• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس قاضی فائز اگلے چیف جسٹس ہیں ان کا بنچ میں ہونا ضروری، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال ملکی اکائیوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت، نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے اگلے چیف جسٹس ہیں ان کا بنچ میں ہونا ضروری ہے،سپریم کورٹ کو صوبائی الیکشن کے معاملہ پر لارجر بنچ کے بجائے فل بنچ بنانی چاہئے تھی، چیف جسٹس فل بنچ بنادیتے تو کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آسکتا تھا۔

بینظیر شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس شروع بھی نہیں ہوتا لیکن متنازع ہوجاتا ہے، انتخابات ازخود نوٹس کیس میں بھی بنچ کا اعلان ہوتے ہی شور مچنا شروع ہوگیا ہے، بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس طارق مسعود جیسے سینئر ججوں کی غیرموجودگی پر اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں،

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے اگلے چیف جسٹس ہیں ان کا بنچ میں ہونا ضروری ہے، بنچ میں شامل ایک جج کی مبینہ آڈیوز سامنے آئی ہیں ان کی شمولیت پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے، 

ایک تنازع اس کیس کا ازخود نوٹس لینے سے متعلق بھی ہے، سی سی پی او ٹرانسفر پوسٹنگ کیس کی سماعت میں اچانک پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کے بارے میں بات شروع ہوگئی جس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا، سپریم کورٹ میں اصلاحات اور شفافیت کی ضرورت ہے کہ بنچ کس طرح بنائے جاتے ہیں۔

 شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کا معاملہ خالصتاً سیاسی ہے، سیاسی معاملہ عدالت جاتا ہے تو تنازعات جنم لیتے ہی ہیں، اعلیٰ عدالت میں تقسیم نظر آرہی ہے جو صرف بنچوں کی تشکیل تک محدود نہیں ہے ، ججوں کی تقرری کے معاملہ پر بھی تقسیم واضح نظر آئی، سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر انتخابات کے معاملہ کا حل نکالنا چاہئے، سینئر ترین نو ججوں کو بنچ میں شامل کیا جائے تو تنازع ختم ہوسکتا ہے،مظہر عباس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو صوبائی الیکشن کے معاملہ پر لارجر بنچ کے بجائے فل بنچ بنانی چاہئے تھی، چیف جسٹس فل بنچ بنادیتے تو کسی طرف سے کوئی سوال نہیں آسکتا تھا، بدقسمتی سے ملک میں ایسا ماحول بن گیا ہے کہ ججز اپنے اپنے پسند اپنی اپنی ، اس ماحول کی بڑی ذمہ دار خود عدلیہ ہے، ہمارے ملک میں جسٹس کیانی اور جسٹس دراب پٹیل بہت کم جبکہ جسٹس منیر بہت زیادہ پیدا ہوئے، ملک میں جب بھی مارشل لاء لگتا ہے کوئی نہ کوئی جسٹس منیر آجاتا ہے، شاید پہلی دفعہ دو ججوں نے کسی معاملہ پر چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کیلئے کہا ہے،اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ٹرائل کورٹ بن گئی ہے حالانکہ ان کے پاس حتمی اپیل آتی ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور سماعت سے متنازع رہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارکردگی زیرو رہی ہے، سپریم کورٹ میں خود احتسابی کا طریقہ کار نہیں ہے۔

 حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ بحران اتنا بڑھ چکا ہے کہ ریاست پاکستان بندگلی میں آگئی ہے، آج بنچ بیٹھا تو ایسا لگا کوئی انتظار کررہا ہو، جسٹس جمال خان مندوخیل نے پہلے ازخود نوٹس پر اعتراض کیا ہے پھر بنچ میں دو ججوں کی شمولیت پر اعتراض کیا ہے کہ وہ اپنی رائے دے چکے ہیں وہ بنچ کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں، یہی بات چیف جسٹس کے بارے میں بھی کہی کہ آپ کی بھی رائے آگئی ہے تو آپ کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔

دوسرے سوال گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک روز بعد ہی رہائی کی درخواستیں کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے بینظیر شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی واضح پلان نہیں ہے، لاہور میں پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے دوران تفریح ہوتی رہی، عمران خان جب تک نہیں نکلیں گے تحریک آگے نہیں بڑھے گی۔ 

شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ جیل بھرو تحریک علامتی ہے اس سے کچھ نہیں ہوگا، شاہ محمود قریشی جیل بھرو تحریک کو سی سی پی او دفتر بھرو تحریک سمجھ رہے تھے۔ حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سمجھ رہے تھے انہیں سی سی پی او آفس میں بٹھا کر چائے بسکٹ سے تواضع کریں گے، پنجاب پولیس اتنی فرض شناس ہے کہ باقاعدہ اعلان کر کے لوگوں کو گرفتاری دینے کیلئے ہر سہولت مہیا کرنے کی پیشکش کی مگر پی ٹی آئی کا کوئی رہنما نہیں نکلا۔

 مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ہم جیل بھرو تحریک شروع کرتے تھے تو پھر ضمانت نہیں کرواتے تھے، ہمارے 200لوگ گرفتار ہوئے کسی نے ضمانت نہیں کروائی حکومت کو خود چھوڑنا پڑا تھا۔

اہم خبریں سے مزید