے ہیں۔
ان ہی شکایت کو مدنظر رکھتےہوئے جناح اسپتال عمارت سےاسپتال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیےجنگ فورم کاانعقاد کیا گیا ،جس میں یہاں عوام کو میسر علاج کی سہولیات اور مسائل پر گفتگو کی گئی اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کیا گیا کہ اسپتال مزیدآئندہ کیا خدمات انجام دینے جارہا ہے، موجودہ کارکردگی کیسی ہےاگر اطمینان بخش نہیں تو اسے بہتر سے بہتر کیسے کیا جائے ،مریض اور ان کے تیمارداروں کی شکایات کیسے دور ہوں گی۔
سوالات میں انتظامی مسائل کا ذکر بھی ہواجس کا مقصد جناح اسپتال کی کارکردگی کوبہتر بنا نا تھا،اس اہم موضوع پرہمارے ساتھ شریک گفتگو ہونے والی شخصیات میں ڈاکٹر شاہد رسول(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی)ڈاکٹر صابر میمن (چیف آپریٹنگ آفیسر،بے نظیر ٹراما سینٹر کراچی)ڈاکٹر طارق محمود(ہیڈ آف ریڈیولوجی سائبر نائف سرجری) پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد(ڈین جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر ،جناح سندھ یونیورسٹی) اورپروفیسرڈاکٹر خالدشر،پروفیسرآف یورولوجی شامل تھے،فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ: شاہد رسول آپ نے جب جناح اسپتال کا انتظام سنبھالا اس کی حالت کیا تھی اور اب مزید کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال پہلے وفاقی حکومت کے زیرانتظام تھاپھر کچھ عرصے صوبائی حکومت کے پاس رہا،اس ہی دوران اسپتال کوقانونی چارہ جوئی کا سامنا کرناپڑاجس کی وجہ سے سندھ حکومت اسپتال کی بھرپور مدد نہیں کرسکی،میرے خیال میں اگر مقدمہ بازی نہ ہوتی توآج جناح اسپتال زیادہ بہترحالت میں عوام کو سہولیات دے رہاہوتا ،ہمارا کافی وقت ضائع ہوا میری عدلیہ اور اس طرح کے مقدمے بازی کرنے والوں سے ذاتی طورپر اپیل ہے، عوامی بہبود کے اچھے اقدامات کو خراب کرنے اور روکنے کے لیے مقدمات دائر کرکےرکاوٹیں کھڑی کرنا اچھی بات نہیں ہے، میں وائس چانسلر یونی ورسٹی کے پاس سے آرہا ہوں،ہم نے اتنی مشکل سے صبح نو سے رات نو تک انٹرویو کیے تھے اس پر آج نیا مقدمہ ہوگیا ہے کہ کسی نے کہا ہے کہ میں 26 سال سے جناح اسپتال میں کام کررہی ہوں میں انٹرویو کیوں دوں۔ابھی اس پر اسٹے نہیں ہوا لیکن خدشہ ہے یہ عمل اب رک جائے گا ، اس قسم کے مقدمات سے پریشانی ہوتی ہے۔جناح اسپتال کے تین بڑے مسئلےتھے۔
پہلا یہ طے ہو ناکہ اسپتال کس کے ماتحت خدمات انجام دے گا تو اس پر کافی حد تک کام ہوچکا ہےاصولی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومت معاہدے پر رضامند ہیں کہ اسپتال 25سال کی لیز پر سندھ حکومت کو دیا جائے، عدالتی فیصلے کے مطابق اسپتال وفاقی حکومت کا ہے لیکن ان پر سندھ حکومت کو استعمال کرنے پر کوی پابندی نہیں لگائی ، وفاقی حکومت کوبھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
دوسرا مسئلہ ہمارے پاس مریضوں کو دستیاب بیڈ اور ملنے والے فنڈ یابجٹ میں زمین آسمان کا فرق تھا،لیکن بجٹ بڑھنے سے پچھلے گیارہ سال میں جنا ح اسپتال میں بہت تبدیلی آئی ہےیہاں میڈیکل آئی سی یو بن گیا،ایمرجنسی دوبارہ بنایا گیا ،ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہ پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا سب سے بڑا یونٹ ہےیہاں پانچ سی ٹی اسکین چار ایم آر آئی دستیاب ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ کے نوٹیفائی کرنے کے بعد اسپتال بیڈ کی تعداد دوگنی کردی گئی ہے اوروہ گیارہ سو سے بڑھ کر 2208 ہوگئی ہے،اخراجات بیڈ کے مطابق ہوتے ہیں تو بجٹ بھی اسی کے مطابق ملنا چاہیے۔تیسرا بڑا مسئلہ اسٹاف میں کمی کا تھا،جس میں فیکلٹی اور نان فیکلٹی دونوں اسٹاف شامل ہیں،یہ تعداد 1100بیڈ کے مطابق ہےاس میں سے پچھلے گیارہ برسوں قریباً30فیصد ریٹائر ہوگئے ہیں اس دوران نئ ہائرنگ بھی نہیں ہوئی۔ہم نےاس سے نمٹنے کےلیے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک کوئ معاہدہ یا قانونی مراحل حتمی طے نہیں ہوتے، کم از کم جو اسٹاف منظور شدہ ہے، اس کےلیے ہم نے وزیراعلیٰ صاحب سے اجازت لی کہ ہنگامی طور پر ہمیں 89دن تک اسٹاف رکھنے کی اجازت دی جائے وہ انٹرویو جاری ہیں،یکم جنوری 2023 سے یہ اسٹاف اسپتال کے عملے میں شامل ہوجائے گااور ریگولر نہ ہونے تک یہ اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔
دوسرا بڑا معاملہ فیکلٹی پوزیشن کا تھا،اس میں وفاقی حکومت سے فیڈرل سروس کمیشن کے ذریعے مختلف کوٹہ کے بنیاد پرلوگ آتے تھے پھر وہ میڈیکل آفیسر سےبتدریج ترقی کرتے ہوئے اوپرکی پوزیشن تک لے جایا جاتا تھا، ہم نے وہ طریقہ کار بھی اپنے نظام میں ڈال دیا ہے ، وزیراعلیٰ سندھ اورصوبائی وزیرصحت سے اجازت لی ہے کہ وہ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کو ہماری زیادہ تر فیکلٹی وہیں سے ہے،تیرہ ہمارے ہیں اور 37 ان کے ہیں،کوشش کی جائے انہیں جلد ازجلد مطلوبہ فنڈ فراہم کردیے جائیں،تاکہ ہماری سنڈیکٹ سےمنظورشدہ 175 سیٹیں بھری جاسکیں۔ جیسے ابھی ویسکولر سرجری کا شعبہ قائم ہوا ہمیں کنسلٹنٹ ملیں تاکہ ہم وہاںکام شروع کرسکیں۔
جناح اسپتال یا کسی بھی سرکاری اسپتال کا ذکر آئے تو عوامی شکایت کا انبارلگ جاتا ہے،ناقص صفائی،ڈاکٹروں کی غفلت، مریضوں سے لاپرواہی ، ٹھیک سے یا بروقت نہ دیکھنا ،غیر حاضر یا ڈاکٹرزکی قلت ،دیگر عملے کا دستیاب نہ ہونا،دوائیاں نہ ملنے کی شکایت ،اسٹریچر اور ویل چیئرناپید،بیڈ کی کمی کی شکایت غرض بنیادی اور ضروری سہولت پر درجنوں سوال سامنے آتے ہیں۔ ان ہی شکایت کو مدنظر رکھتےہوئے جناح اسپتال عمارت سےاسپتال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا ،جس میں یہاں عوام کو میسر علاج کی سہولیات اور مسائل پر گفتگو کی گئی اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کیا گیا کہ اسپتال مزیدآئندہ کیا خدمات انجام دینے جارہا ہے، موجودہ کارکردگی کیسی ہےاگر اطمینان بخش نہیں تو اسے بہتر سے بہتر کیسے کیا جائے ،مریض اور ان کے تیمارداروں کی شکایات کیسے دور ہوں گی۔
سوالات میں انتظامی مسائل کا ذکر بھی ہواجس کا مقصد جناح اسپتال کی کارکردگی کوبہتر بنا نا تھا،اس اہم موضوع پرہمارے ساتھ شریک گفتگو ہونے والی شخصیات میں ڈاکٹر شاہد رسول(ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی)ڈاکٹر صابر میمن (چیف آپریٹنگ آفیسر،بے نظیر ٹراما سینٹر کراچی)ڈاکٹر طارق محمود (ہیڈ آف ریڈیولوجی سائبر نائف سرجری) پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد(ڈین جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر ،جناح سندھ یونیورسٹی) اور پروفیسرڈاکٹر خالدشر،پروفیسرآف یورولوجی شامل تھے،فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ: شاہد رسول آپ نے جب جناح اسپتال کا انتظام سنبھالا اس کی حالت کیا تھی اور اب مزید کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال پہلے وفاقی حکومت کے زیرانتظام تھاپھر کچھ عرصے صوبائی حکومت کے پاس رہا،اس ہی دوران اسپتال کوقانونی چارہ جوئی کا سامنا کرناپڑاجس کی وجہ سے سندھ حکومت اسپتال کی بھرپور مدد نہیں کرسکی،میرے خیال میں اگر مقدمہ بازی نہ ہوتی توآج جناح اسپتال زیادہ بہترحالت میں عوام کو سہولیات دے رہاہوتا ،ہمارا کافی وقت ضائع ہوا میری عدلیہ اور اس طرح کے مقدمے بازی کرنے والوں سےذاتی طورپر اپیل ہے، عوامی بہبود کے اچھے اقدامات کو خراب کرنے اور روکنے کے لیے مقدمات دائر کرکےرکاوٹیں کھڑی کرنا اچھی بات نہیں ہے، میں وائس چانسلر یونی ورسٹی کے پاس سے آرہا ہوں،ہم نے اتنی مشکل سے صبح نو سے رات نو تک انٹرویو کیے تھے اس پر آج نیا مقدمہ ہوگیا ہے کہ کسی نے کہا ہے کہ میں 26سال سے جناح اسپتال میں کام کررہی ہوں میں انٹرویو کیوں دوں۔
ابھی اس پر اسٹے نہیں ہوا لیکن خدشہ ہے یہ عمل اب رک جائے گا ، اس قسم کے مقدمات سے پریشانی ہوتی ہے۔جناح اسپتال کے تین بڑے مسئلےتھے۔پہلا یہ طے ہو ناکہ اسپتال کس کے ماتحت خدمات انجام دے گا تو اس پر کافی حد تک کام ہوچکا ہےاصولی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومت معاہدے پر رضامند ہیں کہ اسپتال 25سال کی لیز پر سندھ حکومت کو دیا جائے، عدالتی فیصلے کے مطابق اسپتال وفاقی حکومت کا ہے لیکن ان پر سندھ حکومت کو استعمال کرنے پر کوی پابندی نہیں لگائی ، وفاقی حکومت کوبھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
دوسرا مسئلہ ہمارے پاس مریضوں کو دستیاب بیڈ اور ملنے والے فنڈ یابجٹ میں زمین آسمان کا فرق تھا، لیکن بجٹ بڑھنے سے پچھلے گیارہ سال میں جنا ح اسپتال میں بہت تبدیلی آئی ہے یہاں میڈیکل آئی سی یو بن گیا، ایمرجنسی دوبارہ بنایا گیا ،ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہ پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا سب سے بڑا یونٹ ہےیہاں پانچ سی ٹی اسکین چار ایم آر آئی دستیاب ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کے نوٹیفائی کرنے کے بعد اسپتال بیڈ کی تعداد دوگنی کردی گئی ہے اوروہ گیارہ سو سے بڑھ کر 2208 ہوگئی ہے،اخراجات بیڈ کے مطابق ہوتے ہیں تو بجٹ بھی اسی کے مطابق ملنا چاہیے۔تیسرا بڑا مسئلہ اسٹاف میں کمی کا تھا، جس میں فیکلٹی اور نان فیکلٹی دونوں اسٹاف شامل ہیں،یہ تعداد 1100بیڈ کے
مطابق ہے اس میں سے پچھلے گیارہ برسوں قریباً30فیصد ریٹائر ہوگئے ہیں اس دوران نئ ہائرنگ بھی نہیں ہوئی۔ہم نےاس سے نمٹنے کےلیے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک کوئ معاہدہ یا قانونی مراحل حتمی طے نہیں ہوتے، کم از کم جو اسٹاف منظور شدہ ہے،اس کےلیے ہم نے وزیراعلیٰ صاحب سے اجازت لی کہ ہنگامی طور پر ہمیں 89دن تک اسٹاف رکھنے کی اجازت دی جائے وہ انٹرویو جاری ہیں،یکم جنوری 2023 سے یہ اسٹاف اسپتال کے عملے میں شامل ہوجائے گااور ریگولر نہ ہونے تک یہ اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔
دوسرا بڑامعاملہ فیکلٹی پوزیشن کا تھا، اس میں وفاقی حکومت سے فیڈرل سروس کمیشن کے ذریعے مختلف کوٹہ کے بنیاد پرلوگ آتے تھے پھر وہ میڈیکل آفیسر سے بتدریج ترقی کرتے ہوئے اوپرکی پوزیشن تک لے جایا جاتا تھا، ہم نے وہ طریقہ کار بھی اپنے نظام میں ڈال دیا ہے ، وزیراعلیٰ سندھ اورصوبائی وزیرصحت سے اجازت لی ہے کہ وہ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کو ہماری زیادہ تر فیکلٹی وہیں سے ہے،تیرہ ہمارے ہیں اور 37 ان کے ہیں،کوشش کی جائے انہیں جلد ازجلد مطلوبہ فنڈ فراہم کردیے جائیں، تاکہ ہماری سنڈیکٹ سےمنظورشدہ 175 سیٹیں بھری جاسکیں۔ جیسے ابھی ویسکولر سرجری کا شعبہ قائم ہوا ہمیں کنسلٹنٹ ملیں تاکہ ہم وہاںکام شروع کرسکیں۔
جنگ: آپ کا کل بجٹ کیا ہے ،اسپتال کے لیے بجٹ سندھ حکومت سےمل رہا ہے یا اس میں نجی سیکٹر مدد فراہم کررہا ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: ہمارے اخراجات کااندازہ لگائیں تو بجٹ چار سے سواچار ارب کا ہے، ہمیں سالانہ کچھ ڈیولپمنٹ کے فنڈ بھی ملتے ہیں تو کل ملاکر چھ ارب روپے ہوجاتا ہے یہ اضافہ سندھ حکومت نےکیا ہے، پچھلے سال دوائوں کی مد میں ایک ارب روپے ملے تھا، اس سال بجٹ مزید بڑھایا گیا اور ساتھ حکومت نے17فیصد ٹیکس لگایا تھا وہ بھی مزید مل رہا ہے اس طرح دواؤں کے لیے ڈیڑھ ارب مل رہا ہے۔
جنگ: اسپتال کے حوالے سے متعدد شکایات ملتی ہیں، سرکاری اسپتال ہونے کی وجہ سے غریب ہی یہاں زیادہ رجوع کرتے ہیں اس کے باوجود غریب کے لیے سہولت کچھ اور امیر کے لیے کچھ اور ،اسپتال میں ناقص صفائی کی شکایت،ایمرجنسی تک میں اسٹریچر دستیاب نہیں ہیں لوگوں کی شکایت پر آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر شاہد رسول: اسپتال میں نئے ڈپٹی ڈائریکٹر آگئے ہیں جو دیکھ رہے، نظام کو مزید بہتر کیا جارہا ہے،صفائی کاعملہ سرکاری بھی ہے اور نجی بھی۔اسٹریچر کی کمی دور کرنے کےلیےایک ادارہ پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن مدد کررہا ہے۔
جنگ: آپ مریضوں کو سہولیات دینے کے حوالے سے کیا کررہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول: مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ان کے لیے فیکلٹی اسٹاف کی ضرورت ہے،اسٹریچر سہولت کے حوالے سے میری خواہش ہے کہ اسٹریچر کے ساتھ پورٹر ہو، مریض خود اسٹریچر گھسیٹےمناسب نہیں ہے،اسٹریچر کی مدد توپیف سے ہورہی ہے لیکن مجھے اسٹاف چاہیے۔مجھے سندھ حکومت سے اسٹاف کی قلت دور کرنے کےلیےترجیحی بنیادوں پر تعاون کی اشد ضرورت ہے پھر مجھ سے پوچھ گچھ کریں کہ اب شکایت کیوں آرہی ہے،اس کے باوجود آج جناح اسپتال میں ہونے والا علاج باقی تمام دیگر سرکاری اسپتالوں کےمقابلے سے بہت بہتر ہے۔
ہم کسی کو دوسری جگہ جانے کا نہیں کہتے،انہیں منتقل نہیں کرتےجب سے میں ڈائریکٹر بنا ہوں سول اسپتال کا سی ٹی اسکین خراب ہے،تووہاں کا بھی مریض میرے پاس آرہا ہے وہاں سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ علاج بھی وہیں سے کرالو۔ ہم پر کام کا دباو بڑھ رہا ہے،ہم کام کررہے ہیں لیکن یہ نظام بیٹھ جائے گا،میرے رائے ہمیشہ یہ ہے کہ سیکنڈر ی کئیر ہسپتال کو جوڑا جائے،جیسے ایمرجنسی کی بات ہورہی تھی انہیں انٹی گریڈ آپس میں کرنا پڑے گا،اگر ہمارے پاس نزلہ بخار کھانسی کے مریض داخل ہونا شروع ہوجائیں گے تو اسٹروک ،گردے فیلیر کو کون داخل کرئے گا۔تو ہمیں کوئی سسٹم بنانا پڑے گا۔
جنگ: صابر میمن صاحب آپ کاتعلق سندھ کےد وسرے بڑے سرکاری اسپتال سول سے ہے آپ کا جناح اسپتال سے علاج معالجے کے حوالے سے آپس میں کوئی رابطہ ہے،اور اس کی کتنی اہمیت ہے؟
صابر میمن: اسپتالوں کا آپس میں انٹی گریشن اور رابطہ دونوں ضروری ہے،اور شاہد صاحب کے آنے کے بعد ہمارے درمیان اچھا تعلق بن گیاہے،میں سول اسپتال کا کچھ عرصے ایم ایس رہا ہوں وہاں بھی جناح اسپتال جیسے مسائل ہیں، بجٹ، عملے کی کمی،مشینری کا خراب ہونا ،دوائی ،صفائی کا فقدان،لیکن وہاں فیکلٹی پوری ہے، وہ ڈاؤ یونیورسٹی کے تحت ہے تو لوگ موجود ہیں، پی جی ٹرینیز بھی موجود ہیں، لیکن کام کرنے کے لیے آپ کو بہتر ماحول چاہیے، آپریشن تھیٹرکاچلنا ،دوائی، لیبارٹری، وہاں بھی چیزوں اور سہولیات میں کمی کے مسائل ہیں۔ سول اسپتال کی ایم آر آئی مشین اور سی ٹی اسکین تین سال سے سے خراب ہیں، لیکن ابھی اطلاعات ہیں کہ ان کی سی ٹی اسکین مشین پورٹ پر آگئی ہیں اور ایک ماہ میں اپنا کام شروع کردے گی۔ہم ٹراما سینٹر سے انہیں بیک اپ دیتے ہیں ان کے تمام داخل مریضوں کی ایم آر آئی اور سٹی اسکین ہم کرتے ہیں۔
جنگ: جناح ہسپتال سے متعلق لوگوں سے جب آپ رائے لیتے ہیں تو وہ کیا شکایت کرتے ہیں؟
صابر میمن:جناح میں جب تک مکمل فیکلٹی رہی شہر یوں کےلیے بہت اچھی سہولت تھی،حالانکہ سندھ صوبائی حکومت اسپتال کو قریباً دس سال سے بہت بڑابجٹ دے رہی ہے لیکن ہسپتال کے اختیار پر وفاق اور صوبے میں تنازعے یا اختلاف کی وجہ سے ہائرنگ نہ ہونا،اسٹاف کی کمی فیکلٹی کا ریٹائر ہونا ان کا متبادل نہ ملنا اسپتال کے لیے یہ گھمبیر مسئلے ہیں، مشین ہو لیکن چلانے والا نہ ہو،علاج کےلیے ڈاکٹر نہ ہوتو مرض کی تشخیص مشکل ہوجاتی ہے ۔پورے اندرون سندھ میں نیوروسرجری نہیں ہے،لیکن ابھی یہیں پر نئی ہائرنگ کی خوش خبر ی ملی ہےاگر فیکلٹی کی ہائرنگ ہوجاتی ہے ہے تو پھر جناح اسپتال میں اتنی صلاحیت ہےکہ وہ چند ماہ میں شہر کا سب سے بہترین اسپتال ہوجائے گا۔
جنگ: مریض کی سہولیات اور اس کی شکایت پر آپ کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: میں 32سال سے یہاں خدمات انجام دے رہا ہوں،پچاس سال پہلے صحت کی کسی بھی ایمرجنسی پر شہر ی جناح یا سول اسپتال جانے کی سوچتا تھاوہ سوچ آج بھی ہے لیکن پچاس سال اگر شہرکی آبادی پچاس لاکھ تھی تو وہ بڑھ کر تین کروڑ ہے،کراچی ملک کا معاشی حب ہے گزشتہ پچاس سالوں میں جناح یا سول جیسا بڑاکوئی تیسرہسپتال کسی بھی حکومت نے نہیں بنایا ہے،جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں مریضوں کا بے تحاشادبائو ہے ہم علاج کےلیے سب کو داخل بھی نہیں کرسکتے۔
کسی بھی اسپتال کی کارکردگی بہتر رکھنے کےلیے ضروری ہے اسے اس کی صلاحیت کے مطابق یعنی جتنے بیڈ ،ڈاکٹر،لیبارٹری ،دوائی اور بجٹ دیا ہےاسی کے مطابق مریض دیئے جائیں۔ ہمارے پاس داخل کسی ایک مریض کو یہ شکایت نہیں کہ اسے دوائی نہیں ملی اس کے ٹیسٹ نہیں ہوئے،ہمارے پاس ایکسرے، الٹراساونڈ ،سی ٹی اسکین،ایم آر آئی تمام بائیوکیمسٹری مکمل مفت ہیں۔ لیکن یہ سہولت ایک حد تک ہوسکتی ہے، حکومت کو سوچنا پڑے گاکہ ہرضلع میں اتنا ہی بڑا اسپتال بنایا جائےتب آپ اس اسپتال کو لے کر چل سکیں گے۔
معالج کم اور مریض زیادہ ہونے پر مریض لازمی شکایت کرے گا۔میں ایک وقت میں ایک ہی مریض کو چیک کرسکتا ہوں میں جب کسی مریض کو پہلے چیک کرتا ہوں تو وہ خوش ہوجاتا ہے لیکن جس کانمبر سب سےآخر میں آتا ہےتو وہ ناراض ہوتا ہے کہ میں صبح سے بھوکا بیٹھا تھا۔ تمام سہولت اور مسائل دیکھنے کے بعدطے کریں کہ جناح اسپتال کی کارکردگی کیسی ہے۔کسی بھی اسپتال کی کارکردگی جانچنے کے لیے وہاں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد،ان کی ایمرجنسی اور او پی ڈی میں کتنے مریض آتے ہیں چیک کیا جائے،اچھی چیز فروخت کرنے والی دکان پر رش ہوتا ہے اسی طرح جس اسپتال کی کارکردگی اچھی ہوگی وہاں رش ہوگا۔
میرے تمام شعبوں سے متعلق ہر اوپی ڈی 500 مریض سے کم نہیں ہوتی،جس کے مطلب مریض ہم پر اعتماد کرتے ہیں،جناح اسپتال میں لمزیونیورسٹی اسپتال کا مریض بھی داخل ہے کیوں کہ انہیں بھی ہم پر اعتما د ہے۔ہم بہت اچھے ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے لیکن کوئی شکایت پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ہم پر کام کا بے تحاشا دبائو ہے۔جناح اسپتال کاڈاکٹر ،پروفیسر سرجن کی روایت ہے کہ وہ دفتر میں نہیں بیٹھتے وہ اپنے مریض کےلیےفیلڈ میں ہوتے ہیں۔
جنگ: اکثر ینگ ڈاکٹرز کی پریشان کرنے کی خبریں سنتے ہیں اس میں کیا صداقت ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: تھوڑی بہت شکایت ہوتی ہے لیکن وہ تنگ نہیں کرتے، ہم اپنے مریض کی مددکرنا چاہتے ہیں، ہیپاٹائٹس کی ٹرانسمیشن ہمارے ملک میں بہت زیاد ہ ہے،جس کی وجہ کوئکری اور غیرضروری انجکشن کا استعمال ہے،جناح میں سندھ حکومت کا قائم سینٹر ہےجس میں ہم کیمپس مختلف برادریوں میں جاکر لگاتے ہیں پازیٹیو مریض کو یہاں بلا کرہماری لیبارٹری معمولی پیسوں پرپی سی آر کرتی ہے،پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن کی مدد کی وجہ سے فیس بہت کم ہے ،مفت نہ ہونےکی وجہ اس مد میں سرکاری بجٹ کا نہ ملنا ہے ،لیکن اس کے باوجود یہ ٹیسٹ جو مارکیٹ میں آٹھ سے دس ہزار روپے کا ہے یہاں ڈھائی ہزار روپے میں ہوجاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی دوائی ہر شخص کے لیےمفت دستیاب ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کےلیے کسی بھی صوبے یا کہیں کا بھی شخص اگر سندھ کی سرزمین پر ہے اور وہ اس کی ویکسینشن چاہتا ہے میں بلاتخصیص لگادوں گا۔جو مریض آتا ہے میں اس کے تیماردار کا کہتا ہوں کہ وہ ویکسین لگوالے ۔
جنگ: پاکستان میں شوگر کا مرض بہت زیادہ ہےجناح اسپتال میں اس کے حوالے سے کیا سہولیات ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: پچھلے 25سال سے میرے وارڈ میں شوگر کےلیےکلینک ہے،جس میں بیس سے25ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں ،یہاںروزانہ اوپی ڈی ہوتی ہے جہاں چالیس سے پچاس مریض چیک کئے جاتے ہیں،ان مریضوں کو کچھ ادویات اسپتال سے اور کچھ کو ایک این جی او جسے میں نے خود بنائی ہے وہ فراہم کرتی ہے،اس این جی او کا فنڈ زکوٰۃ کا نہیں اس لیے وہ دوائی کوئی بھی لے سکتا ہے، اس این جی او کےلیے فنڈ ہم مختلف پروگرام کرکے جمع کرتے ہیں ،این جی او منظور شدہ سالانہ آڈٹ کے ساتھ رجسٹرد ہے۔
مریض ہروزٹ پر سوروپے فیس دیتا ہے،ہم شوگر چیک کرتے ہیںاسے پندرہ سےایک مہینے کی دوائی دیتے ہیں، انسولین بھی دیتے ہیں،مریضوں کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں اگر مریض کے پاس یہ پیسے بھی نہیں تو بھی ہم اس کا علاج کرتے ہیں۔ ذیابیطس بیماری نہیں معاشرتی مسئلہ ہے، جس کے لیے پورے معاشرے کو ہماری مدد کرنی پڑے گی،ہمیں اپنی غذا، رہن سہن پر غورکرنا پڑے گا، بیماری پیدا کرنے والے تمام محرکات کا جائزہ لینا پڑے گا،ورنہ اگلے دس سال بعد ہر دوسرا اور تیسراشخص شوگر کا مریض ہوگا۔
جنگ: جناح ابھی مریض اور علاج کے حوالے سے کتنا جدید اسپتال ہے اور اسٹریچر کی شکایت کیسے دورہوگی؟
ڈاکٹر طارق محمود: جب تک کراچی وفاقی دارلحکومت رہا یہ بہترین اسپتال تھا،پھراگلے پچاس سال کسی بھی حکومت نے ایک روپے کا ترقیاتی کام یہاں نہیں کیا،پچاس سال میں دو بڑے پراجیکٹ کااعلان ہوا، ایکنک نے ایک پراجیکٹ60ملین ڈالرکامنظورکیا،سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے مارچ2007 میں سنگ بنیاد بھی رکھا، اس 60ملین ڈالرمیں سے2007 سے 2014تک 14لاکھ روپے ملے،یہ سائبرنائف سی ڈی ڈبلیو پی (کیپیٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی)کا منظور شدہ پراجیکٹ تھا،جو ایکنک سے چھوٹا اورایک ارب سے کم کا پراجیکٹ دیکھتا ہے۔سائبر نائف پراجیکٹ میں حکومت پاکستان نے 80کروڑ روپے دینے تھے،جس کی مد میں انہوں نے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے جناح اسپتال کو اداکیے۔تو ان دو پراجیکٹ کے علاوہ آج تک ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی نے جناح اسپتال کو کوئی پراجیکٹ نہیں دیا۔
اسی وجہ سے 70کی دہائی کے بعدسےاسپتال کا معیار گرتارہا،ہماری پیشنٹ ایڈفاونڈیشن 90کی دہائی سے کام کررہی ہے لیکن وہ ایک عرصے تک صرف بلڈ بینک یا گائنی میں خدمات انجام دےرہی تھی۔لیکن دوہزار دس سے اب تک جناح میں گیارہ سو 8نئے بیڈ پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن نے تیار کئے،اس میں 550بیڈ کا سرجیکل کمپلیکس ہے،120 کو پلمانولوجی ہے،230 کو نیورولوجی اورسائیکاٹری ہے ایمرجنسی وارڈ میں80بیڈ کی توسیع کی ہے،اور90بیڈ کا میڈیکل آئی سی یو ہے،الحمداللہ یہ ساراترقیاتی کام عمارت کے اندر ہوا،کسی بھی سہولت کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں،بلڈنگ، آلات،اسٹاف اور ادویات توسندھ حکومت کی کوششوں سے جناح اسپتال میں بلڈنگ بن گئی ہے وزیراعلیٰ سندھ نے ہمیں پہچان لیا ہے اوراب ہمیں سندھ حکومت قوی امید ہے کہ جنا ح کو گیارہ سو بیڈ کے بجائے 2200بیڈ کے مطابق بجٹ فراہم کیا جائےگا۔
جناح کے پاس جو آلات ، مشینری بعض شعبہ جات کے آلات ہیں،وہ ملک میں کسی دوسرے کے پاس نہیں،اس میں ہمارا ریڈیالوجی اور انکالوجی ڈیپارٹمنٹ شامل ہے، ہمارا سرجیکل کمپلیکس کےتھیٹر اگلے پانچ ماہ میں مکمل ہوجائیں گے،تو اس کے بعد پاکستان بھر میں ہمارے مقابلے کے جرمنی کے بنے جدیدآپریشن تھیٹرکسی کے پاس نہیں ہوں گے،پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سول سوسائٹی اور پیف کی تعاون سے ہم میڈیکل ٹاور بھی بنانے والے ہیں اس کے ڈونرہمارے پاس موجود ہیں۔ اگلےمرحلے کی ذمہ داری حکومت سندھ کی ہے انہوں نے ہمارا بجٹ بڑھانا ہےا وراسپتال میں افرادی قوت فراہم کرنی ہے۔جب ہم گیارہ سوبیڈ پر تھے تو ہمارے پاس2800ملازم تھے جس میں سے صرف 1600 باقی ہیںتو 2208کے حساب سے ہمیں پانچ سے سات ہزار ملازمین کی ضرورت ہے،ہم نے صوبائی وزارت صحت کو پروپوزل بنا کر سمری روانہ کی ہے انہوں نے اس کا مثبت جواب دیا ہے، توقع ہے حکومت سندھ اگلے بجٹ میں ہماری ضرورت پوری کردے گی جس کے بعد جناح اسپتال کی کارکردگی بہت بہتر ہوجائےگی۔
جہاں تک صفائی کی شکایت ہےجناح اسپتال کا 80سے 90فیصد حصہ آپ کو صاف ملے گا، اگلے تین سال میں باقی سب بھی ٹھیک ہوجائےگا۔اسٹریچر کی کمی کاجہاں تک تعلق ہے، اسپتال میں یومیہ 1800مریض آتے ہیں اس میں 540مریضوں کو اسٹریچر اور ویل چیئرکی ضرورت پڑتی ہے، ایک فارماسیٹیکل کے تعاون سے مسئلہ حل ہوگیا ہے ،روا ں ماہ سے اس سروس کے لیے 104 افراد کو ملازم رکھا ہے جنہیں ہم نے ایمرجنسی والنٹئی سروس کا نام دیا ہے جو شفٹوں میں کام کریں گے، اب تک ایمرجنسی میں اسٹریچر سروس کے لیے چارافراد تھے جس میں سے تین ریٹائرہو اور صرف ایک باقی تھا۔ پیف نے ٹوٹنے والےاسٹریچر کی ریپئرنگ کےلیے ایک فل ٹائم ورکشاپ بھی بنادی ہے، اسٹریچر کے حوالے سے کسی شکایت پر ایمرجنسی وارڈمیں ایک صاحب اسے دور کرنے کےلیے موجود ہیں۔
جنگ: اسپتال کی بہتر کارکردگی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی وجہ سے ہوئی یا حکومتی بجٹ میں اضافے کی وجہ سے؟
ڈاکٹر طارق محمود: بلاول بھٹو جناح اسپتال کراچی کا دورہ تین مرتبہ کرچکے ہیںآخری مرتبہ وہ سرجیکل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب میں آئے تھے توانہوں نے کہا تھا ہم جناح اسپتال میںسائبر نائف لگنے کے بعد پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی کامیابی کو دیکھ کر ہم نے کول پراجیکٹ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں کیا، جناح اسپتال میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی کامیابی کو دیکھ کر ہم نے میرپور خاص اور حیدرآباد کی سڑک بنائی، بلاول بھٹوکا ویژن یہی ہے، تیزی سے بڑھتی آبادی کےلیے سارا کام کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی ،ہم بائیس کروڑ کی آبادی ہیں صحت میںساری صوبائی حکومتوں کا کل بجٹ بھی دوبلین پاونڈ سالانہ نہیں بنتا ،توپرئیوٹ سیکٹراگرپبلک سیکٹر کی مددنہیں کرے گا، ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹر میں بہتری نہیں آئے گی۔
جنگ: ایمبولینس اسپتال کی بنیادی ضرورت ہے، جناح اسپتال مرکزی اسپتال ہےاس کی اپنی ایمبولینس سروس کی بھی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: امن ایمبولینس جس دن بندہوئی، اسی روز میرے آفس میں دو افراد آئے اور انہوں نے اسے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا توہم تین افراد محترمہ وزیرصحت کے پاس گئے،اور ایمبولینس سروس جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ سروس پیف چلالے ہم اس کی آپریشنل قیمت دیا کریں گے،تو پھر ہم نے نو ماہ اسے چلایا،اب اس میں وسعت ہورہی ہے،ہم جناح اسپتال کی حدود میں الیکٹریکل ایمبولینس سروس چلانے چاہتے ہیں اور جلد لوگ یہ سہولت دیکھیں گے۔
جنگ: جناح سرکاری اسپتال ہے اس کے اطراف متعددنجی میڈیکل اسٹور اور لیبارٹری ہیں، ساری سہولیات مفت ملنے کے بعد یہاں کاروبارکیوں چمک رہا ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: یہ کاروبار جن کی حدود میں ہورہا ہے ان سے سوال کیا جائے،جناح اسپتال کی حدود یا دیوار کے ساتھ ہم ایسا کوئی کام کرنے نہیں دیتے،ہم تو چاہتے کہ جناح اسپتال کے اطراف ایسی کوئی چیز نہ ہو جو مریض کو جناح اسپتال کی سہولت میں رکاوٹ پیدا کرے ،لیکن یہ سچ ہےیہ کاروبار ہورہا ہے، میڈیکل اسٹور این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کی حدود کے قریب ہیں ،بعض دکانیں تو فٹ پاتھ پر قائم ہیں جو غلط ہے،بے چارے مریض ،ہماری یونی ورسٹی کے طالب علم ڈاکٹرزجن کا فٹ پاتھ پر چلنا حق ہےجس سے ہمارے مریض اور ڈاکٹر دونوں پریشان ہوتے ہیں، ان کے راستے پر قبضہ کرلیا گیا ہے،فٹ پاتھ اور راستے گھیر کر بنائی گئی یہ تمام دکانیں ختم ہونی چاہیے۔متعلقہ اداروں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔میں آپ کی وساطت سےمتعلقہ اداروں سے اپیل کروں گاکہ اس ناجائز قبضے کا نوٹس لےاور یہ تجاوزات فوری ختم کی جائے۔
جنگ: مفت دوائی کی سہولت اگر اسپتال دے رہا ہے تو ان دکانو ں پر رش کیوں ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: جناح اسپتال کی او پی ڈی میں ایک اعشاریہ سات ملین مریض آتے ہیں،2200بیڈ کا اسپتال جسے گیارہ سو بیڈ کا بجٹ ملتاہے تو اس بجٹ میں یہ ممکن نہیں کہ او پی ڈی کے ہرمریض کو دوائی دی جاسکے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال کی حدود یااس کی دیوار کے ساتھ کوئی کمرشل سرگرمی نہیںہم اس کی اجازت بھی نہیں دیتے، سوائے ایک میڈیکل اسٹور کے وہ دوتین عشروں سے قائم ہے وہ بھی حکومتی اقدام تھا ہم اس کو بھی بند کروانا چارہے ہیں۔ حدود میں کمرشل سرگرمی کرنےکےلیےمجھ پر جتنا دباو ہے اتنا مریضوں کے علاج کے لیے بھی نہیں ،یہ زمین صرف اسپتال کےلیے مختص ہے۔
اگر ایک دفعہ کمرشل کی اجازت دے دی گئی تو خدشہ ہے میرے بعد یہاں کمرشلائزیشن بہت تیزی سےہوگی ہم اسے ابھی سے زیرو کرنا چاہتے ہیں۔پیف نے حکومت کے ساتھ جوبھی ترقیات کام کیا پہلے وفاق سے اور صوبائی حکومت سے ایم او یو سائن کیا کہ جو چیز بھی ہم بنارہے ہیں اس عمارت کوکوئی بھی حکومت فروخت نہیں کرسکتی،نمبر دو اس پر کسی قسم کو یوزر چارج نہیں لگائے گی تاکہ عوام کو یہ سہولت ہمیشہ مفت ملتی رہے۔
پروفیسرڈاکٹر خالد شر: میرا تعلق شعبہ نیورلوجی سے ہے، وہاں کے مسائل کا ذکر کروں توپورا سندھ،جنوبی پنجاب اور بلوچستان سب جناح اسپتال کو جانتے ہیں،ہماری اسپیشلائزڈ فیلڈ کو پیف پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی بدولت بہت سی سہولیات میسر ہیں،ہم اپنی خدمات دے رہے ہیں ،بولان،صادق آباد، ملتان لاڑکانہ، نواب شاہ ،حیدرآباد حتی کہ سول اسپتال کا مریض جہاں کہیں کا بھی ہو اسے جناح اسپتال بھیج دیا جاتا ہے، جو اسپتال مریض ہمیں بھیجتے ہیں ان کے پاس پوری فیکلٹی موجود ہے دیگر چیزیں بھی میسرہوں گی لیکن ان کایہ رویہ عرصے سے جاری ہے ،دوردراز سے ہزاروں روپے خرچ کرکے ایمبولینس میں مریض ہمارے پاس آجاتا ہے اور ہم کہیں بھی نہیں بھیج سکتے ۔میری ساری فیکلٹی ریٹائر ہوگئی ہے ،میں دو اسسٹنٹ پروفیسر کے ساتھ تنہاکام کررہا ہوں،ہمارے پاس دس سال سے فیکلٹی میں نئے لوگ نہیں رکھے گئے،افرادی قوت کی کمی ہے،فنڈ کے مسائل ہیں،جناح اسپتال میں پیف کے تعاون سے نئی بلڈنگ بن گئی اگلے چندماہ میں 100بیڈ پر مشتمل نیورولوجی وارڈ کام شروع کردے گی،لیکن اسے چلانے کے لیے بہت مسائل ہیں۔
صابر میمن : یہ بدانتظامی ہے مریض کو علاج اس کے گھر کے قریب ملنا چاہیے،اگر ان اسپتالوں میںکوئی کمی ہے تو اسے دورکیا جائے ،ان اسپتالوں کو مریض کاپورا بجٹ مل رہا ہے لیکن وہ اسے ٹھیک سے استعمال نہیں کررہے،اپنے مریض دوسرے اسپتال بھیجنے والے اسپتالوں کی کارکردگی کو حکومت باقاعدہ چیک کرے۔لاڑکانہ سے مریض چالیس ہزار کی ایمبولینس میں آتا ہے وہ غریب اس کے لیے،چارلاکھ کا اپنا سامان مویشی بیچتا ہے کراچی میں فٹ پاتھ پر رات دن گزار کر اپنے مریض کا علاج کرواتا ہے،جب لاڑکانہ میں اسپتال میں ہے تو وہ سہولت اسے وہیں ملنی چاہیے۔اس طرح جناح اسپتال پر بھی دباو کم ہوگا۔حکومت ان اسپتال پرسالانہ بہت پیسہ خرچ کررہی ہے وہ اسپتال کم ازکم اپنی صلاحیت کا پچاس فیصدتو استعمال کرے۔
جنگ: جناح اسپتال میں آئندہ کے مزید کیا منصوبے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول: ہمارے پاس ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ ہے ہمارا سائیکائٹری یونٹ کھل گیا ہے جوپاکستان میں سب سے بڑا ایک سو بیس بیڈ کا ہے،اسی کے ساتھ نیورولوجی وارڈ کھلا ہے،نیورلوجی وارڈ کےلیے اگلا منصوبہ ہے دو طرح کے اسٹروک ہوتے ہیں ایک ارلی انٹروینشن سے اوورآل معذوری کم ہوجاتی ہے،اس پر کام کریں گے۔
ہمارا سب سے بڑا ٹارگٹ میڈیکل وارڈ کو وہاں سے نکال کرپیف کی مدد سے سرجیکل ٹاور کی طرح جو اسٹیٹ آف آرٹ ہے ایک میڈیکل ٹاور بنایاجائے،یہ بارہ منزلہ ہوگا جس میں چھ میڈیکل وار اور چھ اسپیشلٹی کے ہوں گےپھرپبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے انکالوجی کمپلیکس کا منصوبہ ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود:جناح اسپتال میں انفیکشن ڈیزیز کا شعبہ نہیں ہے تومیڈیکل وارڈ بننے سے ہمارا پورا سورتی بلاک انفیکشن ڈیزیزکا90بیڈ او پی ڈی سمیت وارڈ بن جائے گا،اسی طرح ہیماٹالوجی نہیں ہے،مستقبل میں اس کی سروسس بھی شروع کرنا چاہتے ہیں،چند ماہ میں تھیلیسیمیا کا وارڈ بھی شروع کررہے ہیں،گائنی وارڈ میں چار آپریشن تھیٹر تھے اس کے لیبرروم کے اوپر نیا فلور بناکرآٹھ نئے آپریشن تھیٹر بنارہے ہیں، یوناٹالوجی جناح میں نہیں ہے اگلے چھ ماہمیں یہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
ہم نے تیمارداروں کےلیے کئی ویٹنگ ایریا بنائے ہیں،ضرورت مند کو کمبل فراہم کررہے ہیں جوواپس کردے تو اچھا ہے۔ہمارے پاس 80فیصد مریض دوردراز سے آئے ہوتے ہیںہمارے پاس طعام گاہ کی سہولت بھی ہے جہاں تیمارداروں کوصبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا دیا جاتاہے،عورتوں اور مردوں دونوں کو علیحدہ فراہم کیا جارہا ہےآپ جاکر وہاں کاکچن جاکردیکھیں وہ کسی بڑے فائیواسٹار سے کم صاف ستھرا نہیںہے۔ہمارے سائبر نائف میں167 شہروں اور 15ملکوں سے لوگ علاج کراکر جاچکے ہیں ،تمام مریضوں کا مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔کیوں کہ یہاں آنے والے مریض دوردرازملکوں سے آرہے ہیں تو ان کےتیماردار کے لیے ہم کورڈجگہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
جنگ: اسپتال مستقبل میں بہتر طریقے سے چلے اس سلسلے میں کوئی تجاویز ہیں،ہمارا خیال ہے کراچی پھیل گیاہے آج کا جنا ح اور سول اسپتال قدیم شہر ہے ،تین کروڑ لوگ بہت دور تک آباد ہیں ،شہر کے اطراف میں اگر اسپتال کے کیمپس کھول کر سہولت زیادہ آسانی سے مہیا کی جاسکتی ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول:جناح اسپتال جیسا ہے اس کو ویسے ہی کام کرنے دیا جائے،لیکن آبادی کے مطابق نئے اسپتال بنائے جائیں ہمارے پاس ڈاکٹر نرس موجود ہیں بس سینٹر بنانے کی ضرورت ہے۔جناح اسپتال کے کیمپس بنانے سےجو دیگر سینٹر وہ بھی ڈھنگ سے کام نہیں کریں گے۔چند سال پہلے وفاقی حکومت نےکہا تھا کہ جناح اسپتال کا ایک300بیڈ کاسیٹلائٹ سینٹر بنے گاجو حب ریورروڈ پر قائم ہوگا ،موجودہ وفاقی وزیرصحت قادرپٹیل صاحب ان دنوںرکن قومی اسمبلی تھے،یہ منصوبہ انہی کا تھا،حکومت سندھ نے اس مد میں200ایکڑ زمین بھی فراہم کی تھی پھرکیا ہوا پھر پتا نہیں چلالیکن یہ حقیقت ہے علاج پر جناح کے نام پر لوگ اعتما د کرتے ہیں،آپ لاڑکانہ میں جناح اسپتال لاڑکانہ بنائیں لوگ وہاں کے علاج پر اعتماد کریں گے۔
صابر میمن: نئے بنانے کی ضرورت نہیں ہماری بہت سی اسپتال بدانتظامی کی وجہ سےضائع ہورہے ہیں،ایک موقع پر سندھ کے میڈیکل یونیورسٹی کے وی سیز سےمیٹنگ ہوئی تھی جس میں تجویزکیا گیا کراچی سمیت سندھ بھر میں جتنے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ہیں انہیں کسی نہ کسی یونی ورسٹی کے ساتھ جوڑ دیا جائے اورانہیں ٹیچنگ اسپتال ڈیکلئیر کردیا جائے،ان اسپتالوں کو خود بہ خود معیار بلند ہوجائےگا۔
ڈاکٹر شاہد رسول: آرڈر نکلا ہوا ہے کراچی کے ملیر سعود آباد ،ابراہیم حیدری اور لانڈھی کورنگی ان تینوںاسپتال کو جناح سندھ یونی ورسٹی سے منسلک کردیا گیا ہے۔وقت آگیا ہے وہاں ہائرنگ کی جائے اورفیکلٹی پوسٹ کی جائے۔یہ سپریم کورٹ کے دوہزار سترہ یا اٹھارہ کے فیصلے میںکہا گیا ہے جس میں اس نے جناح اسپتال کو دوبارہ صوبے سے وفاق کے حوالے کیا تھا۔
جنگ: عدالت کا وہ فیصلہ غیر آئینی تھا۔
پروفیسر صغیر حسین شاہ: ہمارے یہاں صحت کے بنیادی یونٹ ڈیولپ نہیں ہیں،ہمارے جناح اور سول میں وہ کیسز آتے ہیں جو کہیں بھی ہوسکتے ہیں،ہرکیس کی وجہ سے یہاں ہجوم رہتا ہے پھر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں،ہمیںچھوٹے مرض یا چھوٹے ، آپریشن میں نہ الجھائیں،ہم سے وہ کام کروائیں جو ہم ہیں ،ایکسرے کےلیے یہاں نہ بھیجیں یہاں سائبر نائف اور اس جیسے دیگر بڑے علاج کےلیے بھیجیں۔
ڈاکٹر طارق محمود: جناح اسپتال اور پاکستان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ پوری دنیا میں صرف سات اسپتال ایسے ہیں جن کے پاس دو سائبرنائف فوٹو تھراپی ہیں،ہم آٹھواں اسپتال ہیں،لیکن دنیا میں ہم واحد ملک ہیں جہاں یہ علاج بالکل مفت فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔جناح اسپتال میں 1958 میں انجیوگرافی ہوتی تھی جو ڈاکٹر جمعہ صاحب کرتے تھے،1954 میں یہاں ریڈیوگرافی کے پانچ یونٹ تھے
اس وقت پورے مشرق وسطیٰ کوئی اسپتال اس کے قریب نہیں تھا۔
ڈاکٹر شاہد رسول: ہماری ٹیم پاکستان کی غریب عوام کےلیے جناح اسپتال کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، اسپتال 25سال کےلیے سندھ حکومت کے زیرانتظام چلاگیاہے، اس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اگلا مرحلے میں اس کو خود مختار باڈی بنا کر چلایا جائے تاکہ یہاں کے معیار میرٹ اور سہولیات پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو بصورت دیگرخدانخواستہ ڈسٹرکٹ اسپتال جیسا بننے کا خدشہ رہے گا۔
ہمارے اخراجات کااندازہ لگائیں تو بجٹ چار سے سواچار ارب کا ہے،ہمیں سالانہ کچھ ڈ یولپمنٹ کے فنڈ بھی ملتے ہیں تو کل ملاکر چھ ارب روپے ہوجاتا ہے یہ اضافہ سندھ حکومت نےکیاہے،پچھلے سال دوائوں کی مد میںایک ارب روپے ملے تھا ،اس سال بجٹ مزید بڑھایا گیا اور ساتھ حکومت نے17فیصد ٹیکس لگایا تھا وہ بھی مزید مل رہا ہے اس طرح دوائوں کے لیے ڈیڑھ ارب مل رہا ہے۔
جنگ: اسپتال کے حوالے سے متعدد شکایات ملتی ہیں، سرکاری اسپتال ہونے کی وجہ سے غریب ہی یہاں زیادہ رجوع کرتے ہیں اس کے باوجود غریب کے لیے سہولت کچھ اور امیر کے لیے کچھ اور ،اسپتال میں ناقص صفائی کی شکایت،ایمرجنسی تک میں اسٹریچر دستیاب نہیں ہیں لوگوں کی شکایت پر آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر شاہد رسول:اسپتال میں نئے ڈپٹی ڈائریکٹرآگئے ہیں جو دیکھ رہے، نظام کو مزید بہتر کیا جارہا ہے،صفائی کاعملہ سرکاری بھی ہے اور نجی بھی ۔اسٹریچر کی کمی دور کرنے کےلیےایک ادارہ پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن مددکررہاہے۔
جنگ:آپ مریضوں کو سہولیات دینے کے حوالے سے کیا کررہے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول: مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ان کے لیے فیکلٹی اسٹاف کی ضرورت ہے،اسٹریچر سہولت کے حوالے سے میری خواہش ہے کہ اسٹریچر کے ساتھ پورٹر ہو، مریض خود اسٹریچر گھسیٹےمناسب نہیں ہے،اسٹریچر کی مدد توپیف سے ہورہی ہے لیکن مجھے اسٹاف چاہیے۔مجھے سندھ حکومت سے اسٹاف کی قلت دور کرنے کےلیےترجیحی بنیادوں پر تعاون کی اشد ضرورت ہے پھر مجھ سے پوچھ گچھ کریں کہ اب شکایت کیوں آرہی ہے،اس کے باوجود آج جناح اسپتال میں ہونے والا علاج باقی تمام دیگر سرکاری اسپتالوں کےمقابلے سے بہت بہتر ہے۔
ہم کسی کو دوسری جگہ جانے کا نہیں کہتے،انہیں منتقل نہیں کرتےجب سےمیں ڈائریکٹر بنا ہوں سول اسپتال کا سی ٹی اسکین خراب ہے،تووہاں کا بھی مریض میرے پاس آرہا ہے وہاں سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ علاج بھی وہیں سے کرالو۔ ہم پر کام کا دباو بڑھ رہا ہے،ہم کام کررہے ہیں لیکن یہ نظام بیٹھ جائے گا،میرے رائے ہمیشہ یہ ہے کہ سیکنڈر ی کئیر ہسپتال کو جوڑا جائے،جیسے ایمرجنسی کی بات ہورہی تھی انہیں انٹی گریڈ آپس میں کرنا پڑے گا،اگر ہمارے پاس نزلہ بخار کھانسی کے مریض داخل ہونا شروع ہوجائیں گے تو اسٹروک ،گردے فیلیر کو کون داخل کرئے گا۔تو ہمیں کوئی سسٹم بنانا پڑے گا۔
جنگ:صابر میمن صاحب آپ کاتعلق سندھ کےد وسرے بڑے سرکاری اسپتال سول سے ہے آپ کا جناح اسپتال سے علاج معالجے کے حوالے سے آپس میں کوئی رابطہ ہے،اور اس کی کتنی اہمیت ہے؟
صابرمیمن:اسپتالوں کا آپس میں انٹی گریشن اور رابطہ دونوں ضروری ہے،اور شاہد صاحب کے آنے کے بعد ہمارے درمیان اچھا تعلق بن گیاہے،میں سول اسپتال کا کچھ عرصے ایم ایس رہا ہوں وہاں بھی جناح اسپتال جیسے مسائل ہیں،بجٹ ،عملے کی کمی،مشینری کا خراب ہونا ،دوائی ،صفائی کا فقدان،لیکن وہاں فیکلٹی پوری ہے،وہ ڈائو یونی ورسٹی کے تحت ہے تو لوگ موجود ہیں، پی جی ٹرینیز بھی موجود ہیں،لیکن کام کرنے کے لیے آپ کو بہتر ماحول چاہیے،آپریشن تھیٹرکاچلنا ،دوائی، لیبارٹری،وہاں بھی چیزوں اور سہولیات میں کمی کے مسائل ہیں۔سول اسپتال کی ایم آر آئی مشین اور سی ٹی اسکین تین سال سے سے خراب ہیں،لیکن ابھی اطلاعات ہیں کہ ان کی سی ٹی اسکین مشین پورٹ پر آگئی ہیں اور ایک ماہ میں اپنا کام شروع کردے گی۔ہم ٹراما سینٹر سے انہیں بیک اپ دیتے ہیں ان کے تمام داخل مریضوں کی ایم آر آئی اور سٹی اسکین ہم کرتے ہیں۔
جنگ: جناح ہسپتال سے متعلق لوگوں سے جب آپ رائے لیتے ہیں تو وہ کیا شکایت کرتے ہیں؟
صابر میمن:جناح میں جب تک مکمل فیکلٹی رہی شہر یوں کےلیے بہت اچھی سہولت تھی،حالانکہ سندھ صوبائی حکومت اسپتال کو قریباً دس سال سے بہت بڑابجٹ دے رہی ہے لیکن ہسپتال کے اختیار پر وفاق اور صوبے میں تنازعے یا اختلاف کی وجہ سے ہائرنگ نہ ہونا،اسٹاف کی کمی فیکلٹی کاریٹائرہونا ان کا متبادل نہ ملنا اسپتال کےلیے یہ گھمبیر مسئلےہیں، مشین ہو لیکن چلانے والا نہ ہو،علاج کےلیے ڈاکٹر نہ ہوتو مرض کی تشخیص مشکل ہوجاتی ہے ۔پورے اندرون سندھ میں نیوروسرجری نہیں ہے،لیکن ابھی یہیں پر نئی ہائرنگ کی خوش خبر ی ملی ہےاگر فیکلٹی کی ہائرنگ ہوجاتی ہے ہے تو پھر جناح اسپتال میں اتنی صلاحیت ہےکہ وہ چند ماہ میں شہر کا سب سے بہترین اسپتال ہوجائے گا۔
جنگ: مریض کی سہولیات اور اس کی شکایت پر آپ کیا کہتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: میں 32سال سے یہاں خدمات انجام دے رہا ہوں،پچاس سال پہلے صحت کی کسی بھی ایمرجنسی پر شہر ی جناح یا سول اسپتال جانے کی سوچتا تھاوہ سوچ آج بھی ہےلیکن پچاس سال اگر شہرکی آبادی پچاس لاکھ تھی تو وہ بڑھ کر تین کروڑ ہے،کراچی ملک کا معاشی حب ہے گزشتہ پچاس سالوں میں جناح یا سول جیسا بڑاکوئی تیسرہسپتال کسی بھی حکومت نے نہیں بنایا ہے،جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں مریضوں کا بے تحاشادبائو ہے ہم علاج کےلیے سب کو داخل بھی نہیں کرسکتے۔
کسی بھی اسپتال کی کارکردگی بہتر رکھنے کےلیے ضروری ہے اسے اس کی صلاحیت کے مطابق یعنی جتنے بیڈ ،ڈاکٹر، لیبارٹری ،دوائی اور بجٹ دیا ہےاسی کے مطابق مریض دیئے جائیں۔ ہمارے پاس داخل کسی ایک مریض کو یہ شکایت نہیں کہ اسے دوائی نہیں ملی اس کے ٹیسٹ نہیں ہوئے،ہمارے پاس ایکسرے، الٹراساونڈ ،سی ٹی اسکین،ایم آر آئی تمام بائیوکیمسٹری مکمل مفت ہیں۔لیکن یہ سہولت ایک حد تک ہوسکتی ہے، حکومت کو سوچنا پڑے گاکہ ہرضلع میں اتنا ہی بڑا اسپتال بنایا جائےتب آپ اس اسپتال کو لے کر چل سکیں گے۔
معالج کم اور مریض زیادہ ہونے پر مریض لازمی شکایت کرے گا۔میں ایک وقت میں ایک ہی مریض کو چیک کرسکتا ہوں میں جب کسی مریض کو پہلے چیک کرتا ہوں تو وہ خوش ہوجاتا ہے لیکن جس کانمبر سب سےآخر میں آتا ہےتو وہ ناراض ہوتا ہے کہ میں صبح سے بھوکا بیٹھا تھا۔تمام سہولت اور مسائل دیکھنے کے بعدطے کریں کہ جناح اسپتال کی کارکردگی کیسی ہے۔کسی بھی اسپتال کی کارکردگی جانچنے کے لیے وہاں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد،ان کی ایمرجنسی اور او پی ڈی میں کتنے مریض آتے ہیں چیک کیا جائے،اچھی چیز فروخت کرنے والی دکان پر رش ہوتا ہے اسی طرح جس اسپتال کی کارکردگی اچھی ہوگی وہاں رش ہوگا۔
میرے تمام شعبوں سے متعلق ہر اوپی ڈی 500 مریض سے کم نہیں ہوتی،جس کے مطلب مریض ہم پر اعتماد کرتے ہیں،جناح اسپتال میں لمزیونیورسٹی اسپتال کا مریض بھی داخل ہے کیوں کہ انہیں بھی ہم پر اعتما د ہے۔ہم بہت اچھے ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے لیکن کوئی شکایت پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ہم پر کام کا بے تحاشا دبائو ہے۔جناح اسپتال کاڈاکٹر ،پروفیسر سرجن کی روایت ہے کہ وہ دفتر میں نہیں بیٹھتے وہ اپنے مریض کے لیے فیلڈ میں ہوتے ہیں۔
جنگ: اکثر ینگ ڈاکٹرزکی پریشان کرنے کی خبریں سنتے ہیں اس میں کیا صداقت ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: تھوڑی بہت شکایت ہوتی ہے لیکن وہ تنگ نہیں کرتے،ہم اپنے مریض کی مددکرنا چاہتے ہیں،ہیپاٹائٹس کی ٹرانسمیشن ہمارے ملک میں بہت زیاد ہ ہے، جس کی وجہ کوئکری اور غیرضروری انجکشن کا استعمال ہے،جناح میں سندھ حکومت کاقائم سینٹر ہےجس میں ہم کیمپس مختلف برادریوں میں جاکر لگاتےہیں پازیٹیو مریض کو یہاں بلا کرہماری لیبارٹری معمولی پیسوں پرپی سی آر کرتی ہے،پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن کی مدد کی وجہ سے فیس بہت کم ہے ،مفت نہ ہونےکی وجہ اس مد میں سرکاری بجٹ کا نہ ملنا ہے ،لیکن اس کے باوجود یہ ٹیسٹ جو مارکیٹ میں آٹھ سے دس ہزار روپے کا ہے یہاں ڈھائی ہزار روپے میں ہوجاتا ہے۔ہیپاٹائٹس بی اور سی کی دوائی ہر شخص کے لیےمفت دستیاب ہے۔ہیپاٹائٹس بی کےلیے کسی بھی صوبے یا کہیں کا بھی شخص اگر سندھ کی سرزمین پر ہے اور وہ اس کی ویکسینشن چاہتا ہے میں بلاتخصیص لگادوں گا۔جو مریض آتا ہے میں اس کے تیماردار کا کہتا ہوں کہ وہ ویکسین لگوالے ۔
جنگ: پاکستان میں شوگر کا مرض بہت زیادہ ہےجناح اسپتال میں اس کے حوالے سے کیا سہولیات ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر مسروراحمد: پچھلے 25سال سے میرے وارڈ میں شوگر کےلیےکلینک ہے،جس میں بیس سے25ہزار مریض رجسٹرڈ ہیں ،یہاںروزانہ اوپی ڈی ہوتی ہے جہاں چالیس سے پچاس مریض چیک کئے جاتے ہیں،ان مریضوں کو کچھ ادویات اسپتال سے اور کچھ کو ایک این جی او جسے میں نے خود بنائی ہے وہ فراہم کرتی ہے،اس این جی او کا فنڈ زکوٰۃ کا نہیں اس لیے وہ دوائی کوئی بھی لے سکتا ہے،اس این جی او کےلیے فنڈ ہم مختلف پروگرام کرکے جمع کرتے ہیں ،این جی او منظور شدہ سالانہ آڈٹ کے ساتھ رجسٹرد ہے۔
مریض ہروزٹ پر سوروپے فیس دیتا ہے،ہم شوگر چیک کرتے ہیںاسے پندرہ سےایک مہینے کی دوائی دیتے ہیں،انسولین بھی دیتے ہیں،مریضوں کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں اگر مریض کے پاس یہ پیسے بھی نہیں تو بھی ہم اس کا علاج کرتے ہیں۔ ذیابیطس بیماری نہیں معاشرتی مسئلہ ہے،جس کے لیے پورے معاشرے کو ہماری مدد کرنی پڑے گی، ہمیں اپنی غذا ،رہن سہن پر غورکرنا پڑے گا، بیماری پیدا کرنے والے تمام محرکات کا جائزہ لینا پڑے گا،ورنہ اگلے دس سال بعد ہردوسرا اور تیسرا شخص شوگر کا مریض ہوگا۔
جنگ: جناح ابھی مریض اور علاج کے حوالے سے کتنا جدید اسپتال ہے اور اسٹریچر کی شکایت کیسے دورہوگی؟
ڈاکٹر طارق محمود: جب تک کراچی وفاقی دارلحکومت رہا یہ بہترین اسپتال تھا،پھراگلے پچاس سال کسی بھی حکومت نے ایک روپے کا ترقیاتی کام یہاں نہیں کیا،پچاس سال میں دو بڑے پراجیکٹ کااعلان ہوا، ایکنک نے ایک پراجیکٹ60ملین ڈالرکامنظورکیا،سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے مارچ2007میں سنگ بنیاد بھی رکھا،اس 60ملین ڈالرمیں سے 2007 سے 2014 تک 14لاکھ روپے ملے،یہ سائبرنائف سی ڈی ڈبلیو پی (کیپیٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی)کا منظور شدہ پراجیکٹ تھا،جو ایکنک سے چھوٹا اورایک ارب سے کم کا پراجیکٹ دیکھتا ہے۔ سائبر نائف پراجیکٹ میں حکومت پاکستان نے 80 کروڑ روپے دینے تھے،جس کی مد میں انہوں نے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے جناح اسپتال کو اداکیے۔تو ان دو پراجیکٹ کے علاوہ آج تک ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی نے جناح اسپتال کو کوئی پراجیکٹ نہیں دیا۔
اسی وجہ سے 70کی دہائی کے بعدسےاسپتال کا معیار گرتارہا،ہماری پیشنٹ ایڈفاونڈیشن 90کی دہائی سے کام کررہی ہے لیکن وہ ایک عرصے تک صرف بلڈ بینک یا گائنی میں خدمات انجام دےرہی تھی۔لیکن دوہزار دس سے اب تک جناح میں گیارہ سو 8نئے بیڈ پیشنٹ ایڈ فاونڈیشن نے تیار کئے،اس میں 550بیڈ کا سرجیکل کمپلیکس ہے،120 کو پلمانولوجی ہے،230 کو نیورولوجی اورسائیکاٹری ہے ایمرجنسی وارڈ میں80بیڈ کی توسیع کی ہے، اور 90 بیڈ کا میڈیکل آئی سی یو ہے،الحمداللہ یہ ساراترقیاتی کام عمارت کے اندر ہوا،کسی بھی سہولت کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں،بلڈنگ، آلات،اسٹاف اور ادویات توسندھ حکومت کی کوششوں سے جناح اسپتال میں بلڈنگ بن گئی ہے وزیراعلیٰ سندھ نے ہمیں پہچان لیا ہے اوراب ہمیں سندھ حکومت قوی امید ہے کہ جنا ح کو گیارہ سو بیڈ کے بجائے 2200بیڈ کے مطابق بجٹ فراہم کیا جائےگا۔
جناح کے پاس جو آلات ، مشینری بعض شعبہ جات کے آلات ہیں،وہ ملک میں کسی دوسرے کے پاس نہیں،اس میں ہمارا ریڈیالوجی اور انکالوجی ڈیپارٹمنٹ شامل ہے،ہمارا سرجیکل کمپلیکس کےتھیٹر اگلے پانچ ماہ میں مکمل ہوجائیں گے،تو اس کے بعد پاکستان بھر میں ہمارے مقابلے کے جرمنی کے بنے جدیدآپریشن تھیٹرکسی کے پاس نہیں ہوں گے،پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ سول سوسائٹی اور پیف کی تعاون سے ہم میڈیکل ٹاور بھی بنانے والے ہیں اس کے ڈونرہمارے پاس موجود ہیں۔
اگلے مرحلے کی ذمہ داری حکومت سندھ کی ہے انہوں نے ہمارا بجٹ بڑھانا ہےا وراسپتال میں افرادی قوت فراہم کرنی ہے۔جب ہم گیارہ سوبیڈ پر تھے تو ہمارے پاس2800ملازم تھے جس میں سے صرف 1600 باقی ہیںتو 2208 کے حساب سے ہمیں پانچ سے سات ہزار ملازمین کی ضرورت ہے، ہم نے صوبائی وزارت صحت کو پروپوزل بنا کر سمری روانہ کی ہے انہوں نے اس کا مثبت جواب دیا ہے، توقع ہے حکومت سندھ اگلے بجٹ میں ہماری ضرورت پوری کردے گی جس کے بعد جناح اسپتال کی کارکردگی بہت بہتر ہوجائےگی۔
جہاں تک صفائی کی شکایت ہے جناح اسپتال کا 80سے 90فیصد حصہ آپ کو صاف ملے گا، اگلے تین سال میں باقی سب بھی ٹھیک ہوجائےگا۔اسٹریچر کی کمی کاجہاں تک تعلق ہے، اسپتال میں یومیہ 1800مریض آتے ہیں اس میں 540مریضوں کو اسٹریچر اور ویل چیئرکی ضرورت پڑتی ہے، ایک فارماسیٹیکل کے تعاون سے مسئلہ حل ہوگیا ہے ،روا ں ماہ سے اس سروس کے لیے104افراد کو ملازم رکھا ہے جنہیں ہم نے ایمرجنسی والنٹئی سروس کا نام دیا ہے جو شفٹوں میں کام کریں گے،اب تک ایمرجنسی میں اسٹریچر سروس کے لیے چارافراد تھے جس میں سے تین ریٹائرہو اور صرف ایک باقی تھا۔پیف نے ٹوٹنے والےاسٹریچر کی ریپئرنگ کےلیے ایک فل ٹائم ورکشاپ بھی بنادی ہے، اسٹریچر کے حوالے سے کسی شکایت پر ایمرجنسی وارڈمیں ایک صاحب اسے دور کرنے کےلیے موجود ہیں۔
جنگ: اسپتال کی بہتر کارکردگی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی وجہ سے ہوئی یا حکومتی بجٹ میں اضافے کی وجہ سے؟
ڈاکٹر طارق محمود: بلاول بھٹو جناح اسپتال کراچی کا دورہ تین مرتبہ کرچکے ہیں آخری مرتبہ وہ سرجیکل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب میں آئے تھے توانہوں نے کہا تھا ہم جناح اسپتال میںسائبر نائف لگنے کے بعد پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی کامیابی کو دیکھ کر ہم نے کول پراجیکٹ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں کیا، جناح اسپتال میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی کامیابی کو دیکھ کر ہم نے میرپور خاص اور حیدرآباد کی سڑک بنائی،بلاول بھٹوکا ویژن یہی ہے ، تیزی سے بڑھتی آبادی کےلیے سارا کام کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتی ،ہم بائیس کروڑ کی آبادی ہیں صحت میںساری صوبائی حکومتوں کا کل بجٹ بھی دوبلین پاونڈ سالانہ نہیں بنتا ،توپرئیوٹ سیکٹراگرپبلک سیکٹر کی مددنہیں کرے گا، ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹر میں بہتری نہیں آئے گی۔
جنگ: ایمبولینس اسپتال کی بنیادی ضرورت ہے، جناح اسپتال مرکزی اسپتال ہےاس کی اپنی ایمبولینس سروس کی بھی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: امن ایمبولینس جس دن بندہوئی، اسی روز میرے آفس میں دو افراد آئے اور انہوں نے اسے جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا توہم تین افراد محترمہ وزیرصحت کے پاس گئے،اور ایمبولینس سروس جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ سروس پیف چلالے ہم اس کی آپریشنل قیمت دیا کریں گے،تو پھر ہم نے نو ماہ اسے چلایا،اب اس میں وسعت ہورہی ہے،ہم جناح اسپتال کی حدود میں الیکٹریکل ایمبولینس سروس چلانے چاہتے ہیں اور جلد لوگ یہ سہولت دیکھیں گے۔
جنگ: جناح سرکاری اسپتال ہے اس کے اطراف متعددنجی میڈیکل اسٹور اور لیبارٹری ہیں، ساری سہولیات مفت ملنے کے بعد یہاں کاروبارکیوں چمک رہا ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود:یہ کاروبار جن کی حدود میں ہورہا ہے ان سے سوال کیا جائے،جناح اسپتال کی حدود یا دیوار کے ساتھ ہم ایسا کوئی کام کرنے نہیں دیتے،ہم تو چاہتے کہ جناح اسپتال کے اطراف ایسی کوئی چیز نہ ہو جو مریض کو جناح اسپتال کی سہولت میں رکاوٹ پیدا کرے ،لیکن یہ سچ ہےیہ کاروبار ہورہا ہے،میڈیکل اسٹور این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کی حدود کے قریب ہیں ،بعض دکانیں تو فٹ پاتھ پر قائم ہیں جو غلط ہے،بے چارے مریض ،ہماری یونی ورسٹی کے طالب علم ڈاکٹرزجن کا فٹ پاتھ پر چلنا حق ہےجس سے ہمارے مریض اور ڈاکٹر دونوں پریشان ہوتے ہیں، ان کے راستے پر قبضہ کرلیا گیا ہے،فٹ پاتھ اور راستے گھیر کر بنائی گئی یہ تمام دکانیں ختم ہونی چاہیے۔متعلقہ اداروں کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔میں آپ کی وساطت سےمتعلقہ اداروں سے اپیل کروں گاکہ اس ناجائز قبضے کا نوٹس لےاور یہ تجاوزات فوری ختم کی جائے۔
جنگ:مفت دوائی کی سہولت اگر اسپتال دے رہا ہے تو ان دکانو ں پر رش کیوں ہے؟
ڈاکٹر طارق محمود: جناح اسپتال کی او پی ڈی میں ایک اعشاریہ سات ملین مریض آتے ہیں،2200بیڈ کا اسپتال جسے گیارہ سو بیڈ کا بجٹ ملتاہے تو اس بجٹ میں یہ ممکن نہیں کہ او پی ڈی کے ہرمریض کو دوائی دی جاسکے۔
ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال کی حدود یااس کی دیوار کے ساتھ کوئی کمرشل سرگرمی نہیںہم اس کی اجازت بھی نہیں دیتے، سوائے ایک میڈیکل اسٹور کے وہ دوتین عشروں سے قائم ہے وہ بھی حکومتی اقدام تھا ہم اس کو بھی بند کروانا چارہے ہیں۔حدود میں کمرشل سرگرمی کرنےکےلیےمجھ پر جتنا دباو ہے اتنامریضوں کے علاج کے لیے بھی نہیں ،یہ زمین صرف اسپتال کےلیے مختص ہے۔
اگر ایک دفعہ کمرشل کی اجازت دے دی گئی تو خدشہ ہے میرے بعد یہاں کمرشلائزیشن بہت تیزی سےہوگی ہم اسے ابھی سے زیرو کرنا چاہتے ہیں۔پیف نے حکومت کے ساتھ جوبھی ترقیات کام کیا پہلے وفاق سے اور صوبائی حکومت سے ایم او یو سائن کیا کہ جو چیز بھی ہم بنارہے ہیں اس عمارت کوکوئی بھی حکومت فروخت نہیں کرسکتی،نمبر دو اس پر کسی قسم کو یوزر چارج نہیں لگائے گی تاکہ عوام کو یہ سہولت ہمیشہ مفت ملتی رہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خالدشر: میرا تعلق شعبہ نیورلوجی سے ہے،وہاں کے مسائل کا ذکر کروں توپورا سندھ،جنوبی پنجاب اور بلوچستان سب جناح اسپتال کو جانتے ہیں،ہماری اسپیشلائزڈ فیلڈ کو پیف پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی بدولت بہت سی سہولیات میسر ہیں،ہم اپنی خدمات دے رہے ہیں ،بولان،صادق آباد،ملتان لاڑکانہ،نواب شاہ ،حیدرآباد حتی کہ سول اسپتال کا مریض جہاں کہیں کا بھی ہو اسے جناح اسپتال بھیج دیا جاتا ہے، جو اسپتال مریض ہمیں بھیجتے ہیں ان کے پاس پوری فیکلٹی موجود ہے دیگر چیزیں بھی میسرہوں گی لیکن ان کایہ رویہ عرصے سے جاری ہے ،دوردراز سے ہزاروں روپے خرچ کرکے ایمبولینس میں مریض ہمارے پاس آجاتا ہے اور ہم کہیں بھی نہیں بھیج سکتے ۔میری ساری فیکلٹی ریٹائر ہوگئی ہے ،میں دو اسسٹنٹ پروفیسر کے ساتھ تنہاکام کررہا ہوں،ہمارے پاس دس سال سے فیکلٹی میں نئے لوگ نہیں رکھے گئے،افرادی قوت کی کمی ہے،فنڈ کے مسائل ہیں،جناح اسپتال میں پیف کے تعاون سے نئی بلڈنگ بن گئی اگلے چندماہ میں 100بیڈ پر مشتمل نیورولوجی وارڈ کام شروع کردے گی،لیکن اسے چلانے کے لیے بہت مسائل ہیں۔
صابر میمن : یہ بدانتظامی ہے مریض کو علاج اس کے گھر کے قریب ملنا چاہیے،اگر ان اسپتالوں میںکوئی کمی ہے تو اسے دورکیا جائے ،ان اسپتالوں کو مریض کاپورا بجٹ مل رہا ہے لیکن وہ اسے ٹھیک سے استعمال نہیں کررہے،اپنے مریض دوسرے اسپتال بھیجنے والے اسپتالوں کی کارکردگی کو حکومت باقاعدہ چیک کرے۔ لاڑکانہ سے مریض چالیس ہزار کی ایمبولینس میں آتا ہے وہ غریب اس کے لیے،چارلاکھ کا اپنا سامان مویشی بیچتا ہے کراچی میں فٹ پاتھ پر رات دن گزار کر اپنے مریض کا علاج کرواتا ہے،جب لاڑکانہ میں اسپتال میں ہے تو وہ سہولت اسے وہیں ملنی چاہیے۔اس طرح جناح اسپتال پر بھی دباو کم ہوگا۔حکومت ان اسپتال پرسالانہ بہت پیسہ خرچ کررہی ہے وہ اسپتال کم ازکم اپنی صلاحیت کا پچاس فیصدتو استعمال کرے۔
جنگ: جناح اسپتال میں آئندہ کے مزید کیا منصوبے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد رسول: ہمارے پاس ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ ہے ہمارا سائیکائٹری یونٹ کھل گیا ہے جوپاکستان میں سب سے بڑا ایک سو بیس بیڈ کا ہے،اسی کے ساتھ نیورولوجی وارڈ کھلا ہے،نیورلوجی وارڈ کےلیے اگلا منصوبہ ہے دو طرح کے اسٹروک ہوتے ہیں ایک ارلی انٹروینشن سے اوورآل معذوری کم ہوجاتی ہے،اس پر کام کریں گے۔ ہمارا سب سے بڑا ٹارگٹ میڈیکل وارڈ کو وہاں سے نکال کرپیف کی مدد سے سرجیکل ٹاور کی طرح جو اسٹیٹ آف آرٹ ہے ایک میڈیکل ٹاور بنایاجائے،یہ بارہ منزلہ ہوگا جس میں چھ میڈیکل وار اور چھ اسپیشلٹی کے ہوں گےپھرپبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے انکالوجی کمپلیکس کا منصوبہ ہے۔
ڈاکٹر طارق محمود: جناح اسپتال میں انفیکشن ڈیزیز کا شعبہ نہیں ہے تومیڈیکل وارڈ بننے سے ہمارا پورا سورتی بلاک انفیکشن ڈیزیزکا90بیڈ او پی ڈی سمیت وارڈ بن جائے گا،اسی طرح ہیماٹالوجی نہیں ہے،مستقبل میں اس کی سروسس بھی شروع کرنا چاہتے ہیں،چند ماہ میں تھیلیسیمیا کا وارڈ بھی شروع کررہے ہیں،گائنی وارڈ میں چار آپریشن تھیٹر تھے اس کے لیبرروم کے اوپر نیا فلور بناکرآٹھ نئے آپریشن تھیٹر بنارہے ہیں،یوناٹالوجی جناح میں نہیں ہے اگلے چھ ماہمیں یہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ہم نے تیمارداروں کےلیے کئی ویٹنگ ایریا بنائے ہیں،ضرورت مند کو کمبل فراہم کررہے ہیں جوواپس کردے تو اچھا ہے۔
ہمارے پاس 80فیصدمریض دوردراز سے آئے ہوتے ہیںہمارے پاس طعام گاہ کی سہولت بھی ہے جہاں تیمارداروں کوصبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا دیا جاتاہے،عورتوں اور مردوں دونوں کو علیحدہ فراہم کیا جارہا ہےآپ جاکر وہاں کاکچن جاکردیکھیں وہ کسی بڑے فائیواسٹار سے کم صاف ستھرا نہیںہے۔ہمارے سائبر نائف میں167 شہروں اور 15ملکوں سے لوگ علاج کراکر جاچکے ہیں ،تمام مریضوں کا مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔کیوں کہ یہاں آنے والے مریض دوردرازملکوں سے آرہے ہیں تو ان کےتیماردار کے لیے ہم کورڈجگہ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
جنگ:اسپتال مستقبل میں بہتر طریقے سے چلے اس سلسلے میں کوئی تجاویز ہیں،ہمارا خیال ہے کراچی پھیل گیاہے آج کا جنا ح اور سول اسپتال قدیم شہر ہے ،تین کروڑ لوگ بہت دور تک آباد ہیں ،شہر کے اطراف میں اگر اسپتال کے کیمپس کھول کر سہولت زیادہ آسانی سے مہیا کی جاسکتی ہے؟
ڈاکٹر شاہد رسول:جناح اسپتال جیسا ہے اس کو ویسے ہی کام کرنے دیا جائے،لیکن آبادی کے مطابق نئے اسپتال بنائے جائیں ہمارے پاس ڈاکٹر نرس موجود ہیں بس سینٹر بنانے کی ضرورت ہے۔جناح اسپتال کے کیمپس بنانے سےجو دیگر سینٹر وہ بھی ڈھنگ سے کام نہیں کریں گے۔چند سال پہلے وفاقی حکومت نےکہا تھا کہ جناح اسپتال کاایک300بیڈ کاسیٹلائٹ سینٹر بنے گاجو حب ریورروڈ پر قائم ہوگا ،موجودہ وفاقی وزیرصحت قادرپٹیل صاحب ان دنوںرکن قومی اسمبلی تھے،یہ منصوبہ انہی کا تھا،حکومت سندھ نے اس مد میں200ایکڑ زمین بھی فراہم کی تھی پھرکیا ہوا پھر پتا نہیں چلالیکن یہ حقیقت ہے علاج پر جناح کے نام پر لوگ اعتما د کرتے ہیں،آپ لاڑکانہ میں جناح اسپتال لاڑکانہ بنائیں لوگ وہاں کے علاج پر اعتماد کریں گے۔
صابرمیمن:نئے بنانے کی ضرورت نہیں ہماری بہت سی اسپتال بدانتظامی کی وجہ سےضائع ہورہے ہیں،ایک موقع پر سندھ کے میڈیکل یونیورسٹی کے وی سیز سےمیٹنگ ہوئی تھی جس میں تجویزکیا گیا کراچی سمیت سندھ بھر میں جتنے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال ہیں انہیں کسی نہ کسی یونی ورسٹی کے ساتھ جوڑ دیا جائے اورانہیں ٹیچنگ اسپتال ڈیکلئیر کردیا جائے،ان اسپتالوں کو خود بہ خود معیار بلند ہوجائےگا۔
ڈاکٹر شاہد رسول:آرڈر نکلا ہوا ہے کراچی کے ملیر سعود آباد ،ابراہیم حیدری اور لانڈھی کورنگی ان تینوںاسپتال کو جناح سندھ یونی ورسٹی سے منسلک کردیا گیا ہے۔وقت آگیا ہے وہاں ہائرنگ کی جائے اورفیکلٹی پوسٹ کی جائے۔یہ سپریم کورٹ کے دوہزار سترہ یا اٹھارہ کے فیصلے میںکہا گیا ہے جس میں اس نے جناح اسپتال کو دوبارہ صوبے سے وفاق کے حوالے کیا تھا۔
جنگ:عدالت کا وہ فیصلہ غیر آئینی تھا۔
پروفیسر صغیر حسین شاہ:ہمارے یہاں صحت کے بنیادی یونٹ ڈیولپ نہیں ہیں،ہمارے جناح اور سول میں وہ کیسز آتے ہیں جو کہیں بھی ہوسکتے ہیں،ہرکیس کی وجہ سے یہاں ہجوم رہتا ہے پھر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں،ہمیںچھوٹے مرض یا چھوٹے ، آپریشن میں نہ الجھائیں،ہم سے وہ کام کروائیں جو ہم ہیں ،ایکسرے کےلیے یہاں نہ بھیجیں یہاں سائبر نائف اور اس جیسے دیگر بڑے علاج کےلیے بھیجیں۔
ڈاکٹر طارق محمود:جناح اسپتال اور پاکستان کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ پوری دنیا میں صرف سات اسپتال ایسے ہیں جن کے پاس دو سائبرنائف فوٹو تھراپی ہیں،ہم آٹھواں اسپتال ہیں،لیکن دنیا میں ہم واحد ملک ہیں جہاں یہ علاج بالکل مفت فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔جناح اسپتال میں 1958 میں انجیوگرافی ہوتی تھی جو ڈاکٹر جمعہ صاحب کرتے تھے،1954 میں یہاں ریڈیوگرافی کے پانچ یونٹ تھے
اس وقت پورے مشرق وسطیٰ کوئی اسپتال اس کے قریب نہیں تھا۔
ڈاکٹر شاہد رسول: ہماری ٹیم پاکستان کی غریب عوام کےلیے جناح اسپتال کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، اسپتال 25سال کےلیے سندھ حکومت کے زیرانتظام چلاگیاہے، اس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اگلا مرحلے میں اس کو خود مختار باڈی بنا کر چلایا جائے تاکہ یہاں کے معیار میرٹ اور سہولیات پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو بصورت دیگرخدانخواستہ ڈسٹرکٹ اسپتال جیسا بننے کا خدشہ رہے گا۔