• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بامقصد فلم’’وطن‘‘ کی کہانی جاننے سے قبل ماضی، حال اور مستقبل کا تعین کرنا پڑے گا۔ ماضی جدوجہد اور قربانیوں سے لبریز، حال بے حال ہے اور مستقبل ایک ایسی روشن سحر کا منتظر ہے، جس کا اُجالا نفرت کے اندھیروں کو ختم کرکے محبت کی روشنی پھیلائے گا۔ یہ وطن ِ عزیز پاکستان کی عکاسی ہے، جو وطن کی داستان ہے، وطن کی زبان میں، اس کا مرکزی کردار ایک فوجی سپاہی ہے، شہادت کا مطلوب ایک مجاہد ہے، جو عظمت وطن کا محافظ ہے۔ ناموس وطن کا پاسبان اور حیات نو کا نقیب ہے۔

یہ ایک حوالدار شاہ گل کی کہانی ہے ، جس نے جب جنگ کا بگل سُنا، تو اپنی نئی بیاہی دلہن ریشماں کے دست حنائی سے ہاتھ چھڑا کر بندوق تھام لی۔ ریشماں کی ریشمی پلکوں پرآنسو تھرانے لگے، شاہ گل نے کہا ’’ریشمی ! جنگ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے، اگر دھوپ نے چھائوں کو نِگل لیا، تو دل نہ ہارنا، مرد دل ہارتا ہے، تو ملک ہار جاتا ہے، عورت دل ہار دے تو قوم مرجاتی ہے۔ ہارا ہوا ملک فتح ہو سکتا ہے، مری ہوئی قوم زندہ نہیں ہوسکتی۔ 

شاہ گل میدان ِ جنگ میں چلا گیا۔ وقت گزرتا گیا، اونچے اونچے گھنے درختوں اور پہاڑوں کے موسم بدلتے گئے، بوکاٹھ اور شہتوت کے درختوں پر بور پکنے لگا، ریشماں نے اپنے دل میں ایک ننھے سے دِل کی دھڑکن سنی، اُس کی آنکھوں میں ایک چمک لہرانے لگی، لیکن بہت جلد وہ چمک، بجلی بن کر ٹوٹ پڑی، سپاہی، سپاہی کو جنم دے کر ناموس وطن پرقربان ہوگیا۔ وطن کی عظمت کامینار ہمیشہ بہادر سپاہیوں کی لاشوں پرتعمیر ہوتا ہے۔ ریشماں، ننھے سپاہی جاوید کی طرف دیکھتے ہوئے، بت کی طرح ساکت ہوگئی۔ آنسو اس کی آنکھوں میں منجمد ہو کر رہ گئے۔ باپ نے بیٹی کوحوصلہ دیتے ہوئے کہا ’’صبر کرو بیٹی، فوجیوں کی بیویاں رویا نہیں کرتیں۔ وہ تو پہاڑوں کی اُن چوٹیوں کی طرح ہوئی ہیں، جہاں پر دھوپ میں چمکتی ہے اور برف میں پگھلتی ہے۔‘‘

ریشماں ایک چٹان کی طرح حوادث زمانہ کا مقابلہ کرتی رہی جاوید،آٹھ سال کا ہو گیا تھا، ایک روز اسے شہر کے ایک رئیس منصور کے بِن ماں کے بچے مسعود کے لیے اپنے سینے میں ممتا کا چراغ روشن کرنا پڑا۔ منصور کی مرحوم بیوی نیلم جوریشماں کی ہم شکل تھی۔ جب معصوم مسعود نے اُسے امی کہہ کر پکارا!! تو وہ منصور کی بیوی بن گئی۔ یہ سب کچھ اُس نے اپنے بچے جاوید کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے کیا۔ وقت گزرتا گیا جاوید اور مسعود جوان ہوگئے اور ریشماں کے گھنے سیاہ بالوں میں چاندنی جھانکنے لگی۔ شاہ گل کا بیٹا جاوید بھی سپاہی بن کر وطن کی خدمت پر مامورہونا چاہتا تھا۔ 

وقت نے ایک بار پھر سپاہی، شاہ گل کی کہانی دہرائی، جاوید کی شادی ہو جاتی ہے، تو دوسرے روز محاذ سے تار آتا ہے کہ جنگ چھڑ گئی۔ ریشماں کو اپنے خاوند شاہ گل کی یاد آتی ہے۔ جاوید، فوج کی گاڑی میں سوار ہو کر محاذ پر جارہا ہے۔ اس کی بیوی جینی اسے الوداع کہہ رہی ہے۔ ایک درخت کے کنارے بوڑھی ریشماں کو اپنی جوانی کے وہ دن یاد آتے ہیں، جب اُس نے جاوید کے باپ کو بھی اسی طرح محاذ پر روانہ کیا تھا۔ ایک سپاہی کی بیوی نے آج پھر اپنے سپاہی بیٹے کو وطن کے لیے روانہ کرکے وطن کی مائوں کی عظمت میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے سرکو فخر سے بلند کردیا۔

فلم وطن کی کہانی کے مختصر خلاصے کے بعد اس فلم میں کام کرنے والے اداکاروں کے کرداروں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مسرت نذیر: فلم وطن کی کہانی کا وہ بنیادی کردار جس پر پوری فلم بیس کرتی ہے۔ اس فلم میں مسرت نذیر کا ڈبل رول تھا۔ ریشماں کی صورت میں ایک پہاڑی دوشیزہ جو ایک سپاہی کی بیوی ، سپاہی کی شہادت کے بعد اس کی بیوہ بن کر اپنے بیٹے کو سپاہی بنانے کی تمنا کرتی ہے۔ نیلم کے مختصر کردار میں ایک رئیس کی بیوی ،جو پہاڑی علاقے میں ایک کار کے حادثے میں اپنے شوہر اوربچے مسعود کو چھوڑ کر ہلاک ہو جاتی ہے۔ 

فلم ’’آنکھ کا نشہ‘‘کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے دورکی مقبول اورکام یاب ہیروئن مسرت نذیر نے ینگ ٹو اولڈ کردار میں لاجواب اور یادگار کردارنگاری پیش کی۔ معروف اداکار اعجاز اور کمال کی والدہ کے اس کردار میں انہیں شائقین فلم نے بے حد پسند کیا تھا۔ اداکارہ بہار نے فلم میں روایتی ہیروئن کا رورل کیا تھا، یہ ایک تعلیم یافتہ ماڈرن لڑکی جینی کا کردار تھا، جس کی ماں ایک انگریز تھی، باپ محکمہ جنگلات کا ایک اعلیٰ افسر تھا۔ جینی پہاڑی علاقے کی سیرکرنے آتی ہے ، جہاں اُس کی ملاقات ریشماں کے بیٹے جاوید سے ہوتی ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ 

اداکارکمال، ریشماں کا بیٹا جاوید، جو باپ کی طرح وطن کے سپاہی بنتا ہے، جینی سے محبت کرتا ہے۔ اداکار اعجاز، ریشماں کی ہم شکل نیلم کا بیٹا مسعود، نیلم جو حادثے میں ہلاک ہو گئی تھی۔ ننھے مسعود نے ریشماں کی صورت میں دوبارہ اپنی ماں کو پا لیا۔ جوان ہونے کے بعد ڈاکٹر بن کر آتا ہے۔ جینی اُس کی منگیتر تھی، مگر وہ اس کی منفی سوچ اور حرکات کی وجہ سے بددل ہو کر اس کے بھائی جاوید کو پسند کرتی ہے۔ 

مسعود، اس وجہ سے جاوید سے ناراض رہتا ہے، مگر ایک روز اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ الیاس کاشمیری، نیلم کا شوہر، مسعود کا باپ، منصور، جو جنگلات میں لکڑی کا بہت بڑا ٹھیکےدار تھا، بیوی کی ہلاکت کے بعد ریشماں سے شادی کرکے اس کے معصوم بچے کو باپ کی شفقت دیتا ہے۔ اداکار ہمالیہ والا: ایک وطن فروش، اسمگلر شمشیر بخشی کے کردار میں جو جنگلات کا بے ایمان ٹھیکےدار تھا، ایک غیر ملکی جاسوس کے طور پر وطن کی زمینوں کے راز دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کرتا تھا۔

اداکارسلطان: ایک مجاہد اور بہادر سپاہی شاہ گل کے یادگار کردار میں جو اپنی نئی نویلی دلہن ریشماں کو الوداع کہہ کر وطن کے لیے اپنی جان قربان کرتا ہے۔ اداکار آصف جاہ: ریٹائرڈ میجر اور محکمہ جنگلات کا اعلیٰ افسر شہباز خان، جوہر وقت اپنے ملازمین کو اپنے فوجی قصے سُناتا رہتا ہے، جس کی انگریز بیوی مر چکی ہے اور ایک بیٹی جینی تھی، جس کی منگنی اُس نے اپنے دوست منصور کے بیٹے ڈاکٹر مسعود سے طے کی ہوئی تھی۔ 

اداکار اجمل: چاچارحموں ،حویلیاں اسٹیشن کا ریلوے گارڈ ہوتا ہے۔ اداکارنذیر بیدی: ریشماں کا باپ دینو، جو افیون کا نشہ کرتاہے۔ اداکار ریحان: مہما ن اداکار ایک فوجی افسر تھا، اداکارآغاحسینی: مہمان اداکار لیفٹیننٹ جنرل کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔ فضل حق: جنگل کامنشی، عباس نوشہ: ڈبو، بخشی شمشیر کا کارندہ ، صبا: بستی کی رقاصہ ، زمرد: ریشماں کی سہیلی کے کرداروں میں نظر آئے۔

فلم ساز : ہدایت کار ، مکالمے : انورکمال پاشا کے تھے، کہانی حکیم احمد شجاع، عکاسی: رشید لودھی، صدابندی: ایس جیلانی، موسیقار ماسٹر عنایت حسین ، نغمہ نگار: قتیل شفائی، پروسیسنگ : رحمان، محمود کی تھی۔

شاہ نور اسٹوڈیو میں مکمل ہونے والی یہ فلم جمعہ 29مارچ 1960ء عیدالفطر کے دن کراچی کے تاج محل سینما میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ابتدائی نام ’’مجاہد‘‘ تھا۔ ماسٹر عنایت حسین کی مدھر موسیقی اور مسرت نذیر کی اعلیٰ کردار نگاری نے اس فلم کو وطن عزیز کی فلمی صنعت کے لیے ایک جُھومر بنا کر پردئہ سیمیں پر پیش کرکے اسے یادگار اورکلاسیکل بنادیا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید