میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: اسرائیل انصاری
شرکا
زبیر طفیل (سابق صدر،ایف پی سی سی آئی)
میاں ناصر حیات مگوں (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی)
آصف انعام (چیئرمین، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن)
خالد امین (چانسلر، انڈس یونی ورسٹی)
جو صنعتیں درآمدی خام مال پر چلتی ہیں ایل سیزان کے لیے لائف لائن ہے، معمول کے دنوں میں ہم دو سے تین ماہ کا خام مال اسٹاک میں رکھتے ہیں، فروری کے وسط تک کا خام مال موجود ہے، لہذا درآمدی خام مال پر انحصار کرنے والی ہزاروں فیکٹریاں فروری کے وسط تک بند ہوجائیں گی۔ ہم اپنی پیداوار کم کرنے کو تیار ہیں اسی کے مطابق ایل سی کھولنے دیں لیکن وہ بھی نہیں کھولی جارہی۔
زبیر طفیل
ہم نے کہا ہے ڈالر کا اکاوئنٹ کھولنے کی اجازت دیں لوگ ڈالر ڈیکلیئر کریں کہ وہ ایک سال تک اسے نہیں نکالیں گے، اس کے بعد استعمال کی اجازت دے دیں تو وہ ہماری معیشت میں استعمال ہوجائیں گے لیکن اس پر بھی کچھ نہیں ہوا۔ پچھلے سال ہم نے انہیں کرپٹو کرنسی کا کہا تھا دنیا بھر میں استعمال ہورہی ہے، اس پر بھی کچھ نہیں ہوا۔
میاں ناصر مگوں
2023 کی موجودہ صورت حال میں ہمارے پاس صرف 30 سے چالیس دن کی کاٹن ہے، مثلا اگر ہم نے 18لاکھ بیلز امریکا سے لی ہیں اس میں سے 5 لاکھ استعمال ہوگئیں، ابھی 13لاکھ مزید آنی ہے ،دو لاکھ سے کچھ زیادہ کی ایل سیز کھلنی ہے، ایل سیز کھلے گی تو پھر مال آسکے گا، اگر ہم نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے پیداوار کرنی ہے تو ہمیں بڑی تعداد میں روئی خریدنی پڑے گی۔
آصف انعام
انڈسٹری کو خراب صورت حال کاسامنا ہے، کہیں گیس نہیں توکہیں بجلی نہیں، ہماری بعض انڈسٹری صرف گیس پرچلتی ہیں وہ بند ہیں، بعض مقاما ت پر بجلی مسئلہ ہے، جب تک گیس اور بجلی کی قیمت کم نہیں ہوگی انڈسٹری نہیں چل سکتی، ہماری بعض صنعتیں جن کاخام مال درآمد ہوتا ہے، وہ ڈالر کی پریشانی میں ہیں۔
خالد امین
پاکستان کے ڈیفالٹ کرجانے کی خبریں بہت سن رہے ہیں، ایسا ہوتا ہے یا نہیں لیکن ایسی خبرگردش کرنا ازخود ایک مسئلہ ہے،اس سے عدم استحکام بڑھ رہا ہے، ساورن ڈیفالٹ نہیں ہورہا لیکن ایل سیزبھی نہیں کھل رہیں جس سے کاروبار میں ڈیفالٹ نظرآرہا ہے،بینک لیٹر آف کریڈٹ جاری نہیں کررہے۔پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ہےجو سب سے بڑی ایکسپورٹ بھی ہے، بحران میں ہے،اس سے وابستہ ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کی اطلاعات ہیں، انڈسٹری کے بند ہونے یا سکڑنے سے بھی بے روزگاری بڑھتی ہے۔
ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ فورم میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے ہماری صنعتوں کے مسائل کیا ہیں اور برے حالات سے کیسے نکل سکتے ہیں ، حکومتی پالیسی کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے،اس اہم موضوع پر ہمارے ساتھ شریک گفتگو تھے جناب خالد امین(چانسلر، انڈس یونیورسٹی )، آصف انعام (چیئرمین، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن) ، زبیر طفیل(سابق صدر،FPCCI) اور میاں ناصر حیات مگوں (سابق صدر، ایف پی سی سی آئی)،فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ ـ: خالد امین صاحب انڈسٹری کے مسائل کیا ہیں اوریہ کیسے دور ہوں گے؟
خالد امین: انڈسٹری کو خراب صورت حال کاسامنا ہے، کہیں گیس نہیں کہیں بجلی نہیں ،ہماری بعض انڈسٹری صرف گیس پرچلتی ہیں وہ بند ہیں، بعض مقاما ت پر بجلی مسئلہ ہے جہاں ہے وہاں کسی نہ کسی وجہ سے بجلی کی بندش ہوجاتی ہے ،سونے پر سہاگہ بجلی کی فی یونٹ مہنگی بجلی،تین مہینے پہلے میری فیکٹری کا بجلی کابل 59 روپے فی یونٹ کے مطابق ملا تھا جو اب کم ہوکر 35روپے فی یونٹ مل رہا ہے، جو لوگ ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں انہیں مزید سہولت بھی میسر ہے۔
جب تک گیس اور بجلی کی قیمت کم نہیں ہوگی انڈسٹری نہیں چل سکتی۔ہماری بعض صنعتیں جن کاخام مال درآمد ہوتا ہے، وہ ڈالر کی پریشانی میں ہیں ،ڈالر قیمت کی وجہ سے مارکیٹ میں نایاب ہے، آپ کو ضرورت ہے تو 262 سے 265میں مل رہا ہے یا اس دن جو قیمت ہے، لیکن رسید آپ کو 230 کی دی جارہی ہے، یہ درپیش مسئلے ان سیکٹرز کے ہیں جو کافی حد تک آرگنائزڈ ہیں، چھوٹے سیکٹرز جو آرگنائز ڈ نہیں، انہیں سیلز ٹیکس اور بجلی کے ساتھ دیگر مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
جنگ: پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ہے، سب سےزیادہ ایکسپورٹ، روزگار اور سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہیں،وہاں سے ملوں کی بندش اور لوگوں کے بےروزگار ہونے کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں ،وہاں اصل صورت حال کیا ہے؟
آصف انعام : ایک سال پہلے تک ٹیکسٹائل صنعت ٹھیک تھی۔ پچھلے سال ایکسپورٹ پانچ بلین ڈالریعنی قریباً ایک ٹریلین روپے کی ہوئی تھی،ہم ٹیکسٹائل سیکٹر میں سنہ دوہزار انیس اور بیس کے ٹارگٹ سے آگے جانا چاہ رہے تھے، اس سال ہمارا ہدف 25بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرنا تھا۔ اب صورت حال بدلی ہوئی ہے، حالات یہ ہیں کہ ہم پچاس سے ساٹھ فیصد بند پڑے ہیں، جن لوگوں کی مشینری نہیں آئی وہ آگے درخواست کررہے ہیں کہ براہ مہربانی ابھی نہ بھیجیں تھوڑا صبر کرلیں۔
یورپ نے روس پر جو پابندیاں لگائی ہیں تو وہ یہ مسئلہ سامنے آرہا ہےکہ یورپ ڈی انڈسٹرلائزیشن ہوجائے گا اور وہاں امریکا اور دیگر کمپنیاں کوچنگ کررہی ہیں کہ یہاں ایل این جی اور دیگر کے دام بڑھے ہیں اس کے بعد انڈسٹری یہاں سے چلی جائے گی۔ وہاں آج جو قیمت بڑھی ہے پاکستان میں پچھلے تیس سال سے ہے۔ ہمارے یہاں آئی پی پیز کے آنے کے بعد ہمارا نیشنل ٹیرف 18 سینٹ ہوگیا، جو ہمارے حساب سے ریجن میں تین گنا زیادہ تھا۔ پچھلی حکومت نے اس پر توجہ دی تھی،موجودہ حکومت نے بھی وہی قیمت رکھی ہے۔لیکن اب خام مال ہمارےلیے بڑا مسئلہ ہے، جو منفرد ہے۔
خام مال میں اگرکاٹن کو لیں ،کاٹن دوہزار بارہ میں ایک کروڑ 48لاکھ بیلزفصل ہوئی تھی، اس سال شاید صرف 48 لاکھ رہے گی، کم ہونے والی ایک کروڑ بیلز ہمیں درآمد کرنا پڑے گا، کیوں کہ ہماری ضرورت ایک کروڑ سٹرلاکھ بیلز کے قریب ہیں۔ ہمیں دوہزار بارہ میں ایک کروڑ 48لاکھ کی پیداوار کے باوجود کچھ بیلز امپورٹ کرنا پڑی تھی۔ جس طرح کچھ عرصے پہلے تک ہماری انڈسٹری کام کررہی تھی تو ہمیں دو کروڑ بیس لاکھ بیلز کی ضرورت نظرآرہی تھی۔جب تک ہمارے پاس خام مال موجود تھا تو پچھلے سال جون سے ستمبر تک صورت حال معمول کے مطابق رہی ،لیکن پھر ہمارے ذخائر کم ہونا شروع ہوئے اور مارکیٹ میں کاٹن کی قلت کا معلوم تو اکتوبر سے خرابی کا آغاز ہونا شروع ہوا ہمیں ہر مہینے ٹیرف کے لیے جانا پڑتا تھا پھر انڈسٹری بند ہونا شروع ہوگئی۔
جنگ: ان حالات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے دوہزار 23 میں کیا اہداف ہیں؟
آصف انعام: 2023 کی موجودہ صورت حال میں ہمارے پاس صرف 30 سے چالیس دن کی کاٹن ہے، مثلا اگر ہم نے 18لاکھ بیلز امریکا سے لی ہیں اس میں سے 5 لاکھ استعمال ہوگئیں، ابھی 13لاکھ مزید آنی ہے ،دو لاکھ سےکچھ زیادہ کی ایل سیز کھلنی ہے، ایل سیز کھلے گی تو پھر مال آسکے گا،اگر ہم نے ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے پیداوار کرنی ہے تو ہمیں بڑی تعداد میں روئی خریدنی پڑے گی۔
جنگ: آپ انڈسٹری پر مجموعی اور خاص طور پر ٹیکسٹائل پر کیا اثرات محسوس کررہے ہیں ان حالات میں برآمدی ہدف پورے کرسکیں گے؟
آصف انعام: بہت برے حالات نظر آرہے ہیں، جب خام مال ہی نہیں ملےگا تو کام بند ہوجائےگا، اگر ضرورت کی کوئی چیز مارکیٹ میں کم ہوگی تو وہ خود بخود مہنگی ہوجائے گی، اگر دھاگا مہنگا ہوا تو ہرشے مہنگی ہوجائے گی ،ہم مہنگی چیزاور بڑھتے اخراجات کے ساتھ کیسے دوسری مارکیٹ کا مقابلہ کرسکتے ہیں، خام مال کے ذخائر نہ ہونے کے سبب وہ مہنگا ہوگیا ہے، ان حالات میں ہدف پورا کرنا بہت مشکل ہے۔
جنگ: حکومت سے اس سلسلے میں کیا بات چیت ہو ئی آپ کی انڈسٹری سے وابستہ کتنے لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں؟
آصف انعام: ہم گورنر اسٹیٹ بینک سے مل رہے ہیں لیکن ڈالر کے ذخائردن بہ دن کم ہونے کی وجہ سے ابھی حل سامنے نہیں آیا ۔جب کہ جن لوگوں کے پاس ٹیکسٹائل ٹیرف میسر نہیں تھا وہ جون سے ہی مشکل میں آگئے تھے، جب چالیس سے پچاس روپے فی یونٹ بل آیا تو فیصل آباد میں ایک جھٹکے میں ہی 10 سے 20لاکھ پاور لومز بند ہوگئی تھیں۔ جو لوگ کسی کام میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ان کے لیے کام بند کردینا مشکل ترین ہوتا ہے، وہ دھیرے دھیرے شعبے بندکرکے اپنے اخراجات میں کٹوتی کررہے ہوتے ہیں، لوگ بے روزگار ہورہے ہیں کچھ دنوں میں تعداد کا درست اندازہ ہوگا۔
جنگ: لیٹر آف کریڈیٹ کا جاری نہ ہونا انڈسٹری کےلیے کتنا سنگین ہے؟
زبیرطفیل: جوصنعتیں درآمدی خام مال پر چلتی ہیں ان کے لیےایل سیز لائف لائن ہے، معمول کے دنوں میں ہم دو سے تین ماہ کا خام مال اپنے اسٹاک میں رکھتے ہیں، گزشتہ دسمبر سے ایل سیز نہیں کھل رہیں، پچھلا اسٹاک مال ہی استعمال ہورہا ہے، کچھ انڈسٹری کے پاس جنوری کے آخرتک کا اور بعض کے پاس فروری کے وسط تک کا خام مال موجود ہے،لہذا درآمدی خام مال پر انحصار کرنے والی ہزاروں فیکٹریاں فروری کے وسط تک بند ہوجائیں گی۔
جنگ: بند ہونے والے سیکٹرز کون سے ہوسکتے ہیں؟
زبیرطفیل: پلاسٹک بنانے والے سیکٹرزکیوں کہ اکثر اشیا اب پلاسٹک میں بن رہی ہیں، زیادہ تر صنعتیں فروری میں بند ہوجائیں گی جس میں بے تحاشا جن کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے بے روزگار ہوجائیں گے۔ فارغ ہونے والے زیادہ تر افراد 30 سے چالیس ہزار کمانے والے ہوں گےایسا ہوا تو وہ سڑکوں پر احتجاج کریں گے، وہ آمدورفت کےسارے راستے بند کرسکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک تمام بینکوں کو ریگولیٹ کرتا ہے، جب بینکوں نے ایل سیز کھولنا بند کیں تو ہم گورنراسٹیٹ بینک سے ملے ،وہ کہتے ہیں ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں۔ لہذا آپ لوگوں کو ایل سی کھولنے کی رفتار کم کرنی پڑے گی، شارٹ فال کے فرق پر کہنا تھا کہ امپورٹ ایکسپورٹ کے درمیان40 فیصد کا فرق ہے۔
مطلب60ارب ڈالر فارن ریمی ٹینس اور ایکسپورٹ سے آتے ہیں اور 75بلین ڈالر امپورٹ کررہے ہیں تو 15بلین ڈالر کا انتظام کرنا ہے اس کا کوئی طریقہ بتادیں، ہم نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم دھیرے دھیرے امپورٹ کم کرتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ 15بلین ڈالر اس سال نہیں ہوں گے۔آپ نے 2022 میں کل جتنا ایکسپورٹ کیا ہے اس کا 40 فیصد کم کردیں، اور اس کو 12سے تقسیم کردیں آپ کو اپنی پیداوار لازمی اس طرح کم کرنی پڑے گی،انہوں نے یہ بات ہم سے بھی کہی اور نجی محفل میں بھی کہی کہ ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں۔
ان حالات میں نیا روزگار تو پیدا ہوہی نہیں سکتا لیکن جو لوگ روزگار سے ہیں ان کے روزگار پر بھی خطرات منڈلارہے ہیں ،ہماری حکومتیں غریب کو پیناڈول کی گولی تو دیتی نہیں اس کے خاندان کےلیے روٹی کپڑا کہاں سے آئے گا، بہت بڑا بحران آنے والا ہے،دوسری طرف حکومت کوئی سنجیدگی سے نہیں دکھائی رہی۔ ویسے ہی کم آمدنی والے لمبی لائنیں لگاکر سستے آٹا لینے میں لگے ہیں، لوگ سڑک پر سستے آٹے کے لیے پریشان ہیں اورکسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔
جنگ: آپ نے ڈالر کی کمی دور کرنے کے لیے کوئی تجاویز حکومت کو دیں؟
زبیر طفیل: ہم اپنی پیداوار کم کرنے کو تیار ہیں اسی کے مطابق ایل سی کھولنے دیں لیکن وہ بھی نہیں کھولی جارہی، میں پچھلے تین چار دنوں سے مختلف بینکوں کے صدور سے ملاقات کررہا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک نے ایل سی کھولنے کا کہہ دیا ہے لیکن تاکید یہ کررہے ہیں کہ دیکھ بھال کر کھولنا، انتہائی ضروری اشیا ہونی چاہیے، ڈالر کا بندوبست بھی خود کرنا ہوگا، اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں آنا، تو بینک کہتے ہیں کہ ہمارے پا س ڈالر کا کوئی ذریعہ نہیں ہوم ریمی ٹینس ہے یا ایکسپورٹ ،ہم اس میں بھی کچھ کرلیتے ہیں لیکن اسٹیٹ بینک کی احتیاط سے ایل سی کھولنے کی بارہا تاکید سے وہ بھی کوئی بھی فیصلہ کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔
ابھی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے ہفتے میں ایک مفصل پالیسی دینے جارہے ہیں کہ کس کی ایل سی کھولنی ہے اور کس کی نہیں، بینک پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگرہم کچھ کریں گے اسٹیٹ بینک جرمانہ کردے گا تو جس چیز کی اجازت ہے اس کی بھی وہ ایل سی نہیں کھول رہے۔وہ کہتے ہیں حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کی ضرورت ہے پہلے اس کی ایل سی کھلے گی، اس کے بعد وہ گندم اور ادویات کا نمبر آتا ہے، اس کے بعد خام مال اوردیگر کا،مجموعی طور پر صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔
حکومت کی آئی ایم ایف سے بات چیت ہورہی ہے،وہ سب سے پہلےکہہ رہا ہے کہ ڈالر کی قیمت مارکیٹ کے مطابق کریں، نمبر دو مطالبہ ہے گیس اور بجلی کی قیمت بڑھائیںتو گیس کی قیمت تو74 فیصد سے زائد بڑھا دی گئی ہے جس کا اطلاق جولائی 2022 سےکیاگیا ہے۔ آج سے سات ماہ پہلے جو بل ہم دے چکے ہیں اس میں ہمیں مزید پچاس فیصد سے زائد بل ادا کرنا ہوگا۔ اس میں ایک مہربانی یہ کی گئی ہے یہ زائد بل اگلے چھ ماہ میں بتدریج ادا کرنے پڑیں گے،بجلی کا ٹیرف بھی تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ ساری چیزیں مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گی۔
جنگ: اگر ایل سی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو کیا ہمارے پاس انڈسٹری چلانے کے لیے کوئی متبادل ہے یاصنعتیں بند کرنا پڑے گی؟
زبیر طفیل: ہماری بعض انڈسٹری کا خام مال مقامی سطح پر دستیاب نہیں ہے، وہ ریفائنری سے تعلق رکھتا ہے اس طرح کی ریفائنری پاکستان میں دستیاب نہیں جس کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ وہ مال ہم مشرق وسطیٰ، سعودی عرب یا قطر سے منگوائیں۔ چھ ماہ پہلے سے اسٹیٹ بینک نے پابندی لگائی کہ کوئی اسپیئر پارٹس ،مشینری 86،87 کی نہیں آئے گی، اب یہاں مشینری وہ استعمال ہورہی ہے اس کا پرزہ ٹوٹ گیا یا خراب ہوگیا تو اب وہ کیا کرے،تو بے چارہ صنعت کار ایسے پرزے اپنے ساتھ ہینڈ بیگ میں لارہا ہے۔ تصور سے زیادہ سنگین صورت حال ہے، حکومت کو جلد کوئی فیصلہ کرنےپڑے گا،خاص طور ایکسچیج ریٹ پر کیوں کہ آئی ایم ایف کہتا ہے اس کی قیمت مارکیٹ کے مطابق کریں اگر حکومت نہیں کرے گی توآئی ایم ایف بھی مدد نہیں کرےگا۔
جنگ: ایسے کون سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے بہتری کی امید پیدا ہو؟
میاں ناصر مگوں : جب تک عملی اقدامات نہیں ہوں گے،بہتری کی کوئی امید نہیں اور حکومت کا رویہ بھی سست ہے۔ہم مسائل کی نشاندہی کررہے ہیں لیکن وہ سننے کے سوا کچھ نہیں کررہے، سب سے بڑی ضرورت توانائی کی ہے،گھر، کارخانہ یا یونیورسٹی سب کی ضرورت ہے، ہمارے یہاں 35فیصد بجلی چوری ہورہی ہے تو اسے ٹھیک کرنے کا کوئی پلان بنائیں، آپ کے یہاں کئی سرکاری ادارے خسارے میں ہیں ،کوئی بندوبست کریں ان کی نجکاری کریں، حکومت کو ڈالر کی ایمنسٹی کی تجویز دی تھی ،ہمارا ٹیکس کا نظام ایسا ہے کہ وہ چوری ہوتی ہے اور ایف بی آر یہ نظام ٹھیک کرنے کو تیار نہیں کیوں کہ اگر یہ ٹھیک ہوگیا تو پھر ایف بی آر کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ہم نے کہاہے کہ ڈالر کا اکاوئنٹ کھولنے کی اجازت دیں لوگ ڈالر ڈیکلیئر کریں کہ وہ ایک سال تک اسے نہیں نکالیں گے، اس کے بعد استعمال کی اجازت دے دیں تو وہ ہماری معیشت میں استعمال ہوجائیں گے لیکن اس پر بھی کچھ نہیں ہوا۔ پچھلے سال ہم نے انہیں کرپٹو کرنسی کا کہا تھا دنیا بھر میں استعمال ہورہی ہے۔ یہاں بھی لوگوں نے ہزار میں لیا تھا اب وہ دوہزار تین ہزار موجود ہیں ،اس پر بھی کچھ نہیں ہوا ۔جو سبق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پڑھاتا ہے وہ عملی طور پر ہمارے یہاں ممکن نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں قابل عمل ہے، لیکن وہ بھی اسی صورت میں جب تک اس کے مسئلے حل نہیں ہوں گے، ان کے مسئلے بھی بہت زیادہ نہیں ہیں۔
ایک ڈومیسٹک مارکیٹ ہوتی ہے اور دوسری ریجنل، ریجنل مارکیٹ میں انڈیا، ایران ہیں ان دونوں سے کام بند ہے ، افغانستان میں لڑائی چل رہی ہے، اگر آپ کی ریجنل مارکیٹ ہی کھل جائے تومحتاط اندازے سے ایک سال میں ہی یہاں سے ایکسپورٹ تین بلین ڈالر کی ہوجائے گی، اس کے بعد ٹرانزٹ ٹریڈ ہے ، ایک سو بلین ڈالر کی ٹرانزٹ ٹریڈ ایران سے ہورہی ہے، فاریسٹ اور مڈل ایسٹ سے آیامال بندر عباس پورٹ پر اترتا ہے وہاں سے مال وسطی ایشیا ،ترکیہ،بلغاریہ جاتا ہے۔
ہم نے جب یہ کرنے کی کوشش کی تو مسئلہ کھڑا کردیا گیا، ہمارے بینک کہتے ہیں کہ یہ ایران سے جاتا ہے،سال ڈیڑھ سال میں سو کے قریب میٹنگز ہوچکی ہیں اور انہیں بتایا ہےکہ اس پر پابندی نہیں ہے۔ تباہی کی بڑی وجہ ہماری نااہل حکومت، دوسرا بینکنگ سیکٹر ہے۔ مال ایکسپورٹ ہوا ڈالر آگئے، امپورٹر ڈالر لینے گیا تو وہ کہتے ہیں دس ڈالر میں رکھوں گا، ڈالر ایکسپورٹر کے ہیں امپورٹر نے ڈالر لینا ہے تو آپ کے دس کس لیے لیکن آج تک ان پر کوئی جرمانہ نہیں، کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بنگلہ دیش میں چھ بینکرز بند کردیے گئے، تو جب لوگ احتساب دیکھا جو چیزیں بہتر ہونا شروع ہوگئیں۔
ٹھیک کرنا مشکل کام نہیں لیکن حکومتی پالیسی ضروری ہے،چیزیں دو دن میں ٹھیک نہیں ہوں گی لیکن آج آپ طے تو کریں۔ ہمارا سارا مال افغانستان جارہا ہے وہاں کی سرحد بند کریں، ان سے کہیں کہ ڈالر لائو اور مال لو، ہم محنت کی کمائی سے ڈالر میں خریدتے ہیں وہ ہم سے روپوں میں لے کر جارہے ہیں، وہاں مال لےجانے والی ٹرانسپورٹ کاکرایہ بھی ڈالر میں لینا چاہیے، وہ اگر مال پاکستان سے لیں تو ڈالر بھیجیں اور مال اٹھوائیں۔ حالات ٹھیک کرنے کے لیے پاکستانی مفاد مقدم رکھنے والے منیجر چاہیے ورنہ آپ کو دس بلین ڈالر پھر مل جائیں گے،جسے جلد ختم کردیا جائےگا اور ہم پھر اسی مقام پر کھڑے ہوں گے لہذا بنیادی چیزیں ٹھیک کئے بغیر ہمارے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
جنگ: فیڈریشن کی سطح پر آپ کی حکومت سے کیاکوئی بات ہوئی ہے؟
میاں ناصر مگوں : ہم نے کئی مرتبہ کوشش کی ہے لیکن کچھ عمل نہیں ہوا،یہ صرف اپنی حکومت بچانے میں مصروف ہیں۔80افراد کی کابینہ ادھر ادھر جارہی ہے، وزیرخزانہ اسحق ڈار جنہوں فیڈریشن چیمبرز، اپٹما دیگر اداروں جن کا تعلق عوام سے ہے انہیں وہاں بیٹھا ہونا چاہیے نظر ہی نہیں آرہے۔
جنگ: کیا ان مسائل کا سبب سیاسی عدم استحکام ہے؟
میاں ناصر مگوں: اسی رکنی کابینہ سے سیاست کروائیں، لیکن ملک بچانے کے لیے وزیرخزانہ کو بنیادی کام کرنے دیں، حکومت موجودہ تباہی کی ذمہ داری عمران حکومت پر ڈالتی ہے، تو پھر ان کے ہمراہ اس زمانے کے معاشی مینیجرز نوکرشاہی کو بھی فارغ کریں تاکہ کہنے کےلیے تو ہوکہ تباہی کےذمے دار سب کو فارغ کردیا ہے۔
جنگ: ایم ایف سے معاہدے کے بعدصورت حال میں بہتری کی کوئی امید ہے؟
میاں ناصر مگوں : معاہدہ ہوجائے گا، پیسے بھی مل جائیں گے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، آپ کے امپورٹ ایکسپورٹ میں بیس بلین ڈالرکافرق تو رہے گا،کیوں کہ توانائی کی قیمت بڑھ چکی ہے رواں سال سوگنا قیمت مزید بڑھنے کا امکان ہے اور گیس کی پانچ ہزارڈالر تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان کے علاوہ پوری دنیا ایران کے ساتھ کام کررہی ہے، ایران کی آئل تجارت 80بلین ڈالر کی ہے۔
جنگ: ہمارا ایران کے ساتھ گیس معاہدہ ہے، لائن سرحد کی اس طرف تیار ہے اورہم لے ہی نہیں پارہے۔
میاں ناصر مگوں: ان پابندیوں کے دوران ایران سے چار پائپ لائن ڈالی گئ ہیں، جو جرمنی، عراق ،ترکی اور ایک ترکمانستان جارہی ہے، ہم واحد ملک ہیں جو پابندی لگا کر بیٹھے ہیں کیوں کہ یہاں فیصلہ کرنے والے ہمارے لوگ اصل میں کسی دوسرے کے لیے کام کررہے ہیں۔
آصف انعام: دسمبر کے اعداوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں 480 ملین ڈالر کی ریمی ٹینس کم ہوئی ہے اور 480 ملین کی ایکسپورٹ کم ہوئی ہے، اس طرح قریبا بلین ڈالر آپ کی آمدنی سے کم ہوا ہے، تو خسارے میں اس فرق کو بھی شامل کرلیا جائے۔ ہمیں کوئی بھی 12بلین ڈالر کسی کثیرالجہتی یا دوطرفہ معاہدے سے قرض عیاشی کے لیے نہیں دے گا۔ قرضوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں، ایک قرض وہ جو لے کر کھاجاتے ہیں، وہ آپ اپنی تنخواہ یا آمدنی سے ادا کرتے ہیں۔ ایک قرض وہ ہے جو کسی پیداواری شعبے میں لگایا جاتا ہے۔
اگر آپ نے اس کے لیے کوئی قرض لیا تو وہ کماکر ادا ہوجاتا ہے۔پرائیوٹ سیکٹر زیادہ تر اسی قسم کے قرض دیتا ہے۔ ہم پر 100ارب کے قرضے بڑھے ہیں ،لیکن ہمیں اس کے مطابق نہ کوئی ڈیم نظر آرہا ہے نہ کوئی دوسرا اثاثہ۔جب پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت بیرونی قرض 36ارب ڈالراور فارن ریزرو بیس ارب ڈالر تھا۔
آج قرض کہاں پہنچا ہوا ہے۔ اب ہم نے ایک ڈیبٹ اور بڑھا لیا ہے جو ہم نے آف بیلنس شیٹ تیار کرلیا ہے ہم آئی پی پیز سے معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم 18سینٹ سے بجلی 30 سال تک لیں گے ،یہ 30 سے چالیس بلین علیحدہ ہے جو سالانہ شامل ہورہی ہے یہ لون آف بیلنس شیٹ میں ہے جو زیادہ تر 2014 سے 2018 کے درمیان کافی پراجیکٹ میں لگے۔ اس زمانے میں جو پراجیکٹ دنیا میں چھ سینٹ کے لگے پاکستان میں وہ 18سینٹ کے لگےقائد سولر پارک ہمارے یہاں 18سینٹ کا لگا،جب کہ اس کے چارماہ بعد مودی حکومت نے سولر پارک منصوبے کاساڑھے چار سینٹ میں فیتہ کاٹا۔
بھارت سے تجارت بھارتی حکومت نے بندکی ہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان کاروباری حجم کچھ یوں تھی، پاکستان ڈیڑھ بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا تھا اور بھارت 13ارب ڈالر کی، اس بندش سے بھارت کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔لیکن اب بھارت کی خواہش ہے پاکستان کی فرمائش پر تجارت کھولی جائے۔جہاں تک ایران اور افغانستان سے تجارت کا معاملہ ہے اس میں ہم قصور وار ہیں میں حیران ہوں کہ ایران پر پابندی گیس پر نہیں ہے۔ میری امریکی آئی ایم سے بات ہوئی تھی میں نے ان سے کہا کہ ایران پر گیس تجارت پر تو کوئی پابندی نہیں ،ان کا جواب تھا کہ آپ ہمارے دوست ہیں آپ ان سے تجارت کریں۔ یہاں صنعت کےلیے خام مال دستیاب نہیں، زرعی ملک کہا جاتا ہے لیکن سوائے چاول کے سب درآمد ہورہا ہے، تھوڑا بہت آم برآمد ہوتا ہے۔
جنگ: کپاس کی فصل میں کمی کی کیا وجہ ہے ہم ایک زمانے میں ایکسپورٹ کرتے تھے؟
آصف انعام: اس کی وجہ تحقیق کا نہ ہونا ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پی آئی اے میں اتنا نقصان ہے کیوں کہ ڈیٹا دستیاب ہے۔ وہ حکومتی ادارے جن کی بیلنس شیٹ نہیں بنتی ان کا نفع نقصان کو ن دیکھتا ہے، بتایا جائےکہ سرکاری شعبہ محکمہ خوراک یا کوئی اور محکمہ کیا کررہا ہے، کسی عالمی ادارے کی رپورٹ تھی کہ تیس سے چالیس فیصد نوکرشاہی فارغ کرنی پڑے گی۔ ہمارے یہاں کوئی پالیسی نہیں، توانائی ہی کے معاملے کو دیکھ لیں، ہماری پہلی ترجیح گھریلوں صارفین ہیں، بنگلہ دیش میں ہم سے ایک تہائی گیس دریافت ہوئی ہے جو سوئی سے آدھا ذخیرہ ہے جو دس سے بیس سال کا ذخیرہ ہوگا لیکن انہوں نے اپنا پورا ملک بنا ڈالا ،ہم نےاپنی گیس گھروں کے چولہوں میں جلادی، گھریلوں صارفین میں یہ سہولت سولر انرجی یا بائیو پلانٹ لگا کر گیس دے سکتے تھے انڈیا میں بہت زیادہ بائیو گیس استعمال ہورہی ہے۔ ایک بڑےجانور گائے یا بھینس کی مدد سے تین گھنٹےچولہا جل سکتا ہے۔
جنگ: ہم توانائی میں خود کفالت کی طرف جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، تھرکول اب جاکر استعمال ہورہا ہے، سستی انرجی کے لیے نجی سیکٹر کیوں سرمایہ کاری نہیں کرتا؟
زبیر طفیل: انرجی کی دو اقسام سستی ہوسکتی ہیں ،ایک ہائیڈل لیکن ڈیم بننا طویل المیعاد منصوبہ ہے بھاشاڈیم میں کام جاری ہے لیکن اس میں دس سال لگ جائیں گے۔ دوسرا کوئلہ کے ذریعے سے سندھ میں تھرکول بڑا ذخیرہ ہے جو پاکستان دوسوسال تک استعمال کرسکتا ہے، ابھی وہاں صرف 1500 میگاواٹ کے پاور پلانٹ لگیں ہیں، یہاں دس ہزار میگاواٹ کا بھی پاورپلانٹ لگ سکتا ہے،لیکن ابھی اس طرح کی حکومتی توجہ اس طرف نہیں ہے ،پاور پلانٹ میں نجی سیکٹر کی سرمایہ کاری یہ مہنگے منصوبے ہوتے ہیں،اس میں چند کمپنیاں ریسرچ کررہی ہیں، میرے خیال میں کچھ عرصے بعد وہا ں کول کے پاور پلانٹ لگیں گے۔
ہمارے پاس سب سے جلد اور قابل عمل سستی توانائی کا حصول کول پاور ہی ہے، سولر اور ونڈ بھی ہے،ونڈ کے لیے بڑی جگہ چاہیے، پچاس میگاواٹ کےلیے بارہ سو ایکٹر زمین درکار ہوتی ہے۔ سولر کےلیے بھی بڑی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، سرکاری سرپرستی میں جب سولر سسٹم لگانے کا ذکر آتا ہے تو جو قیمت بتائی جاتی ہے اس میں کرپشن کا تاثر نظر آتا ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ کرپشن کا سدباب بہت ضروری ہے۔
آصف انعام: ہمارے یہاں ونڈپاور میں پچاس میگاواٹ کے بارہ پراجیکٹ لگے ہوئے ہیں،جو سوا چار سینٹ کے ہیں جواب بھی ساڑھے چار سینٹ میں دستیاب ہیں، پچھلے دو سال سے دوہزارمیگاواٹ کا سولرآچکا ہے جسے اسٹیٹ بینک نے ابھی بند کردیا ہے، ہم فیول امپورٹ کرلیں گے لیکن سولر پر پابندی لگادی۔ انڈسٹری کا سولر پر مکمل انحصار نہ ہونے کی وجہ یہ ہے سولر میں ایک خرابی ہے کہ اس کی پیداوار صرف دن میں زیادہ ہوتی ہے۔
جنگ: ہم کس پڑوسی ملک سے زیادہ سیکھ سکتے ہیں؟
آصف انعام: چین ،بنگلہ دیش کیوں کہ اس کی حالت بھی ہماری جیسی تھی، ویت نام جس کی تین سو بلین ڈالر ایکسپورٹ ہے جو پندرہ سے بیس سال میں ہوئی ہے، ان دنوں میں پاکستان اس کے برابر ایکسپورٹ کرتا تھا۔
جنگ: انڈسٹری کی بہتری کےلیے فیڈریشن ،چیمبر یا اپٹما کی طرف سے ایسی کامیاب مثالیں پیش کرکے حکومت کو پروپوز ل دیے گئے ہیں؟
آصف انعام: ہم نے کئی پروپوزل دیئے ہیں۔ ہم بحران میں ہیں لیکن حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
جنگ : شرکا کے سوالوں کے لیے فورم اوپن کیا جارہا ہے
تیمور: الیکٹرک انڈسٹریز کواپنی عدالت میں چیلنج کیوں نہیں کیا جاتا؟
آصف انعام: معاہدوں کی وجہ سےہم اسے اپنی عدالتوں میں چیلنج نہیں کرسکتے۔
حسین: سالانہ بڑی تعداد میں نوجوان تعلیم مکمل کرکے عملی میدان میں آرہے ہیں لیکن روزگارکےمواقع وہ نہیں تو کیا وہ بیرون ملک چلاجائے؟
آصف انعام: اگر آپ جرمن یا جاپانی سیکھ لیں تو وہ اپنے یہاں مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، لیکن بیرون ملک جاکر ریمی ٹینس بھیجنے سے ملک ترقی نہیں کرتا، کیوں کہ باہر آباد ہونے والے لوگ ایک وقت تک رقم بھیجتے ہیں پھر اسی ملک کی شہریت لینے کے بعد وہ وہیں کے ہوجاتے ہیں، جو ممالک شہریت نہیں دیتے ریمی ٹینس ہمیں ان ممالک سے آتی ہے یعنی مڈل ایسٹ وغیرہ۔
سہراب احمد: توانائی کے شعبے بجلی کی ڈسٹری بیوشن میں مزید نجی سیکٹر کیوں کام نہیں کررہا؟
آصف انعام: نو ے کی دہائی میں جب ہم نے نجکاری کا فیصلہ کیاتوواپڈا کے دو کام تھے ایک پاور جنریشن جو آسان اور منافع بخش کام تھا اور دوسرا ڈسٹری بیوشن جو ہمیشہ سے عذاب کام رہا ہے،تو منافع والاکام بیچ دیا اور نقصان والا شعبہ سرکاری ہی رہا، ہمارے آئی پی پیز معاہدے سے کے مطابق ان کےپلانٹ چلیں یا نہ چلے ہم پیسے پورے دیں گے، اگر آج ہم دس ہزار میگاواٹ استعمال کررہے ہیں تو پیسے ہم 40 ہزار میگاواٹ کو دینے کے پابند ہیں۔ نیپرا کی ہر سال کی آخر میں اسٹیٹ آف انرجی رپورٹ آتی ہے جسے سب کو پڑھنا چاہیے، سارے حالات کااندازہ ہوجائے گا۔
ہمایوں خان: موجودہ معاشی بحران کی ذمہ دار کیاموجودہ حکومت ہے؟
سبطین: جب ایل سیز کھل رہی تھیں تو زیادہ انویسٹر کے ذریعےخام مال زیادہ منگوا کر محفوظ کیوں نہیں کیا گیا؟
زبیرطفیل: خام مال دو سے تین ماہ کا رکھا جاسکتا ہے اس سے زیادہ رکھنا ممکن نہیں، دوسرا خام مال کی ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے۔
حیدر: انڈیا میںایل پی جی گھریلو صارفین کو سبسڈائزڈ قیمت پر دی جاتی ہے ہم ایسا کیوں نہیں کررہے، ایران سستی توانائی کا اچھا حل ہے ہم فائدہ کیوں نہیں اٹھارہے؟
زبیرطفیل: ایران سے دیگر کے مقابلے میں بیس سے تیس فیصد سستا تیل ملتا ہے، ایران پر عالمی پابندیاں ہیں لیکن اس کے باوجود انڈیا اور روس کاروبار کررہے ہیں، انڈیا نے ایران سے کاروبارکرنے کے لیے ایک بینک بنا دیا ہے دنیا بھر میں اس بینک پر پابندی ہے ہم بھی اسی طرح کا ایک بینک قائم کرکے ایران سے تجارت کرسکتے ہیں لیکن شاید دنیا سے دشمنی مول نہیں لے سکتے،اس کمزوری کی وجہ برسوں سےحکمرانی کرنے والے ہیں۔
ناصر مگوں: چین ،کوریا ،تائیوان اور اب یورپ بھی ایران سے تجارت کررہاہے یورپ بارٹر سسٹم کے ذریعےکاروبار کررہا ہے۔ سوائے ہمارے تمام امریکی اتحادی اب ایران کے ساتھ تجارت کررہے ہیں۔