رابطہ ۔۔۔۔ مریم فیصل پشاور میں ہونے والے خودکش حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، شہدا کے رشتے داروں اور زخمی ہونے والوں کے غم میں ہم اوور سیز پاکستانی بھی برابر شریک ہیں، ہم بھی اس درد کو محسوس کر سکتے ہیں جو ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے، یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اپنے ہی گھر میں وہ ڈر دوبارہ محسوس ہورہا ہے جس کا سلسلہ رکا ہوا تھا، اب تو ایسا لگنے لگا تھا کہ وہاں آمن ہے سکون ہے، نماز پڑھنے جاؤ یا تعلیم حاصل کرنے، کہیں کوئی دشمن گھات لگایا نہیں بیٹھا کہیں کوئی جسم پر بم لٹکائے خود کو اڑا کر کئی معصوم جانوں کو بھی موت کے منہ میں ساتھ لے جانے کی تیاری سے ارد گرد موجود نہیں ہے ، کہیں کسی بس یا سنسان جگہ میں کسی تھیلے میں موت کا سامان کوئی چھپا کر نہیں رکھ گیا ہے ۔اب وہاں بھی چین ہے سکون ہے ۔وہاں کی عوام بھی بنا خوف کے جینا سیکھ گئے ہیں۔ وہاں بھی سیاحت پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ اب سیاح اس ملک کو علاقہ غیر نہیں سمجھتے ہیں۔ وہاں بھی مری سوات میں برسنے والی برف کو دیکھنے سیاح جانے لگے ہیں جیسے یہاں یورپ سیاح آتے ہیں مطلب حالات بہتر اور ماحول ساز گار ہوگیا ہے لیکن ایک بار پھر جیسے پانی میں پتھر پھینک کر طلاطم برپا کیا ہوجاتاہے ،ویسے ہی اس دھماکے نے بھی سکون میں خوف اور دکھ کا پتھر پھینکا کر ہل چل مچادی ہے ، ایک بار پھر یہ احساس وہاں جاگا ہے کہ ابھی بھی دشمن مادر وطن کو نقصان پہنچانے کی تاک میں ہے، ابھی بھی وہاں کے کونے کانچوں میں چھپ کر، ملک دشمن کاروائیوں کو انجام دینے کی سازش ہم وطنوں کا لبادہ اوڑھے دشمن کر رہا ہے اور وہاں کی عوام اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بے خبر ہے اور ایک بار پھر عوام بے بس ہے ۔کیونکہ ان دھماکوں میں زیادہ نقصان عام عوام کا ہوتا ہے یا پھر تخریبی کاروئیوایوںکا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کا، باقی تو ایسے واقعات کے بعد تحقیقات صرف ڈھکوسلہ ڈرامہ ہی ہوتی ہیں کیونکہ نہ ماضی میں کبھی شفاف تحقیقات ہوئی ہیں نہ اب ہونے کی امید ہے ، صرف دلاسے اور تسلیاں ہیں جن کی گولی ماضی میں بھی عوام کو دی جاتی رہی ہے اور اس بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ تحقیقات شروع ہوگئی ہیں جلد سب کچھ سامنے آجائے گا یہ کہے کر تسلیاں دی جارہی ہیں اور یہ تو پاکستانی عوام بھی اب سمجھتے ہی ہیں کہ یہ کتنا جلد ہوگا ۔ ابھی تو میڈیا میں بھی بہت شور ہے لیکن چند روز کی بات ہے یہ شور بھی کم ہوتے ہوتے گھٹ جائے گا اور عوام کی توجہ کہیں اور ہوجائے گی ، یہ ہر بار ہوا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا جب تک دشمن عناصر کی جڑوں تک پہنچ کر انھیں ختم نہیں کیا جائے گا اور جب تک ملک کی انٹیلی جنس اتنی باخبر نہیں ہوجائے گی کہ سازشوں کی خبر واقعہ ہونے سے پہلے ہونے لگے ۔ یہ وقت نہیں الزام تراشیوں کا لیکن بہر حال ہونا تو یہی چاہیے کہ جڑئیں کھوکھلی کرنے والوں کی جڑئیں کاٹنی ہوں گی تبھی مادر وطن میں مکمل آمن قائم ہونا ممکن ہے۔