کراچی (ٹی وی رپورٹ)پنجاب اور کے پی کے انتخابات کا معاملہ ، چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس لے لیا اس پر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اب سپریم کورٹ کی طرف سے جو بینچ بنایا گیا ہے اس پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں
چیف جسٹس آف پاکستان کا استحقاق ہے کہ وہ کسی بھی جج کو جس کو بھی وہ چاہیں بینچ کا حصہ بنائیں، اہم معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردار طارق کو بینچ میں کیوں نہیں شامل کیا گیا
چیف جسٹس ایسا بینچ بناتے جس سے یہ تاثر دور ہو تاکہ سپریم کورٹ میں گروپنگ نہیں ہے۔تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ جوقابل عزت چیف جسٹس نے سوموٹو لیا ، سب سے پہلے تو بنیادی بات یہ ہے کہ اس بینچ کی تشکیل اگر آپ دیکھئے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہتر ہوتا شاید کہ جن معزز ججز صاحبان کے بارے میں اتنی چہ میگوئیاں اور متعدد بار ریفرنس بھیجنے کی تیاری کررہی ہیں ان کو خود ہی معذرت کرلینا چاہئے تھی کہ وہ کسی بینچ کا حصہ نہ بنیں جب تک یہ معاملات سلجھ نہیں جاتے ۔
بہرحال یہ استحقاق ہے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہ وہ کسی بھی جج کو جس کو بھی وہ چاہیں بینچ کا حصہ بنائیں اب یہ 9رکنی بینچ ہے اس میں دو تین باتوں کا اندزاہ لگانا ہے سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے گا ایک بات فیکٹ ہے کہ صدر مملکت کا جو خط تھا الیکشن کمیشن کو جو صدر مملکت کا اعلان تھا الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اس کی جو آئینی اور قانونی حیثیت ہے اس کو بھی پرکھا جائے گا یہ چند ایسے سوالات ہیں جو عدالت کے سامنے بھی آئیں گے۔
تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ یہ جو 9رکنی لارجر بینچ تشکیل ہوا ہے اسکو آپ بریکنگ نیوز کہہ رہے ہیں لیکن اس بریکنگ نیوز کے اندر بھی ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز چھپی ہوئی ہے اور وہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اتنا بڑا بنچ ہے اور اتنا اہم معاملہ ہے لیکن اس میں نہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہ ہی جسٹس سردارطارق کو شامل کیا گیا ہے تو ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے اور یہ سوال نہیں ہے بلکہ بریکنگ نیوز ہے کہ اتنے اہم معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردار طارق کو بینچ میں کیوں نہیں شامل کیا گیا تو اب یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو کہ ہم نظر انداز نہیں کرسکتے
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں معزز جج صاحبان کے اس بینچ میں شامل نہ ہونے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی Politicized بہت ہی Polarized قسم کا بینچ ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل جب کچھ ججز کو لانا تھا ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ اورجوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہورہا تھا تو اس اجلاس کے جو اندرونی معاملات تھے ان میں ججز کی گروپنگ سامنے آئی تھی تو چیف جسٹس صاحب کو یہ چاہئے تھا کہ وہ بینچ ایسا بناتے جس سے یہ تاثر دور ہو کہ سپریم کورٹ میں گروپنگ نہیں ہے لیکن انہوں نے جو بینچ بنایا ہے اس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ گروپنگ ہے۔