سیدہ ناجیہ شعیب احمد
عصرِ حاضر کے نوجوانوں کو آج سے پچاس سال پہلے کے نوجوانوں کی نسبت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ تعلیم ، روزگار اور مستقبل کی فکر۔ کووڈ 19 کے بعد ابھی سنبھلنے نہ پائے تھے کہ مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان نے نجانے کتنے تناور درختوں کو جڑوں سمیت اکھاڑ پھینکا۔ برباد ہوتی ملکی معیشت اور سیاست کے گورکھ دھندوں نے نوجوان نسل کو مایوسیوں کے دھانے پر لا کھڑا کیا۔
ایسے ناگزیر حالات میں بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس قابل نہیں ہے کہ نوجوانوں کی مکمل مدد کر سکے۔ہماری بائیس کروڑ سے متجاوز آبادی کا ایک غالب حصہ، سولہ سے پچیس برس کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن سرکارِ بلند اقبال کے پاس اس افرادی قوت کے لیے ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کار آمد شہری بن سکیں ، ان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟ پنے تئیں نوجوانوں کے مستقبل کی فکر میں گھلتے لبرل ہوں یا مذہبی اور سیاسی طبقات، سب ہی اپنے مؤقف کے دفاع میں، جب ہر اخلاقی سطح سے گرنے کو تیار ہوں تو پھر کھوکھلے دعوؤں سے کیا ہو گا؟
اپنی شناخت کی تلاش اور مستقبل کی غیر یقینی سے مایوس یہ کروڑوں نوجوان کس سمت میں جا رہے ہیں؟ اُن کا ذہن الجھا ہوا ہے۔ الجھے ہوئے ذہن نے معمول کی زندگی کو بھی الجھاکر رکھ دیا ہے۔ ویسے توکسی بھی معاشرے کے تمام ارکان کا پُرامید رہنا ناگزیر ہے ،مگر نئی نسل کے لیے پُرامید رہنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ رجائیت پسندانہ رویہ ہی نئی نسل کو بہتر زندگی کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا نوجوان راہ سے ہٹ کر جی رہا ہے۔ روز کے بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر بیگانگی کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے عجب تماشہ پیش کر رہی ہے جس کا اظہارا سٹریٹ کرائمز اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے لگایا جا سکتا ہے۔
وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے ،مگر موزوں ترین راہ نہیں مل رہی۔ اُس کے دل میں آرزوئیں اور اُمنگیں مچلتی رہتی ہیں، مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کرے تو کیا کرے۔ ریاستی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں ۔نئی نسل کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے معاملے میں ریاستی ڈھانچا اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ پھر نسلِ نو کی زبان پر یہی سوال ہوتا ہے کہ کس ڈھنگ سے جیئں؟جھوٹ، دھوکہ، بد زبانی سے اجتناب ہم نے سکھایا ہی کب ہے؟ معاشرے میں ہر طرف لُوٹ مار اور بندر بانٹ ہے۔آپ کو خود اپنی مدد آپ کرنی ہے۔
اپنی مدد کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مسائل اور فکروں کو سمجھیں۔ ان کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹ جائیں۔ اپنی منزل کا تعین آپ نے خود کرنا ہے۔ آپ کے کندھوں پر صرف آپ کے اپنے خوابوں کا ہی بوجھ نہیں بلکہ پوری قوم کے مستقبل کا بوجھ ہے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے مستند اور تحقیق یافتہ علم حاصل کریں۔ علم کی روشنی سے پھیلانے سے ہرگز غفلت نہ برتیں یہ روشنی آپ کی دوست اور ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
بس اللہ کی ذات کے سوا کسی سے امید نا رکھیں اور قدم بڑھاتے رہیں۔ کیونکہ بندۂ بشر ہیں، غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں ہر غلطی ہمیں کچھ سبق دے کر جاتی ہے۔ سمجھدار انسان وہی ہے جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لے جو ٹھوکروں کھانے سے بھی سبق نہیں سیکھتا تو ناکامیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ کسی بھی کام کے مسلسل کیے جانے سے کوفت، بوریت یا بے زاری جیسی کیفیات کا پیدا ہونا فطری بات ہے، انسان خاص طور پر نوجوان یکسانیت سے جلد اکتا جاتا ہیں انہیں تنوع (variety) چاہیے ، ان کا ذہن تبدیلی مانگتا ہے۔
جیسے ایک طرح کا کھانا روزانہ نہیں کھایا جاتا، ایک ہی جگہ پر بار بار سیر و تفریح کے لیے نہیں جایا جاتا، ایک ہی بات بار بار نہیں دہرائی جاتی۔ ہاں مگر ایک چیز ہے جو اگر مستقل قائم رہے تو تنظیمی صلاحیتوں کو چمکا سکتی ہے۔ اور وہ ہے تحریک یا (Motivation)۔ کسی بھی نئے تجربے سے تخلیقی نتیجے کی چاہ ، عجائباتِ زیست کا کارخانہ ہے اور یہی تحریک نوجوانوں کو مسائل کے سمندر میں غرق ہونے سے بچا سکتی ہے۔