• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آئی ایم ایف کے بلڈوزر نے بے بس عوام کو کچل دیا

ملک میں معاشی بحران کے باعث سیاسی بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضا میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور اشیاء کی مہنگائی کے فارمولے کو من و عن قبول کرنے کا دبائو ہے مالیاتی فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے معاشی اور سیاسی بے یقینی کی اس فضا میں آئی ایم ایف کے بلڈوزر نے مجبور ، بے بس اور لاچار عوام کو بری طرح کچل کے رکھ دیا ہے اور ان حالات میں پشاور میں ہونے والی دہشتگردی نے خدشات میں اضافہ کیا ہے جس میں 100سے زیادہ معصوم اور بے گناہ افراد کی شہادت نے ایک بار پھر خوف و ہراس کی فضا پیدا کی ہے، ایسے حالات میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا جنم لینا ایک فطری سی بات ہے۔ 

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو ان دنوں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والے بھی موجودہ جمہوریت کی بے بسی پر مایوس اور افسردہ دکھائی دیتے ہیں جس کی ایک جھلک رواں ہفتے اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے ایک سیمینار میں بھی دیکھنے میں آئی جو خدائی خدمت گار باچہ خان اور خان عبدالولی خان کی سیاسی خدمات کے اعتراف کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ اہم سیاسی راہنمائوں سمیت بعض اہم مناصب پر رہنے والی شخصیات نے بھی ملک میں صدارتی نظام کی سازش اور مارشل لاء کے خدشات کے حوالے سے ملک میں ہونے والے بعض واقعات کو جواز کے طور پر پیش کیا۔ 

گوکہ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہئیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 90 روز میں الیکشن کس نے کرانے ہیں یہ ہم خود ڈھونڈ لیں گے۔ جسٹس جواد حسین کے ان ریمارکس کو ’’معنی خیز‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی توجہیہ اپنے اپنے انداز میں کی جارہی ہے جبکہ اس حوالے سے ماضی میں غیرمعمولی حالات کے پیش نظر انتخابات ملتوی یا ان کے دورانیے میں اضافہ کئے جانے کو واقعات کو بھی ’’تازہ‘‘ کیا جارہا ہے۔ 1988 جب ملک میں سیلاب آیا تھا اس وقت فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں انتخابات کیلئے جو تاریخ دی تھی اس کے دورانیے میں توسیع کردی تھی جبکہ 2007 میں جب محترمہ بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ ہوا تھا اس وقت بھی متعینہ دورانیے میں انتخاب نہیں ہوئے تھے۔ 

دوسری طرف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتوں کے قیام پر بھی شخصیات کے انتخاب پر جہاں تنقید کا سلسلہ جاری ہے وہیں بعض حلقے نگران حکومتوں کے قیام کے دورانیے پر مختلف آراء پیش کر رہے ہیں اور یقین ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دورانیہ تین ماہ سے بہرصورت تجاوز کرے گا جو ایک سال کے دورانیے پر بھی محیط ہوسکتا ہے اس کیلئے آئین کے حوالے بھی دیئے جا رہے ہیں جس میں ایسی گنجائش موجود ہے پھر ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو بھی جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں سرگرمیوں کا آغاز ہونے کے ساتھ ہی سیاسی جوڑ توڑ، دعوئوں اورایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کی خواہش کے بعد کوششوں کو بھی رد کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں بھرپور انداز سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایم کیو ایم نے بھی قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر ضمنی انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل اتحادیوں کے راہنمائوں کی وساطت سے بھی مولانا فضل الرحمان نے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمت عملی اور فیصلے کرنے کے سلسلے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن آصف علی زرداری نے اپنے دیرینہ رفیق اور سیاسی ہمدم مولانا فضل الرحمان کو باور کرایا ہے کہ ہماری جماعت چونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ نہیں رہی ہے اس لئے ہم پی ڈی ایم قیادت کے فیصلے ماننے کے پابند نہیں ہیں پھر اگر پی ڈی ایم ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر چکی ہے تو اس فیصلے میں ہم سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ 

واضح رہے کہ یہ نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی جانب سے دیئے جانے کے باعث خالی ہوئی تھیں جنہیں حال ہی میں سپیکر نے ان 33 ارکان کے استعفے منظور کر لئے تھے اور الیکشن کمیشن نے ان نشستوں پر حتمی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنی ہی خالی کی گئی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ بات ناقابل فہم ہے جو شاہ محمود قریشی کے حوالے سے سامنے آیا ہے کہ ان 33 نشستوں پر خود عمران خان ہی الیکشن لڑیں گے۔ 

اگر واقعی ایسا ہی ہے تو جن نشستوں پر عمران خان کامیابی حاصل کریں گے۔ لیکن ایوان میں ایک ہی حلقے کی نمائندگی کریں گے اس طرح باقی نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہوں گے۔ وقت اور وسائل کے ضیاع کے علاوہ بھی اس صورتحال سے خاصی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں پھر اس فیصلے کے پی ٹی آئی کی قیادت کی غیرسنجیدگی کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ باخبر ہونے کے دعویدار سیاسی حلقے جو غیر سیاسی ذرائع سے معلومات تک کی رسائی کا بھی دعویٰ رکھتے ہیں وہ بڑے یقین اور اعتماد سے اپنی اس خبر پر قائم ہیں کہ عمران خان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے تمام امکانات پر بہت بڑا ’’کراس‘‘ لگ چکا ہے اور حالات و واقعات کچھ بھی ہوں ان کا مقابلہ اور سامنا کیا جائے گا لیکن پاکستان تحریک انصاف کو اگر کوئی موقع بھی ملتا ہے تو وہ عمران خان کے بغیر ہی ملے گا اور اس دعوے کیلئے ان کے پاس بعض شواہد کی بنیاد پر ایسے دلائل اور جواز بھی موجود ہیں جنہیں یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بقول اگر مجھے کچھ ہو گیا تو اس کے ذمہ داران کے نام اور متعلقہ تمام تفصیلات پہلے سے محفوظ کر دی گئی ہیں جس میں تمام کرداروں کے نام عوامل اور حقائق موجود ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حقائق کے شواہد میں نے ایک سے زیادہ قابل اعتماد رفقا اور بیرون ملک بھی محفوظ کرا دیئے ہیں جو’’باوقت ضرورت‘‘ انہیں منظرعام پر لے آئیں گے اور اب عمران خان کا کہنا ہے کہ ذمہ داروں کے ناموں میں اب آصف علی زرداری کا نام بھی آئے گا۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میرے خلاف اب پلان سی بنا ہے جس کی ذمہ داری انہوں نے آصف علی زرداری پر عائد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ آصف علی زرداری نے کرپشن سے حاصل کیا گیا پیسہ ایک دہشتگرد تنظیم کو فراہم کیا ہے جس میں بعض ایجنسیوں کے لوگ سہولت کار ہیں اور تین اطراف سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ میرے خلاف اگلی واردات انہوں نے کرنی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات قوم کو اس لئے بتا رہا ہوں کیونکہ اس سے قبل میں نے جو چار نام دیئے تھے ان میں اب پانچواں نام آصف علی زرداری کا ہوگا۔ 

عمران خان کے حوالے سے ان کے بعض خوش فہم مخالفین ان سے یہ توقع اب بھی رکھتے ہیں کہ وہ ان سے اختلاف رائے کا اظہار اخلاقیات کے دائرہ کار اور سماجی اقدار روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کریں گے اس لئے جب کافی عرصے سے انہوں نے مولانا فضل الرحمان پر تنقید کے الفاظ میں احتیاط برتتے ہوئے بالخصوص ’’ڈیزل‘‘ کی تکرار چھوڑ دی تھی تو اسے قابل ستائش سمجھا گیا تھا تاہم اب انہوں نے آصف علی زرداری پر مبینہ طور پر اپنے قتل کی ’’سپاری‘‘ دینے کا جو الزام لگایا ہے اس پر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور باضابطہ طور پر قانونی کارروائی کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے نوٹس جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر سابق ٍعظم عمران خان کی جانب سے ان پر لگائے گئے من گھڑت الزامات پر معافی نہیں مانگی تو وہ ان پر 10ارب روپے ہرجانے کا کیس دائر کردیں گے قانونی نوٹس میں معافی مانگنے کیلئے 14روز کی مہلت دی گئی ہے۔ 

تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ بالخصوص سیاستدانوں کی جانب سے ہتک عزت اور الزام لگائے جانے کے خلاف کروڑوں اور اربوں روپے کے قانونی نوٹس دیئے جانے کے واقعات نئے نہیں اس حوالے سے ’’معزز سیاستدان‘‘ کے ایک دوسرے کے خلاف قانونی نوٹسز اور کارروائیوں کی طویل فہرست ہے لیکن ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ ہرجانے کی رقم ادا کی گئی ہو بادی النظر میں اس کیس میں بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ نہ تو ہرجانہ ادا ہوگا اور نہ ہی معافی مانگی جائے گی۔ تاہم عمران خان نے اپنے اس بیان سے توجہ تو حاصل کی ہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے جیالوں کو اپنے پیچھے بھی لگا لیا ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید