دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر پھولوں کے شہر پشاور کو خون میں نہلا دیا ہے، اس بار پشاور کے حساس ترین مقام پولیس ہیڈکوارٹر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب پولیس لائنز کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی جارہی تھی، خودکش بمبار نے زرو دار دھماکہ کیساتھ خود کو اڑایا جس کے نتیجے میں 65 سے زائد پولیس اہلکار شہید اور 150 کے قریب زخمی ہوگئے، صوبائی دارالحکومت پشاور میں آخری خودکش دھماکہ 4 مارچ 2022 کو نماز جمعہ کے دوران اہل تشیع کی مسجد میں ہوا تھا جس میں 63 نمازی شہید ہوئے تھے، 11 ماہ کے بعد پولیس لائنز پشاور میں ہونے والے خودکش حملے نے سکیورٹی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے آپریشن ضرب عضب میں عسکریت پسندوں کی کمرتوڑ کر زبردست شکست دی تھی جس کے بعد ایک طویل عرصہ تک خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں امن قائم ہوگیا تھا لیکن افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے اچانک نہ صرف افغانستان میں پاکستانی طالبان کیساتھ مذاکرات کا راستہ اپنایا ، فریقین نے جنگ بندی کا بھی فیصلہ کیا بلکہ ان مذاکرات سے کافی امیدیں بھی وابستہ کی گئی تھیں ، سیز فائر سے پاکستانی طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لوگوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل کیا جنہوں نے کئی واقعات کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا جس کے خلاف خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع میں شدید عوامی ردعمل اور احتجاج بھی سامنے آیا۔
اسی دوران اچانک مذاکرات اور سیز فائر ختم کی گئی جس کے نتیجے میں صوبہ میں بدامنی کے واقعات شروع ہوئے، قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے بعد گزشتہ دو ماہ سے عسکریت پسندوں کی جانب سے پشاور میں پولیس تھانوں، چوکیوں اور چیک پوسٹوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے، پولیس بھی اس خدشہ کا اظہار کررہی ہے کہ اس کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی نئی لہر کا سامنا ہے ، پولیس پر ان حملوں سے عسکریت پسند دفاعی فورس کی پوزیشن کمزور ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو پشاور پولیس لائنز میں دھماکہ کے بعد کافی حد تک کامیاب بھی نظر آرہے ہیں کیونکہ پولیس لائنز میں داخل ہونے کیلئے سکیورٹی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، خودکش بمبار کی جانب سے پشاور کے حساس ترین مقام اور ایک مشکل ہدف کو نشانہ بنانے کے بعد جہاں سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں وہاں شہریوں کی تشویش اور خوف میں بھی اضافہ ہوگیا ہے چنانچہ ضرورت اس امر کی ھے کہ سکیورٹی ادارے اور قومی قیادت مل بیٹھ کر کوئی جامع حکمت عملی مرتب کریں ، پشاور کے خودکش دھماکے سے پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں نگران حکومت کی تشکیل کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے ،صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اچانک سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا تھا اور فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کیساتھ نہ بیٹھنے کے اعلانا ت بھی سامنے آگئے تھے مگر اس دوران تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر اور سابق وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی مداخلت سے دونوں فریق سپیکر ہاؤس میں اکٹھے ہونے پر رضا مند ہوئے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے صوبہ کے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر بھی اتفاق ہوا تاہم نگران وزیر اعلیٰ کے عہدہ کیلئے محمد اعظم خان کا نام چونکہ اکرم درانی نے پیش کیا تھا اس لئے پارٹی چیئرمین عمران خان کیساتھ مختصر مشاورت کے بعد وزیر اعلیٰ محمود خان نے اکرم درانی کے پیش کردہ نام پر اتفاق کیا حالانکہ اس سے قبل پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے معاملے پر بدترین ڈیڈلاک دیکھنے میں آچکا تھا، خیبر پختونخوا اسمبلی پنجاب اسمبلی کے بعد تحلیل ہوئی تاہم نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے معاملے میں خیبر پختونخوا پنجاب سے بازی لے گیا جس کے پیچھے یقیناً اس صوبہ کی کچھ دیرینہ روایات کا بھی ہاتھ ہے کہ حالات چاہے جو بھی ہو، سیاسی اختلافات کتنے بھی ہو، وضع داری اور رواداری کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔
توقع تو یہی تھی کہ اب نگران کابینہ بھی اتفاق رائے سے تشکیل پاجائے گی بلکہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آئے تھےکہ تحریک نصاف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو متوازن نمائندگی ملے گی اور مشاورت سے نگران کابینہ تشکیل پاجائے گی مگر پھر اچانک صورت حال بدل گئی ، پی ڈی ایم کی جماعتوں نے تو ایک دوسرے کیساتھ مشاورت شروع کی مگر تحریک انصاف کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا، ساتھ ہی نگران کابینہ کی تشکیل کیلئے سرگرمیوں کا مرکز وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بجائے گورنر ہاؤس بن گیا اور مبینہ طور پر تمام معاملات نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کے علم میں لائے بغیر ہی طے کئے گئے اور وزیر اعلیٰ15رکنی کابینہ میں بمشکل تین ساتھیوں کو جگہ دلواسکیں بلکہ مبینہ طور پر انہیں تیار لسٹ تھما دی گئی تھی درحقیقت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اپنے اپنے ارب پتی لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کے بعض رہنماؤں کیلئے اے ٹی ایم کا کام دیتے رہے ہیں، اس سے قبل 2013 اور 2018 میں جو نگران کابینہ تشکیل پائی تھی، ان دونوں میں مکمل طور پر غیر سیاسی شخصیات شامل کی گئی تھیں اور اس وقت کابینہ کا حجم بھی کم رکھا گیا تھا مگر اس مرتبہ نہ صرف کابینہ کا حجم زیادہ رکھا گیا ہے بلکہ انتہائی حد تک سیاسی شخصیات کو شامل کیا گیا ہے، ارب پتیوں کی اکثریت پر مشتمل یہ نگران کابینہ حلف بھی اٹھا چکی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے پہلے ہی روز نگران کابینہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے قائدین اور سابق صوبائی وزرا کی جانب سےجو پریس کانفرنس ہوئی اس میں تو یہاں تک الزام عائد کیا گیا کہ نگران کابینہ کے وزرا کی لسٹ پر نگران وزیر اعلیٰ سے زبردستی دستخط کروائے گئے، اس کے بعد محکموں کی تقسیم کے حوالے سے جو معاملات چلے ہیں ان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے یہ نگران کابینہ نہیں بلکہ باقاعدہ کوئی صوبائی کابینہ تشکیل پا رہی ہو، بہرحال بہتر یہی ہوتا کہ نگران کابینہ کی تشکیل میں توازن کاخیال رکھا جاتا اور انتخابی عمل کو متنازعہ ہونے سے بچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی کیونکہ اب صورت حال جس طرف جاتی دکھائی دیتی ہے اس کے تناظر میں مستقبل قریب میں سیاسی استحکام کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔