نبیلہ شہزاد
ایک وقت تھا جب کسی رشتہ دار کے ہاں جانے اور کسی رشتہ دار کا اپنے ہاں رہنے کی سب سے زیادہ خوشی گھر میں موجود نوجوان نسل کو ہوتی تھی۔ وہ مہمانوں کا پرجوش طریقے سے استقبال بھی کرتے، ان کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتے، مہمانوں کو اپنے گھروں میں اصرار سے روکتے، ان کی مقدور بھر خدمت کرتے، ان کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں فخر اور خوشی محسوس کرتے، بزرگ رشتے داروں کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے، ان کے ماضی کے قصے سنتے، ان کی ہدایات و نصیحتوں کو پلے سے باندھ لیتے، ان کی روک ٹوک میں اپنے لیے بہتری تلاش کرتے تھے۔ نتیجتاً بزرگ ان سے خوش ہوتے، انہیں ڈھیروں دعائیں دیتے۔ یہ دعائیں اور نصیحتیں ہی زندگی کے کئی نشیب و فراز میں ان کے لیے بری بلاؤں سے ڈھال بن جاتیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدت سے ہم نے مادیت کی دنیا میں بہت کچھ پا تو لیا ہے لیکن بدقسمتی سے پرخلوص محبتیں دم توڑ چکی ہیں۔ جو وقت پہلے نوجوان رشتہ داروں کے پاس بیٹھ کر اور ان کی خدمت کرنے میں گزارتے تھے وہ وقت اب موبائل اور لیپ ٹاپ میں سرفکر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بےتحاشہ اور غیر ضروری استعمال کر کے وہ سوشل میڈیا کے ایک متحرک ممبر تو بن جاتے ہیں لیکن رشتوں کے معاملے میں بعض اوقات والدین سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے وہ پوری دنیا کی خبر تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے میں جو حقیقی سکون اور خوشی ہوتی ہے، اس سے بے فیض ہیں۔ لوگ رشتوں سے دور ہو کر جس سوشل میڈیا میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اس بارے میں امریکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ " ٹویٹر، انسٹاگرام، فیس بک جیسی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں لوگ تنہائی محسوس کر رہے ہیں"۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک فرد میں معاشرے سے الگ تھلگ ہونے کے امکانات دوگنے ہو سکتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک فرد جتنا زیادہ وقت آن لائن صرف کرتا ہے اتنا ہی کم وقت وہ حقیقی رشتوں کے ساتھ صرف کرتا ہے۔
ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو گھروں، اسکولوں، محلوں اور ملک میں وہ ماحول ہی نہیں دیا جو اُنہیں ایک ذمہ دار شہری اور بہتر انسان بننے میں معاون ثابت ہوسکے۔ جب نوجوان، رشتوں سے دور ہوکر سماجی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں مختلف امراض جنم لے لیتے ہیں۔ نفسیاتی پریشانی پیدا ہو کر عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی کیفیت میںنوجوان اپنی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ اپنی کم زوریوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنے حالات سے نکلنے کےلئے کسی مسیحا کی تلاش کرتا ہے۔ بے یقینی، بے چینی، اور ہیجان کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ یہ مدافعتی، قلبی اور ہارمونز نظام پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔
ہمارے ہاں نفسیاتی وذہنی صحت کی تعلیم کی بھی کمی ہے۔ یونیورسٹی آف پیٹرک کے اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر برائن پریمک کا کہنا ہے کہ "ہم خلقی طور پر سماجی جانور ہیں لیکن جدید زندگی ہمیں یکجا کرنے کی بجائے تقسیم کرنے کا رجحان رکھتی ہے، اگرچہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا سماجی تنہائی ختم کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن یہ وہ حل نہیں جس کی لوگ امید کر رہے ہیں۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے کیونکہ دماغی صحت کے مسائل اور سماجی تنہائی نوجوانوں میں وبائی امراض کی سطح پر ہیں۔
تنہائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی و جسمانی مسائل کا علاج ادویات میں پوشیدہ نہیں بلکہ ماہرین کی رائے کے مطابق معاشرے کے دوسرے افراد کو کوشش کرنی چاہیے کہ متاثرہ افراد کی لوگوں میں گھلنے ملنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں، انہیں مصروف رکھیں، ان سے جذبات بانٹیں، انہیں مختلف سرگرمیوں میں شامل کروائیں، مختلف معاشرتی مسائل پر ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کریں، ان سے بات چیت ہمیشہ برقرار رکھیں، انہیں دوسرے لوگوں کی مدد کرنے اور ان سے میعاری تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دیں۔
نوجوانوں میں ذہنی صحت اور نفسیاتی مسائل کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ان مسائل کی نشان دہی کرنا بہت ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ایسے لوگوں کی مدد و راہ نمائی کرنا ہے جو زندگی کے اس دور سے گزر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تسلی اور اُمید دینا کسی عبادت سے کم نہیں۔ نوجوانوں کو ہمت، حوصلے اور نئی تحریک دیں۔ سوشل میڈیا پر معروف امریکی جج فرینک کپیرو کا کہنا ہے کہ ’’کبھی کبھار بہترین نصیحت یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی کو کندھے پر تھپکی دے کر کہہ سکیں کہ کچھ نہیں ہوگا، ایک دن سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
نوجوانوں کے لیے اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دُنیا ہے موبائل سے دور رہیں گے تو رشتوں کو سمجھیں گےاور قدر بھی کریں گے۔ حقیقی رشتوں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں جو آپ کے حالات اور کام یابی کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے وجود اور شخصیت کی بنا پر آپ کی عزت کرتے اور آپ کو قبول کرتے ہیں، جو آپ کے مالی، سماجی، مذہبی، ذہنی، نجی اور پروفیشنل مرتبے کی بنیاد پر آپ کے انسانی وقار کی قدر کریں۔
ایسے حقیقی لوگ زندگی کے سفر میں کبھی آپ کو مسائل کی دلدل میں پھنسے نہیں رہنے دیں گے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے بھی کچھ نوجوان سوشل میڈیا کے سحر میں گم ہو کر اپنے حقیقی رشتوں اور سماج سے دور ہوکر نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور حل صرف یہی ہے کہ اپنے رشتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، خاص کر بزرگ رشتے داروں کے ساتھ تاکہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں نوجوانوں کے راہنما بنیں۔