• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گرینڈ ڈائیلاگ کے بغیر معاشی استحکام ناممکن

ایک طرف پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کی مرہون منت ہو کر رہ گئی ہے تو دوسری طرف پاکستان میں سیاسی عدم استحکام طویل ہوتا جا رہا ہے، فریقین کے مل بیٹھنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے، لاہور ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دے چکی ہے مگر الیکشن کمیشن کو نہ صرف وفاقی حکومت سے بلکہ کے پی کے اور پنجاب حکومت سے بھی انتخابات کے لئے سیکیورٹی فورسز اور انتخابی عملہ فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔

دو سال کے لیے نگران سیٹ اپ کی سر گوشیاں سنائی دے رہی ہیں، عمران خان ابھی کے پی کے اور پنجاب میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں، حالانکہ جانتے ہیں کہ الیکشن برائے الیکشن مسائل کا حل نہیں، سٹیک ہولڈرز میں گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت تو سبھی تسلیم کرتے ہیں مگر عمران خان ’’صاحب اقتدار‘‘ لوگوں کو چور قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ بات چیت کو گناہ قرار دیتے ہیں حالانکہ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کے بغیر مستقبل کی منتخب حکومت بھی معاشی تباہی نہیں روک سکے گی، پاکستان کے معاشی معاملات کو سنبھالنے کے لیے سب کو پاکستان کے لیے اپنے گھر کی طرح صرف سوچنا ہی نہیں عمل کر کے دیکھانا ہو گا۔ 

سوشل میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا بھی سٹیک ہولڈرز کو ان کی زمہ داریاں یاد دلانے کے ساتھ ساتھ کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، پاکستان کے کسی بھی شہری کے دنیا بھر میں موجود اثاثے اب خفیہ نہیں رہتے، اگرچہ حلال اور حرام کی تمیز باقی نہیں رہی مگر ہر شخص اپنے رزق کی حقیقت سے واقف ہے بلکہ اثرات بھی جانتا ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد قومی اسمبلی سے آؤٹ ہونے اور دو صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کا فیصلہ غلط کیا ،قومی اسمبلی کے اندر رہ کر اپوزیشن کرنی چاہیے تھی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے عوام رابطہ مہم جاری رکھتے، صوبائی اقتدار ہاتھ سے نکلنے کے بعد گھر میں محبوس ہونے پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی کی وہ بات سچ ثابت ہو کر رہ گئی ہے کہ سرکاری پروٹوکول اور سیکیورٹی صرف اقتدار میں ہی ملتی ہے،اقتدار جاتے ہی پولیس اور بیوروکریسی آنکھیں پھیر لیتی ہے پھر اپنی حفاظت کے لیے بھی نہ صرف بندے اکھٹے کرنے پڑتے بلکہ اخراجات بھی پلے سے جھیلنا ہوتے ہیں، عمران خان الیکشن میں تاخیر کی صورت میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، پی ٹی آئی نے جیلوں میں جانے کے خواہاں لوگوں کے ناموں کا اندراج بھی شروع کر دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے اب تک جن راہنماؤں کو گرفتارکرکے جیل میں رکھا گیا۔

انہوں نے جیل کو سسرال تو کہا مگر ان کے رونے اور آنکھوں سے آنسو بکھرنے سے خوشگوار نتیجہ سامنے نہ آ سکا، 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو چھ چھ ماہ، وفاقی وزیر سید خورشید شاہ کو دو سال، پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کو ایک سال، سابق رکن قومی اسمبلی محمد حنیف عباسی کو 9 ماہ، مریم نواز کو دو بار پانچ پانچ ماہ، وزیر اعظم شہباز شریف 20 ماہ تک پابند سلاسل رہے۔ 

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 7 ماہ، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے بھی 7 ماہ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی نے بھی طویل قید کاٹی،وفاقی وزیر احسن اقبال بھی کئی ماہ تک جیل سے احتساب عدالتوں میں پیش کئے جاتے رہے سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو بھی 22 ماہ پابند سلاسل رکھا گیا ، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے 2018ء کے انتخابات سے قبل اپنے انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو جیلوں میں بند کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا تھا۔ 

اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے، جس کے جواب میں موجودہ حکومت ابھی تک عمران خان کے خلاف بہت سے مقدمات آخری مرحلے میں ہونے کے باوجود ہاتھ ڈالنے کا عملی مظاہرہ نہیں کر سکی، مالم جبہ کیس اور پشاور پی آر ٹی سٹے آرڈر کے خلاف عدالت میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نیب ہو یا ایف آئی اے کرپشن کیسز میں حقائق بدلنے نہیں چاہئیں، عموماً اقتدار بدلنے کے ساتھ ہی ملزم بھی بدل جاتے ہیں، غلط اور حقائق کے برعکس مقدمات بنانے والے افسران سے بھی پوچھ گچھ کا نظام بنانے کی ضرورت ہے، 60 ہزار ارب ڈالرز کے مقروض ہونے کے بعد بھی اگر ہم قومی وسائل کی حفاظت کے لیے درست فیصلے کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے وطن کے شہریوں کو نکما ہونے کی بدنامی کے سو کچھ نہیں ملے گا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے الیکشن پارٹی ٹکٹ پر لڑنے کا اعلان کردیا ہے، میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیرعظم نواز شریف کو اپنا قائد قرار دیا۔ چیف آرگنائزر مریم نواز کا ذکر کئے بغیر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرا قائد صرف نواز شریف ہے، الیکشن مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ہی لڑوں گا۔ 

مسلم لیگ (ن) سے برسوں کی وفاداری ہے، نئی پارٹی بنانے سے متعلق سب افواہیں ہیں، مگر سیاسی حلقوں میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل کے اختلاف رائے کا انجام چوہدری نثار علی خاں اور مخدوم جاوید ہاشمی جیسا تو نہیں ہو گا؟ جنہیں پی ایم ایل این نے نہ صرف ٹکٹ نہیں دیا بلکہ ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار بھی کھڑا کر دیاگیا تھا ،پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز "ووٹ کو عزت دو" کے بہانے پر آئندہ الیکشن کی مہم استوار کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھیں کہ ان کے شوہر نامدار کپٹن (ر) صفدر نے یہ کہہ کر کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن کے لیے ووٹ دے کر نواز شریف کے اس بیانیے کو دفن کر دیا تھا، مریم نواز تو کپٹن صفدر کے اس بیان کی زمہ داری لینے کو تیار نہیں اور بیانیہ دفن ہونے کو ان کی ذاتی رائے سمجھتی ہیں مگر کیا اب بھی (ن) نے پی ٹی آئی کا مقابلہ اسی بیانیے سے کرنا ہے۔

عمران خان کے نا اہل ہونے کی صورت میں تو میچ نئے حریفوں سے ہو گا،وفاقی حکومت میں یوں تو 13 جماعتیں شامل ہیں مگر جماعت اسلامی پاکستان تین جماعتوں ن لیگ، پپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ملکی قرضوں کی زمہ دار قرار دیتی ہے ، امیر سراج الحق کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، اب حکومت لوگوں کا معاشی قتل عام چاہتی ہے، زرعی پاکستان کو انہوں نے تباہ کیا، وزیراعظم صاحب کہتے ہیں صبر کرو سکون قبر میں ملے گا، پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ ن و پیپلز پارٹی سب کا کردار ایک۔ 

جیسا ہے، پاکستان کی صنعت کو حکمرانوں نے تباہ کر دیا، انہوں نے لوٹ کر کینیڈا، فرانس، دوبئی، برطانیہ اور امریکہ میں پیسے رکھے، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو 100 سال بھی مل جائیں یہ یہی حال کریں گے ملک میں نہ انصاف ہے، نہ میرٹ اور نہ عدالت، ملک پر قرض زرداری عمران خان اور نواز شریف نے چڑھایا انہیں سیاست سے آوٹ کر کے جماعت اسلامی کو آزمانے کی ضرورت ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید