پاکستان مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں ہمراہ جب سے اقتدار میں آئی ہے اسے معاشی مشکلات کا شدید سامنا ہے جن میں آئے روز کمی کی بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے، ملک کے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے ملک معیشت کو سہارا دینے کے لئے سعودی عرب چائینہ، دبئی، قطر دسمیت دیگر ممالک کے ساتھ متعدد طار رابطے بھی کئے ان ملکوں نے وعدے وعید بھی کئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان وعدوں کی تکمیل میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے بلکہ مسلم لیگ ن کا اپنا مقبولیت کا گراف بھی گر رہا ہے، اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کو مشکل معاشی حالات میں اقتدار میں لا کر پارٹی کے خلاف سازش کی گئی ہے۔
ایک طرف مریم نواز کی ساڑے تین ماہ کے بعد وطن عزیز میں واپس آئی ہیں اور دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخ کا سب زیادہ یکمشت اضافہ کرکے مریم نواز کو سلامی دی ہے، اور اس اضافے نے عوام کی کمر توڑکر رکھ دی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے نہ صرف مہنگائی کا ایک طوفان برپا کردیا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی ب تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔
ان حالات میں ن لیگ کو منظم کرنا مریم نواز کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے پیٹرولیم مصنبوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے نہ صرف مسلم لیگ ن کی مقبولیت کے گراف میں کمی کی ہے بلکہ بہت بڑا شگاف ڈال دیا ہے عوام جس قدر ایک وقت کی روٹی سے پہلے سے پریشان تھے اب بے روز گاری اور مہنگائی کے اس طوفان سے عوام اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں، مسلم لیگی رہنما خاص طور پر جو انتخابی سیاست کرتے ہیں بہت پریشان ہیں۔
جہاں تک دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات یا جنرل انتخابات کے انعقاد کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوشربا اضافے کے بعد ابھی انتخابات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا ہے، یہی سمجھا جائے کہ انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے کیونکہ اگر انتخابات قبل از وقت یا بر وقت منعقد کئے جانے کا کوئی امکان ہوتا تو اس صورت میں مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور مہنگائی کا طوفاط عوام پر مسلط نہ کرتی، مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے ملک بھر کے تنظیمی دوروں کا بھی شیڈول اجاری کردیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن جنرل اتخابات سے قبل اپنی تنظیم ڈاھانچے کی طرف توجہ دینے جا رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کی پارٹی کوئی تنظیمی ڈاھانچہ نہیں ہے۔
پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی اصلاح کے لئے قیادت کی جانب سے اقدام کیا جا رہا ہے، اس سے پارٹی کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی یہی وجہ ہے کہ مریم نواز یکم فروری سے24مارچ2023ء تک مختلف اضلاع کے دورے کریں گی جہاں نہ صرف وہ ورکرز کنونشنز سے خطاب کریں گی بلکہ تنظیمی اجلاس بھی کریں گی، اس تنظیمی دوروں سے مسلم لیگ ن کی تنطیم کتنی مضبوط ہوگی یہ پھر اس کی مقبولیت کا گراف مزید گرے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مریم نواز کے ملک بھر کے اس تنظیمی دورے سے پارٹی کو عوام میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ہو جائے گا، کہ وہ اس وقت کہاں کھڑی ہے، اگر مقبولیت کا گراف 2018کی پوزیشن نظر آیا تو جنرل انتخابات کے وقت پر ہونے کا امکان ہے۔