اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے نے امریکہ کو پاکستان پر چین اور دوسرے ملکوں کے واجب الادا قرضوں پر تشویش اور خدشات کا اظہارکرتےہوئے کہاہےکہ پاکستان معیشت کوپٹری پرلانے کیلئے بنیادی اصلاحات کرے، اسلام آباد بیجنگ قریبی تعلقات کےخطرات بارے میں بات کررہےہیں لیکن امریکااور چین میں سے ایک کے انتخاب کیلئے نہیں کہیں گے،پاکستان کیساتھ فوجی اوردیگرشعبوں میں تعلقات مضبوط بنائیں گے،۔ اسلام آباد میں پاکستان کے اعلیٰ حکام کیساتھ ملاقاتوں کے بعد ڈیرک شولے نے امریکی سفارتخانے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف یہاں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں چینی قرضے یا چین کو واجب الادا قرضے کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں جاری ہونے والی عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق چین اور چینی کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے کل 100 ارب ڈالر کے کل بیرونی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہے۔ اس قرضے کا زیادہ تر حصہ سی پیک کے تحت آیا جو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔ ڈیرک شولے کا کہنا تھا کہ واشنگٹن، اسلام آباد سے بیجنگ کیساتھ قریبی تعلقات کے ’خطرات ‘ کے بارے میں بات کر رہا ہے لیکن وہ پاکستان کو امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کے انتخاب کیلئے نہیں کہے گا۔ ماضی میں افغانستان میں جنگ کے باعث اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی تھی لیکن حالیہ مہینوں میں بڑھتے ہوئے اعلیٰ سطح کے دوروں کیساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ مطلوبہ بہتری مختصر مدت میں حاصل نہیں ہوسکتی لیکن طویل مدت میں کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کے دوبارہ سر اٹھانےکیخلاف نمٹنےکیلئے مدد کے واشنگٹن کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا کہ دونوں ممالک فوجی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ میں ابھی اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا لیکن ہم تحقیقات اور اس سے ملنے والے شواہد کو دیکھ رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوث دہشتگردوں کا احتساب کیا جائے۔