• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دباؤ کے باوجود بابراعظم بیٹنگ ریکارڈ توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں

کہتے ہیں کہ گھر کی مرغی دال برابر، یہ مثال بابر اعظم کے معاملے میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ دنیا کے صف اول کے بیٹسمین ہیں۔ رن مشین کی حیثیت سے کئی ریکارڈ ان کے نام ہورہے ہیں مگر بطور کپتان بابر اعظم کو متنازع بنایا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹایا جائے اس سخت دبائو کے باوجود بابر اعظم بیٹنگ ریکارڈ توڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ پوری قوم کے لئے فخر کی بات ہے کہ بابر اعظم پاکستانی ہیں لیکن شائد ان کے پاس اتنی اچھی ٹیم نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں بیٹنگ لائن کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے۔ کرکٹ ٹیم گیم ہے کوئی بھی کھلاڑی تنہاء کسی کشتی کو بار بار پار نہیں لگاسکتا۔

بابر اعظم کی اپنی کارکردگی قابل فخر ہے لیکن کئی بار ٹیم کے لئے ان کی کوشش اس لئے رائیگاں جاتی ہے کیوں کہ کوئی ان کا ساتھ دینے کے لئے کریز پر موجود نہیں ہوتا اور کم تجربہ کاری کی وجہ سے کئی بار ان کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے سابق اور موجودہ کرکٹرز بابر کی صلاحیتوں کے معتر ف ہیں لیکن ہم انہیں وہ مقام اور عزت نہیں دے رہے جس کی انہیں توقع ہے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے چیئر مین نجم سیٹھی نے جب کپتان بابر اعظم کو تین آئی سی سی ایوارڈز کی ٹرافی دیں تو بابر اعظم معصومیت سے چیئرمین کے سامنے کہہ رہے تھے کہ یہ سب میری محنت کا نتیجہ ہے اور میں نے اپنی چیزوں کا سادہ رکھا ہوا ہے۔

ٹینشن تو ہوتی ہے لیکن کوشش کرتا ہوں کہ مشکل حالات سے نکلوں نجم سیٹھی نے بابر اعظم سے کم عمری میں کامیابیوں کے بارے میں پوچھا تو بابر نے کہا کہ میں ہر قسم کے حالات کے تیار رہتا ہوں، ضروری نہیں جس طرح آپ سوچ رہے ہیں ویسے ہی ہو۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ گار فیلڈ سوبرز میرے دور کا ہیرو ہے۔ گذشتہ سال یہ ایوارڈ شاہین شاہ نے جیتا تھا۔

یہ پورے ملک کے لئے اعزاز ہے۔آپ ہمیشہ پاکستانیوں کے دلوں میں رہیں گے۔نجم سیٹھی سے تین ایوارڈز کی ٹرافیاں وصول کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب پاکستان کے لئے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصے سے کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی قیادت نہ صرف زیر بحث ہے بلکہ انہیں چند حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تاہم گذشتہ چند دن کے دوران انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سالانہ ایوارڈز میں جو نام سب سے ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ بابر اعظم کا ہی ہے۔ پہلے آئی سی سی نے انہیں 2022 کی ون ڈے ٹیم کی کپتانی سونپی پھر وہ ون ڈے کرکٹ میں سال کے بہترن کرکٹر اور پھر سب سے بڑے ایوارڈ یعنی تمام فارمیٹس میں مجموعی طور پر بہترین کھلاڑی آئی سی سی کے کرکٹر آف دی ایئر کے حقدار قرار پائے۔ بابر ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز جیتنے والے واحد پاکستانی کرکٹر ہیں جبکہ یہ لگاتار دوسرا سال ہے کہ کسی پاکستانی کھلاڑی نے آئی سی سی کرکٹر آف دی ایئر کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ 

گذشتہ برس یہ اعزاز فاسٹ بولر شاہین آفریدی کے حصے میں آیا تھا۔ کرکٹر آف دی ایئر کے اعزاز کے لیے بابر کا مقابلہ انگلینڈ کے بین ا سٹوکس، زمبابوے کے سکندر رضا اور نیوزی لینڈ کے ٹِم ساؤتھی سے تھا۔ آئی سی سی کے مطابق 2022 میں بابر واحد بیٹڑ تھے جنھوں نے تمام فارمیٹس میں دو ہزار سے زیادہ رنز بنائے اور کیلنڈر ایئر میں ان کی سنچریوں کی تعداد آٹھ جبکہ نصف سنچریوں کی تعداد 17 رہی۔2022 میں بابر نے دو میچ جتوانے والی اننگز کھیلیں جبکہ اپنی دلکش شاٹس سے سب کو محظوظ کیا۔ انہیں مسلسل دوسری بار بہترین ون ڈے کرکٹر کا ٹائٹل دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے 2021 میں بھی یہ ایوارڈ جیتا تھا۔

کرکٹ کی تاریخ میں ایسا صرف چوتھی بار ہوا ہے اور یوں بابر نے خود کو ورات کوہلی، اے بی ڈویلیئرز اور ایم ایس دھونی کی صف میں شامل کر لیا ہے۔2022 میں اس کیٹگری کے لیے بابر کا مقابلہ آسٹریلیا کے ایڈم زیمپا، زمبابوے کے سکندر رضا اور ویسٹ انڈیز کے شائے ہوپ سے تھا جس میں آئی سی سی کے پینل اور ووٹنگ اکیڈمی نے انہیں فاتح قرار دیا۔ بابر نے صرف 9 ون ڈے میچوں میں 84.87 کی اوسط اور تین سنچریوں کے ساتھ 679 رنز بنائے ہیں۔ 28 سالہ پاکستانی کپتان نے پورے سال کے دوران پانچ نصف سنچریاں بھی بنائی اور ٹیم کی بیٹنگ کی ریڑھ کے ہڈی ثابت ہوئے ہیں۔

ایک روزہ میچوں کے اعتبار سے ذاتی کامیابیوں کے علاوہ بابر اعظم نے پاکستان کی کپتانی بھی عمدہ انداز میں نبھائی ہے۔ وہ پورے سال میں صرف ایک ون ڈے میچ (آسٹریلیا کے خلاف) ہارے ہیں۔ بابر کی سب سے بہترین کارکردگی 2022 میں اس وقت نظر آئی جب انہوں نے مارچ کے اواخر میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے ہوم گراؤنڈ لاہور میں 114 رنز کی باری کھیلی تھی۔اس میچ میں پاکستان نے 349 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا تھا۔ یہ پاکستان کے بہترین رن چیزز میں سے ایک تھا جس میں ٹیم کو صرف چار وکٹوں کا نقصان ہوا۔

دوسری اننگز میں فخر زمان اور امام الحق کے درمیان 118 رنز کی اوپنگ شراکت کے بعد بابر نے باقی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایاجب بابر کریز پر پہنچے تو پاکستان کو 187 گیندوں پر 231 رنز درکار تھے۔ انہوں نے 73 گیندوں پر اپنی سب سے تیز سنچری مکمل کی اور 45ویں اوور تک کریز پر موجود رہے تھے۔ یہ بابر کی کارکردگی کی جھلک ہے۔

پاکستان کرکٹ میں آج بابر کی ہی کارکردگی کی وجہ ٹیم وائٹ بال فارمیٹ میں فتوحات حاصل کررہی ہے۔ ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو اچھی ٹیم بنانے کے لئے قابل اور پروفیشنل کوچ کی ضرورت ہے جو بابر اعظم پر بوجھ کم کرسکے۔

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید