خیبر پختونخوا میں بظاہر فوری انتخابات کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں جس طریقے سے نگران حکومت کی تشکیل کی گئی ہے اور اب جس انداز میں اس میں مزید لوگ شامل کئے جارہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ سیٹ اپ ہرگز 90 روز کیلئے نہیں، ویسے بھی جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نجی محافل میں یہ کہتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کے بعد جو بھی سیٹ اپ آئے گا وہ کم از کم ایک سال کیلئے ہوگا، غالباً پاکستان تحریک انصاف کو حالات کے اس رخ پر جانے کی امید نہیں تھی۔
پی ٹی آئی کا یہ خیال تھا کہ ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی یعنی پنجاب اسمبلی اور اس کیساتھ خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل وفاقی حکومت کو اس امر پر مجبور کردے گی کہ وہ بھی قومی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کی طرف جائے، ویسے اسمبلیوں کی تحلیل کا اختیار تو وزرائے اعلیٰ کے پاس ہے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دنوں کے اندر اندر نئے انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے مگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ منظم انداز میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے صوبائی انتخابات کو موخر کرانے کیلئے سرگرم ہے، گورنر حاجی غلام علی کی جانب سے نہ صرف الیکشن کی تاریخ دینے سے انکار کیا گیا ہے بلکہ صوبہ میں امن و امان کی سنگین صورت حال کے تناظر میں مشاورت کا لفظ استعمال کرکے وہ الیکشن کو کئی مہینوں تک التوا میں رکھنے کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو ارسال کئے گئے خط اور اس کے بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس کے موقع پر گور نرخیبر پختونخوا نے کھل کر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اوراس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہئے البتہ وہ متعدد مرتبہ’’ بیچ کا راستہ‘‘ اختیار کرنے کی بات بھی کرتے آرہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ بڑھائی جائے جبکہ قومی اور باقی دو صوبوں کے انتخابات کی تاریخ پیچھے لائی جائے حالانکہ موجودہ حالات میں خیبر پختونخوا اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات اپریل میں ہر صورت ہونے چاہئیں جبکہ باقی ملک میں الیکشن اکتوبر میں ہوں گے اگر گورنر خیبر پختونخوا کے فارمولا کو دیکھا جائے تو اس کے مطابق ملک بھر میں انتخابات جولائی یا اگست میں منعقد کئے جانے چاہئیں۔
تجویز بہرحال معقول دکھائی دیتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں لچک لانے کیلئے تیار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ، عدالت عالیہ واضح کرچکی ہے کہ اگر الیکشن کی تاریخ نہ دی گئی تو وہ رواں ہفتے ہی کوئی تاریخ جاری کرسکتی ہے، ان حالات میں نگران صوبائی کابینہ میں نگاہ ڈالی جائے تو سوائے دو تین ناموں کے باقی سارے سیاسی چہرے دکھائی دیتے ہیں، کابینہ میں سب سے زیادہ نمائندگی جمعیت علمائے اسلام کے حصہ میں آئی ہے تاہم مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور قومی وطن پارٹی کو بھی حصہ ملا ہے البتہ محکمہ خزانہ کا قلمدان وزیر اعلیٰ نے اپنے نامزد کردہ مشیر کو سونپا ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان کئی معاملات میں گورنر ہاؤس اور مبینہ طور پر جمعیت علمائے اسلام کے بعض رہنماؤں کی مداخلت سےبھی خائف ہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ بہت زیادہ مداخلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔
ان حالات میں کہ جب نگران صوبائی کابینہ میں وزیر اعلیٰ کےاپنے نمائندوں کی تعداد بمشکل20فیصد بنتی ہے نگران وزیر اعلیٰ کیلئے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے، نگران صوبائی وزرا جس انداز میں محکمانہ بریفنگ لے رہے ہیں اس حوالے سے بھی سرکاری افسران کو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسا یہ لوگ 90روز نہیں بلکہ9مہینوں کیلئے آئے ہیں، ایک طرف الیکشن کی تاریخ کے معاملے پر صوبہ میں غیر یقینی کی فضا گہری ہوتی جارہی ہے تو دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف آڈیو لیکس کی تحقیقات کے اعلان کے بعد اب خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا بھی خطرہ کی زد میں آچکے ہیں ان کی سابق وفاقی وزیر خزانہ کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کو بنیاد بنا کر کسی بھی وقت ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے اور اگر شوکت ترین گرفتار ہوتے ہیں تو پھر تیمور سلیم جھگڑا کی گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔
ویسے بھی گرفتاریوں کا موسم چل رہا ہے خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کیلئے بھی وفاقی حکومت کے بعض ذمہ داران بے چین نظر آتے ہیں لیکن فی الوقت ان کی گرفتاری کا خطرہ مول لینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں، ان ہی حالات میں پاکستان تحریک انصاف ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد اب جیل بھرو تحریک کا آغاز کرنے والی ہے جس کیلئے پشاور سمیت صوبہ بھر میں رجسٹریشن کا عمل جاری ہے، پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے بدھ سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں آج بروز جمعرات سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوگا۔
عمران خان کے حکم پر تحریک انصاف کےکارکن دن دو بجے ہشت نگری چوک میں جمع ہوکر دھرنا دیں گے جہاں روڈ بلاک کرنے کے بعدپارٹی کارکن اور رہنما گرفتاریاں دیں گے جبکہ تحریک انصاف پشاور کے صدر اشتیاق ارمڑ نے آڈیو پیغام میں کارکنوں کو پارٹی جھنڈوں سمیت پہنچنے اور بھرپور تیاریوں کی ہدایت کی ہے ،جیل بھرو تحریک کا مقصد وفاقی اور نگران صوبائی حکومتوں پر صوبائی انتخابات کے انعقاد کےلئے دباؤ میں اضافہ کرنا ہے، اسی طرح تحریک انصاف نے آئین بچاؤ تحریک کا بھی اعلان کیا تھا گویا اب پی ٹی آئی بروقت صوبائی انتخابات کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہوچکی ہے۔
وفاقی حکومت کو بھی عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھنا پڑے گا جہاں پر صوبائی انتخابات کا معاملہ زیر سماعت ہے اور عدالت واضح کرچکی ہے کہ 90دنوں میں انتخابات نہ کرنا غیر آئینی ہوگا تاہم چیف الیکشن کمشنر بھی اپنی کمزوریوں کا اظہار کرچکے ہیں کہ حکومت پیسے نہیں دے رہی، عدلیہ آروز سے انکاری ہے اور فوج نے سکیورٹی دینے سے انکار کردیا ہے گویا ہماری سیاسی قیادت تمام سیاسی معاملات کی طرح انتخابات کے انعقاد کا معاملہ بھی اب عدالتوں کے ذریعے طے کرنے کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے جس سے خود سیاسی قیادت کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگنے کا خطرہ ہے۔