• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب میں سیاست کی گرما گرمی

سیاست کی گرم بازاری کاسلسلہ رفتہ رفتہ عروج پکڑ رہا ہے،اب تو مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر مریم نواز بھی ملتان کے ورکرز کنونشن میں یہ کہہ چکی ہیں کہ مسلم لیگ ن انتخابات کے لئے تیار ہے اور انہوں نے کارکنوں کو بھی یہ ہدایت کی ہے کہ انتخابات کی تیاری کریں، مریم نواز مسلم لیگ ن کی طرف واحد آواز ہے، جو جلد انتخابات کا اقرار کررہی ہے،وگرنہ مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما انتخابات کے حوالے سے مختلف حیلے بہانے تراشتے ہیں اور اس طرح کا دوٹوک اعلان نہیں کرتے، جیسا کہ مریم نواز نے انتخابات کی تیاری کے حوالے سے ملتان میں کیا ہے۔

ادھر الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے،16 مارچ کو 33 اور 19مارچ کو 31 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے، گویا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ بھی ہوں تو قومی اسمبلی کی تقریباً 64 نشستوں پرضمنی انتخاب تو بہر حال ضرور ہوگا،یہ کوئی کم نشستیں نہیں ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخابات کا انعقاد بذات خود الیکشن کی گہماگہمی کو جنم دے گا۔

مریم نواز کی ورکرز کنونشن کے حوالے سے یہ مہم تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے،پہلے بہاول پور اور پھر ملتان میں بھرپور ورکرز کنونشن کا انعقاد اس بات کا اظہار ہے کہ مریم نواز کو نوازشریف کی طرف سے چیف آرگنائزر کا عہدہ دینے کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی، چونکہ شہباز شریف بھی مسلم لیگ ن کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے وزیراعظم بھی ہیں اور اس طرح وہ پارٹی کو متحرک نہیں کرسکتے، جس طرح مریم نواز کرسکتی ہیں، اس لئے انہیں یہ عہدہ دے کر میدان میں اتارا گیا ہے اور جو لوگ سمجھ رہے تھے کہ مسلم لیگ ن عوامی سطح پراپنی مقبولیت کھوچکی ہے، انہیں مریم نواز کی اس جاری مہم کو دیکھ کر اپنا نظریہ بدلناپڑاہے، ملتان میں جو ورکرز کنونشن ہوا،اس میں میلسی، وہاڑی، مظفرگڑھ، خانیوال، میاں چنوں،لودھراں اور دیگر ملحقہ شہروں سے کارکنوں کو بڑی تعداد میں ملتان لایا گیا،جس کی وجہ سے ایک بھرپور شو منعقد ہوسکا۔ 

اگرچہ مسلم لیگ ن اب بھی مقامی سطح پر تنظیمی اور گروہی اختلافات کا شکار ہے، تاہم اس کے باوجود مریم نواز کی آمد پر سب متحد نظر آئے،اگرچہ کچھ عہدے داروں و کارکنوں کی جانب سے نظرانداز کرنے کی شکایات بھی سامنے آئیں،ورکرز کنونشن والے دن سابق صوبائی وزیر اور تنظیمی عہدے داروں کے درمیان جھگڑا بھی ہوا،تاہم مجموعی طور پر مسلم لیگ ن ایک اچھا ورکرز کنونشن کرنے میں کامیاب رہی، سیاسی حلقوں نے اس بات کو بطور خاص نوٹ کیا کہ اس کنونشن کی تیاریوں کے حوالے سے اجلاسوں میں سینئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کو نہیں بلایا گیا، چونکہ اس وقت مسلم لیگ ن کی جو ملتان میں تنظیمی قیادت ہے، وہ انہیں پسند نہیں کرتی،ذرائع کے مطابق ورکرز کنونشن کے لئے مقامی منتظمین کی جانب سے انہیں باقاعدہ طور پر نہیں بلایا گیا، مگر وہ ازخود جلسہ گا ہ میں پہنچ گئے، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے، اس کنونشن کے بعد ملتان کے مسلم لیگی حلقوں میں ایک نئی جان پڑ گئی ہے اور وہ پارٹی جو مریم نواز کے متحرک نہ ہونے کی وجہ سے قیادت کے خلا کا شکار تھی۔ اب دوبارہ ایک سیاسی طاقت بن کر ابھر رہی ہے۔

 دوسری طرف ملتان کے تین قومی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی انتخاب کا بگل بج چکا ہے،یہ تین نشستیں شاہ محمود قر یشی، ملک عامرڈوگر اور ابراہیم خان کے استعفوں کی منظوری کے بعد خالی ہوئی ہیں، ملتان میں قومی اسمبلی کی تین مذید نشستیں بھی ہیں، مگر ان پر انتخابات نہیں ہوں گے، کیونکہ دو پر تحریک انصاف کے منحرف ارکان احمد حسن ڈیہڑ اور رانا قاسم نون ابھی تک رکن اسمبلی کی حیثیت سے موجود ہیں، جبکہ تیسری نشست پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی کے پاس ہے، پہلے یہ کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان تمام نشستوں پر ضمنی انتخاب لڑیں گے۔

جس پر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے مستعفی ارکان اسمبلی نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ وہ تھوڑے سے وقت کے لئے دوبارہ امیدوار بننے اور اخراجات سے بچ جائیں گے، مگر اب یہ فیصلہ تبدیل ہوچکا ہے اور تحریک انصاف نے ان تمام نشستوں پر انہیں لوگوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو پہلے یہاں سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے، گویا ملتان میں شاہ محمود قریشی، ملک عامر ڈوگر اور ابراہیم خان تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے، ان نشستوں پر پی ڈی ایم یا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں،یہ فی الوقت واضح نہیں ہے، تاہم مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پی ڈی ایم کو ان نشستوں پرضمنی انتخاب میں حصہ ہی نہیں لینا چاہئے، لیکن اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو ان میں سے دو نشستوں پر مسلم لیگ ن اور ایک پر پیپلزپارٹی کو ٹکٹ ملے گی، کیونکہ پی ڈی ایم کے فارمولے کے مطابق 2018 ء کے انتخابات میں دو پر مسلم لیگ ن اور ایک پر پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر رہی تھیں، اگرچہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا ہے اور نہ ہی گورنر پنجاب کی طرف سے اس کی کوئی تاریخ دی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود ان صوبائی حلقوں میں انتخابی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے اور سیاسی جماعتوں کے متوقع امیدوار اپنی اپنی عوامی رابطہ مہم چلائے ہوئے ہیں۔

کارنر میٹنگز جاری ہیں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے،قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی اتنی اہمیت نہیں ہے، جتنی کہ صوبائی انتخابات کی ہوگی، کیونکہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب پانچ سال کے لئے ہوگا، جبکہ قومی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کی مدت صرف چند ماہ ہوگی، اس لئے سب امیدواروں کی نظریں صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں،کہ کب ان کا اعلان ہوتا ہے اورکب باقاعدہ انتخابی مہم شروع کی جاتی ہے، ٹکٹوں کی تقسیم کیسے ہوتی ہے،اس کا اگرچہ کوئی فارمولا نہیں بنایا گیا، لیکن جو تحریک انصاف کے سابق ارکان اسمبلی ہیں، وہ ٹکٹوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں،جبکہ دوسری طرف پارٹی کے دیرینہ و نظریاتی کارکن اس بار یہ چاہتے ہیں کہ ٹکٹیں میرٹ پر دی جائیں اوران لوگوں کو بھی آگے آنے کا موقع دیا جائے، جنہیں پارٹی گروپ بندی کی وجہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کا پنجاب اسمبلی پر کیونکہ ہمیشہ فوکس رہا ہے اور مریم نواز نے بھی ملتان کے ورکرز کنونشن میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب میں آئندہ حکومت مسلم لیگ ن کی ہوگی، اس لئے اس کی ٹکٹوں کے حصول کے لئے بھی مختلف گروپ زورآزمائی کررہے ہیں، جس دن مریم نواز نے ملتان میں ورکرز کنونشن کیا،اسی دن شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی کے دیگررہنماوں نے شہیدی لعل پل کی تزئین وآرائش کے بعد افتتاحی تقریب پر ایک بڑا اجتماع منعقد کیا،مقصد یہ تھا کہ ملتان میں اپنی سیاسی طاقت کو ظاہر کیا جائے۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو ریاستی ہتھکڈوں سے دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جاسکتا،عمران خان نے جس جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے، وہ جب اس کی کال دیں گے، تو جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے گی، انہوں نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ ملکی مسائل کا حل سوائے آزادانہ و شفاف انتخابات کے اور کوئی نہیں ہے، حکومت تحریک انصاف کی مقبولیت سے خوف زدہ ہے،اس لئے انتخابات سے بھاگ رہی ہے، مگر ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے اورعوام اپنا حق لے کر رہیں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید