اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ میں نیب ایکٹ میں ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی ہے دیکھنا ہو گا کہ نیب جو رقم وصول کرتا ہے وہ کہاں جاتی ہے؟ جبکہ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی اس حوالے سے متعدد بار پوچھ چکی ہے، نیب ایکٹ 2022 کے تحت اب تک کسی بھی ملزم کی بریت نہیں ہوئی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل خصوصی بنچ نے سماعت کی تو وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نیب نے تاحال مقدمات سے متعلق جامع رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی ہے، نیب کی ایک رپورٹ میں 221 ریفرنسز جبکہ دوسری میں 364 ریفرنسز واپس بھیجے جانے کا بتایا جا رہا ہے دونوں رپورٹوں میں 143 ریفرنسز کا تضاد ہے جبکہ نیب کے مطابق 41 شخصیات کی بریت ہوئی، انہوں نے عدالت سے نیب سے احتساب عدالتوں سے واپس بھیجے جانے والے ریفرنسز کا مکمل ریکارڈ طلب کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی، وکیل نے کہا نیب سے پوچھنا چاہئے کہ ان مقدمات میں کل کتنے لوگ بری ہوئے ہیں اور ان میں سیاسی شخصیات کتنی ہیں؟، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نیب کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ221 ریفرنسز بھیجے گئے ہیں یا 364؟ نیب کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ ان ریفرنسز کی رقم کتنی بنتی ہے، انہوں نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ خود کہتے رہے ہیں کہ نیب ماضی میں انتقام کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے، نیب چیئرمین عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں وہ ایک بہترین ساکھ کے حامل پولیس افسر تھے ہمارے پاس ایک مثال ایسی بھی ہے کہ ایک شخص نے پیسہ واپس کردیا لیکن اس کے باوجود اسے جیل میں رکھا گیا تھا، ابھی وکیل کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔