ڈاکٹر ظفر فاروقی
ہمارے یہاں انٹر لیول کی تعلیم یعنی گیارھویں اور بارھویں میں کلیۂ سائنس، آرٹس، سوشل سائنس میں کافی مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ ان ہی مضامین میں آگے جا کر طلبہ و طالبات جامعات میں داخلہ لیتے ہیں اور جامعات میں بھی کافی نئے مضامین کا اضافہ ہوا ہے، مگر پھر بھی ان مضامین میں وسعت دورِ جدید کی سائنسی، سماجی ، معاشی امور او رماحولیاتی تغیّرات کے پیش نظر نہیں کیا گیا ہے۔
جس کی وجہ سے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ابھی بھی ہمارے معاشرے میں ماہروں، دانشوروں کی شدید کمی ہے۔ دیگر یہ کہ ان مضامین میں معاشی، معاشرتی پہلوئوں کی مناسبت سے وسعت نہیں دی گئی ہے۔ یعنی انٹرسائنس کے بعد طلبہ و طالبات کے چار سالہ بی ایس پروگرام میں کیوں نہ ایسے مضامین پڑھائے جائیں جن سے وہ اپنا چھوٹا کاروبار ہی شروع کر دیں نہ کہ نوکری کی تلاش میں کئی کئی سال ضائع کر دیں۔
افسوس کی بات ہے کہ اس جانب اب تک قدم نہیں اُٹھایا گیاہے۔ اس بات کو ہم اپنے معاشرے کےسماجی لحاظ سے پیش کرتے ہیں جیسے ایک کار مکینک کا کام یعنی چھوٹے 12 نمبر کا پانا دے۔ اب یہ چھوٹا بڑا ہو کر مکینک بن گیا۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ کار مکینک کی فیلڈ میں اگر چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کر دیں تو یہ چھوٹا اب بی ایس کر کے نہ صرف خود اپنا کام شروع کر ے گا تو ذرا سوچئے کہ مضامین میں اگر وسعت آئے اور نئے نئے جدید مضامین ہم نوجوانوں کو پڑھائیں جن میں ان کی فنّی کارکردگی بڑھائی جا سکے تو وہ خود ہی اپنا کاروبار شروع کر سکیں گے بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی کارآمد شہری بن جائیں گے۔ اس جانب حکومت کو جلد ہی سوچنا ہوگا۔
پھر سوچئے اربن فارسٹی اور اربن گارڈنز میں چارسالہ بی ایس کر کے طلبہ و طالبات نوجوان خود اپنے پودے اُگا کر گھریلو خرچ میں کمی لے آئیں گے۔ یہ چار سالہ پروگرام انہیں Entrepreneur کاروباری آدمی بنا دے گا۔ وہ اپنے فصلیں، سبزیاں پودے خود چھوٹے چھوٹے گارڈن میں اُگا کر فروخت بھی کریں گے۔ اصل میں ہم نے اس جانب سوچا ہی نہیں ہے۔ مشغلہ کے طور پر کچھ افراد اس کو اپنا لیتے ہیں مگر سوچئے کہ یہ اگر تعلیمی نظام میں آ جائے تو چارسالہ بی ایس کر کے یہ نوجوان کتنا کما سکتے ہیں۔
پھر اسی طرح چار سالہ بی ایس پروگرام Vaccine ٹیکنالوجی میں شروع کیا جائے۔ موجودہ دور کے تناظر میں نوجوانوں کو ٹرینڈ کیا جائے۔ مضامین میں وسعت جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنی ہو گی۔ نوجوانوں کو ان ہی مضامین میں اور مضامین میں مزید وسعت والے مضامین میں چار سالہ بی ایس پروگرام میں روشناس جلد کروانا ہوگا اور خصوصاً گائوں کے نوجوانوں کو تعلیم دے کر انہیں وہیں پر زمینی امور میں یعنی زرعی امور میں اعلیٰ تعلیم دینی ہوگی تاکہ گاؤں کا نوجوان چار سالہ بی ایس جیسی اعلیٰ تعلیم کی بدولت ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کاشت کار، ایک ڈیری ملک کا کاروباری، ایک بہترین پولٹری تجارت کا بانی، ایک ماہر فارمر، ایک ماہر اربن فاریسٹ تحقیق دان بن جائے۔
خود ہی زرعی امور میں تحقیق دان ہو کر اپنی ذاتی زندگی کو پروان چڑھائے بلکہ زرعی زمین پر ایسی کاشت کرے ایسی سبزی، اجناس کاشت کرے جس سے ملک زرمبادلہ بھی کما سکے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، مگر اب تک ہم اپنی ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک کی برآمد پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے گائوں کے نوجوانوں کو زرعی شعبے میں تعلیم ہی نہیں دی۔ انہیں زمین سے رشتہ جوڑنا ہی نہیں سکھایا، گائوں کا نوجوان روزگار کی تلاش میں شہر کا رخ کرتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، وسائل کی کمی شہری علاقوں میں زیادہ ہے۔
اُوپر سے گاؤں کا نوجوان شہر میں آ کر شہر کے وسائل پر صرف بوجھ بن رہے ہیں تو گائوں کے نوجوانوں کو گائوں روز گار دینا ہوں گے۔ شہر کا نوجوان بھی Soil Technology میں چار سالہ بی ایس پروگرام پڑھے گا اور اپنے گائوں کے دوستوں کے ساتھ مل کر فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے رہے گا۔ خود اپنی سبزیاں، پھل اُگائے گا۔
فارم ہاؤس خود اپنے بنائے گا، اسی طرح شہر کا نوجوان پولٹری تجارت میں چار سالہ بی ایس کرے گا۔ اربن فاریسٹری جیسے چار سالہ بی ایس پروگرام کی اعلیٰ جدید تعلیم کی بنیاد پر اس قدر اعلیٰ مہارت حاصل ہوگی کہ ملک و قوم کی ترقّی ہوتی چلی جائے گی اور اوسط آمدن میں کس قدر اضافہ ہوگا۔ خوشحالی پاکستان کے ہر حصے تک پہنچ جائے گی۔ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند بنا دو ملک خود ترقّی کرے گا۔ ہم صرف باتیں کر رہے ہیں۔ اب عملی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت وقت کو نوجوانوں کو ان جدید ٹیکنالوجیز کی جانب مرکوز کرنا ہوگا۔ یورپ اورامریکا وغیرہ میں 5 سال بعد نئے تقاضوں کے مطابق پورا سلیبس پورا نظام تعلیم بدل دیا جاتا ہے۔ وہ حالات، موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور نئے نئے تقاضوں کے مطابق اپنے نظام تعلیم میں بھی تبدیلی لاتے رہتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں انٹر سائنس، آرٹس اور کامرس کے بعد جامعات میں بنیادی مضامین پڑھائے تو جا رہے ہیں بلکہ ان کی مزید شاخوں کے بھی ڈپارٹمنٹ اور مزید ڈپارٹمنٹ بن جانے چاہئے تھے مگر اب تک مضامین کی شاخوں میں وسعت نہیں دی گئی۔ امید ہے حکومت وقت اس جانب ضرور توجہ کرے گی کیونکہ اب دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔