اسلام آباد (انصار عباسی) اخلاقی انحطاط اور سماجی تانے بانے سے اقدار کے زوال سے نمٹنے کیلئے عمران خان حکومت کی جانب سے قائم کیا جانے والا ادارہ ’’رحمت للعالمین اتھارٹی (این آر اے)‘‘ شہباز شریف کی حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔
موجودہ حکومت میں پارلیمنٹ نے ایک نئے ادارے کےقیام کا قانون منظور کیا جس کا نام ’’نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی‘‘ تجویز کیا گیا۔ اب یہ ادارہ کاغذات کی حد تک تو موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا وجود نظر نہیں آتا۔
عمران خان کی حکومت میں این آر اے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا اور اس آرڈیننس کی مدت موجودہ حکومت میں ختم ہوگئی۔ اگرچہ شہباز شریف حکومت نے قانون سازی کی لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود حقیقتاً کوئی ادارہ موجود نہیں۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں حکومت نے اتھارٹی کے چیئرپرسن اور 6؍ ارکان کے تقرر کیلئے اشتہار شایع کیا ہے لیکن اب تک یہ معاملہ موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں کم ترین سطح پر ہے۔
ان ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وزیراعظم (جو اتھارٹی کے پیٹرن انچیف بھی ہیں) کی جانب سے اگر کردار سازی کا مقصد حاصل کرنے کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو ادارے کو صرف نوکری فراہم کرنے والا ادارہ بنا دیا جائے گا جہاں چیئرپرسن اور ممبران کو بھاری تنخواہیں دی جائیں گی۔ جس طرح پاکستان اخلاقی زوال کے بھنور میں پھنسا ہے، اور پاکستان اور اسلام کی جو شبیہ پیش کی جاتی ہے
اسے دیکھتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے این آر اے قائم کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اسے ایک موثر اور باصلاحیت ادارہ بنایا جائے تاکہ قوم اور اس کے نوجوانوں کی کردار سازی کی جا سکے۔
ایک عظیم مقصد کے پیٹرن انچیف کی حیثیت سے عمران خان ماہانہ تین سے چار مرتبہ اتھارٹی کا اجلاس منعقد کرتے تھے اور براہِ راست این آر اے کے کام کاج کی نگرانی کرتے تھے اور احکامات دیتے تھے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے این آر اے عدم توجہی کا شکار ہے۔ نئی قانون سازی کے ذریعے نیا ادارہ بنانے کی وجہ سے سابق چیئرمین اور ارکان کو ہٹا دیا گیا ہے۔
این آر اے سے جڑے ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ معاشرے میں خواتین اور بچوں پر تشدد سے لیکر ایمانداری اور اقدار کے زوال پذیر معیار کو دیکھتے ہوئے اور اخلاقی انحطاط کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر این آر اے قائم کی گئی تھی کیونکہ اس بات کا ڈر تھا کہ معاشرہ تیزی سے اُن اقدار کو قبول کر رہا ہے جو اصل میں اس کی نہیں ہیں۔
موجودہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں اتھارٹی کے 8؍ ممبران ہوں گے۔ ان میں قومی اسمبلی کے 2؍ مسلم ارکان (ایک اپوزیشن اور ایک حکومت سے)، 6؍ نامور اسکالرز شامل ہوں گے۔