17 فروری کو تقریباً شام 7:10منٹ پر دہشت گردوں نے کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا۔ تین دہشت گرد کراچی پولیس ہیڈ آفس ( کے پی او ) میں داخل ہوئے،دہشت گرد ایک ٹیوٹا کرولا کار میں وہاں آئے، کراچی پولیس آفس کےعقب میں پولیس کوارٹرز میں انہوں نے گاڑی پارک کی۔ دو دہشت گرد دیوار پلانگ کر اور ایک سامنے والے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ اندر داخل ہوتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کی اور ہینڈ گرنیڈ پھینک کر بلڈنگ کے اندر داخل ہوئے۔
ایڈیشنل آئی کراچی جاوید عالم اوڈھو اس روز چھٹی پر تھے۔ دہشت گردوں نے پہلی اور دوسری منزل پر زیادہ گولیاں چلائیں اور تیزی سے اوپر کی جانب بڑھے، تینوں دہشت گرد خود کش جیکٹس پہنے ہوئے تھے اور ایسی جگہ خود کو دھماکے سے اڑانے کا سوچ رہے تھے، جہاں زیادہ سے زیادہ نقصان ہو۔
ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ جو کہ اس وقت تین تلوار پر پہنچے تھے، کو جیسے ہی حملے کی اطلاع ملی، وہ اپنی ٹیم کے ساتھ فوراً وہاں پہنچے اور انہوں نے رینجرز حکام کو بھی فون کیا، رینجرز کے انسداد دہشت گردی ونگ (قلندر فورس) کے بریگیڈیئر توقیر اپنے 6 جوانوں کے ساتھ سب سے پہلے کے پی او میں داخل ہوئے اور آپریشن کی قیادت کی، جب کہ ان کے پیچھے ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ اپنی ٹیم جس میں ڈی ایس پی آصف منور،ایس ایچ او کلاکوٹ امتیاز احمد اور پانچ جوان شامل تھے، بھی کے پی او میں داخل ہوئے،رینجرز اور پولیس کی اس ٹیم نے دہشت گردوں سے سرچ سے پہلے مقابلہ کیا اور انھیں انگیج کیا۔
بعد ازاں سی ٹی ڈی ،ریپڈ رسپانس فورس ،ڈی آئی جی سائوتھ ، ڈی آئی جی ایسٹ اور ایس ایس یو کی ٹیم بھی وہاں پہنچی اور انہوں نے پلان کیا کہ کس طرح کم سے کم نقصان میں اس صورت حال پر قابو پایا جاسکے۔ پاکستان آرمی کے اسنائپرز کو ساتھ کی بڑی عمارتوں پر تعینات کیا گیا، جب کہ پاکستان نیوی سے دو ہیلی کاپٹرز بھی طلب کیے گئے۔ انہوں نے بلڈنگ کی لائٹس کو بند کیا، تاکہ دہشت گرد لوگوں کو یرغمال نہ بناسکیں۔ اندر موجود لوگوں کو کہا گیا کہ آپ اپنے فون سائلنٹ کرلیں تا کہ اگر کوئی آپ کو کال کرے تو انہیں آپ کی لوکیشن کا پتہ نہ چلے۔
اندر ڈی ایس پی موجود تھے اور انسپکٹرز اپنی پاس موجود چھوٹی ہتھیاروں کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ ایک دہشت گرد نے خود کو تیسری منزل پر بلاسٹ کیا، جب کہ باقی دو چوتھی منزل کی طرف گئے، جہاں پرشدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ایک دہشت گرد کو چوتھی منزل پر جہنم رسید کیا گیا اور تیسرا چھت پر جہنم واصل ہوا۔دہشت گردوں کے حملے میں پانچ لوگ شہید ہوئے، جن میں رینجر کے سب انسپکٹر تیمور شہزاد(شجاع آباد، ضلع ملتان)، پولیس کانسٹیبل لطیف الرحمان(ڈسٹرکٹ شکارپور)،ہیڈ کانسٹیبل غلام عباس لغاری( لاڑکانہ )،لفٹ آپریٹر سعید احمد (اورنگی ٹائون ، کراچی) ، سینیٹری ورکر اجمل مسیح شامل تھے،جب کہ 18 پولیس اور رینجرز کے اہل کار زخمی ہوئے۔
بم ڈسپوزل یونٹ کی ٹیم بھی وہاں پہنچی، جس نے خود کش جیکٹس ڈی فیوز کیے۔ دہشت گردوں کے پاس گرنیڈز اور دیگر بارودی مواد قبضے میں لیا گیا اور پولیس نے اسی وقت اپنی تلاش نادرا ڈیٹا بیس کے ذریعے دو دہشت گردوں کا ڈیٹا معلوم کر لیا، جس سے ایک دہشت کا تعلق شمالی وزیرستان سے، جب کہ دوسرے کا تعلق لکی مروت سے معلوم ہوا۔ تیسرے کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔ دہشت گردوں کے ساتھ دو دیگر افراد موٹر سائیکل پر آئے تھے، جو انھیں کے پی او کے باہر چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ بم ڈسپوزل یونٹ کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کے جسم پر نصب 2 خودکش جیکٹس، 8 دستی بم اور 3 گرنیڈ لانچر ملے۔
ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی جانب سے پھینکے گئے دستی بم پھٹ نہیں سکے، دستی بم ناکارہ حالت میں ملے، دہشت گردوں سے برآمد خودکش جیکٹس 8 سے 10 کلو وزنی تھیں،خودکش جیکٹس میکینیکل طرز پر بنائی گئی تھیں،جیکٹس میں الیکٹرونک سسٹم نہیں تھا،بی ڈی یو کے مطابق خودکش جیکٹس ڈیٹونیٹر انداز میں تیار تھی۔
تحقیقات شروع کردی گئی ہیں، دہشت گردوں سے ملنے والے موبائل فون کی اسکرین ٹوٹی ہوئی اور حملہ آور سے ملنے والا فون بند ہے ،ممکنہ طور پر خود کو دھماکے سے اڑانے والے دہشت گرد کے پاس بھی موبائل فون موجود تھا،حملہ آوروں کے روٹ کے حوالے سے تفصیلات لی جارہی ہیں، روٹ کی مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئی ہیں۔ اس بات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ دہشت گردوں نے کب اور کتنا عرصہ ریکی کی اور کیسے بلڈنگ میں داخل ہوئے۔
دوسری جانب کراچی پولیس ہیڈ آفس پر ہونے والے حملے نے پولیس کے سیکیورٹی انتظامات پر بھی کئی سوال کھڑے کردیے ہیں۔ کلعدم ٹی ٹی پی نے اس دہشت گرد حملے کی ذمے داری قبول کی ہے،سوال یہ ہے کہ پورا پاکستان عبور کر کے دہشت گرد اسلحے اور خودکش جیکٹس سمیت کراچی تک کیسے پہنچے؟ کے پی او پر حملے میں سیکیورٹی کوتاہی کس کی تھی ، پولیس نے اب تک ذمے دار کا تعین نہیں کیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس کے ہیڈ آفس میں دہشت گردوں کا داخل ہونا سیکیورٹی غفلت ہے،کے پی او کی عمارت کی چھت پر اسناپئرز تعینات نہیں تھے اور عمارت کے عقبہ حصے پر بھی سیکیورٹی کے مناسب اقدامات نہیں تھے، اہم مقامات اور عمارتوں کی حفاظت سیکیورٹی ڈویژن کی ذمے داری ہے۔
تاہم پولیس کی جانب سے دہشت گردوں کو مارنے کا کریڈٹ تو لیا جا رہا ہے، لیکن سیکیورٹی کوتاہی کی ذمے داری نہیں لی جا رہی۔ سفارش کے باجود کے پی او کے سکیورٹی انتظامات بہتر نہیں کیے گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق اسٹاک ایکسچینج پر حملےکے بعد کے پی او سمیت اہم مقامات کی سیکیورٹی بہتر کرنے کی سفارش کی گئی تھی ،29 جون کو اسٹاک ایکسچینج پر حملےکے بعد گیارہ جولائی 2020 کوسیکیورٹی اجلاس ہواتھا،اجلاس میں کے پی او میں ایمرجنسی سیڑھیاں لگانے کی سفارش کی گئی تھی،سفارش کے باجود کے پی او کے سیکیورٹی انتظامات بہتر نہیں کئے گئے ،اجلاس میں عمارت کی چوتھی منزل پر گرل لگانے کی سفارش کی گئی تھی،اجلاس میں صدر پولیس لائن کے راستے پر بیریئر لگانے کا بھی کہا گیا تھا، صدر پولیس لائن میں مسجد کی دیوار پر خاردار تار لگانے کی بھی سفارش کی گئی تھی۔
اجلاس میں گراونڈ فلور پر بنے کمانڈ اینڈ کنٹرول روم کی سیکیورٹی بھی بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی۔اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے نوٹ شیٹ پر احکامات دیئے۔ تاہم تین سال سے سفارشات پر عمل نہیں کیا جاسکا۔کراچی کی بیش تر پولیس لائنز میں سیکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے ، محافظ خود سیکیورٹی سے محروم ہیں۔ ذرائع کے مطابق کراچی پولیس آفس سے ملحقہ پولیس لائن صدرکوارٹرز میں داخلےکا کوئی سیکیورٹی گیٹ نہیں ہے، پولیس لائن کے کوارٹرز میں پولیس اہل کاروں کے اہل خانہ رہائش پذیر ہیں اور کوئی بھی شخص کسی بھی وقت باآسانی اندر آسکتا ہے۔
حملہ آوروں کو باہر کیوں نہیں روکا جا سکا ؟اس کا جواب کسی پولیس افسر کے پاس نہیں ہے،دہشت گرد ممکنہ طور پر کئی روز سے ریکی کر کے، کے پی او میں داخل ہوئے،اس دوران سیکیورٹی کیمروں سے انھیں کیوں مانیٹر نہیں کیا جا سکا؟ پشاور حملے کے بعد تھریٹ الرٹس موجود تھے، اس کے باوجود کے پی او کے اطراف سیکیورٹی کیوں نہیں بڑھائی گئی؟ کے پی او کی چھت پر اسنائپرز کیوں تعینات نہیں تھے؟اکثر پولیس اہل کاروں کو مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ہیلمٹ کے بغیر اندر گئے جو کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے، جب کہ اکثر افسران نے بھی ہیلمٹ نہیں پہنا تھا۔
کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر سیکیورٹی انتظامات کی موجودہ صورت حال کا انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے ’سیکیورٹی آڈٹ‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کو سیکیورٹی کی سنگین خامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔دہشت گردوں کے حملے کے وقت پولیس آفس کی حفاظت کے لیے قائم تینوں چوکیاں خالی تھیں،حملہ سنگین سیکیورٹی خامی کی نشاندہی کرتا ہے ،سوال اٹھتا ہے کہ عسکریت پسند کس طرح پولیس ہیڈ کوارٹروں میں گھسنے سے کام یاب ہوئے، یہ ایک خطرناک بات ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی سیکیورٹی انتظامات کا ایک بار پھر جائزہ لینا ہوگا۔ مختلف اجلاس میں ہم سیکوریٹی آڈٹ کرتے رہتے ہیں ، مگر اور بہتر کرنے کی پوری کوشش کریں گے، اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزوری موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ، رینجرز، مسلح افواج کی ایک بار پھر تعریف کروں گا کہ ان کی کارروائی کا طریقہ کار بہت اعلیٰ تھا، جس کی وجہ سے کم سے کم جانی نقصان ہوا۔ بالکل وقت پر پہنچے، کے پی او کے احاطے میں سارا کام پیشہ ورانہ انداز میں کیا گیا اور آئی جی صاحب انہیں ویڈیو کال کی مدد سے ہدایت دیتے جارہے تھے کہ وہ کس طرح آپریشن کو انجام دیں ،یہ سارا کام جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کیاجارہا تھا۔
کہیں کہیں ہم انہیں روک رہے تھے کہ آپ اس حالت میں محفوظ نہیں ہیں، پیچھے ہٹو، لیکن بڑی مہارت سے انہوں نے اس صورت حال پر قابوپایا۔ جو ہماری تھوڑی بہت خامیاں تھیں، ان میں ٹریفک کی صورت حال بھی ایک ایشو تھی،شام 7 بجے کراچی کی ٹریفک خاص طور پر شاہ راہ فیصل سب کو معلوم ہے کہ کس طرح وہاں بھیڑ ہوتی ہے۔ اس قسم کے واقعات جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں، تو ایک اسٹیڈرڈ ایس او پیز ہونی چاہیے، ہم پہلے ہی بات کرچکے ہیں، مگر آج اس کو فارمولائز کرنے جارہے ہیں کہ ہم ایس او پیز جاری کریں گے۔ اگر مستقبل میں اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو مجھے آپ کو غرض کہ ہر شخص کو کیسے ریسپانس کرنا ہے۔
ٹریفک کو ایک گھنٹے کے لیے رک جانا چاہیے تھا، تاکہ وہاں لوگ پہنچ سکیں اور یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ شاہ راہ فیصل کو ہمیں ایک جگہ سے بند کردینا چاہیے تھا اور متبادل راستہ فورس کو فراہم کرنا چاہیے تھا کہ وہ مخالف ڈائریکشن سے آئیں اور وہاں تک پہنچ سکیں۔ میں خود باہر تھا اُس وقت جب یہ واقعہ رونما ہوا اور جب میں آیا تو روڈ ٹریفک پولیس نے بلاک کیا ہوا تھا اور بڑے سیف طریقے سے کیا ہوا تھا، اس طرح میں کے پی او تک جلد پہنچ سکا۔
انہوں نے کہا کہ ٹریفک پولیس نے بہتر اقدامات کیے تھے ،مگر ان کو ہمیں فارمولائز کرنا ہے۔ ہم اس کی تشریح بھی کریں گے تاکہ لوگوں کوپتہ چل سکے کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے۔چاہیے تھا۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ خود کش حملے کو روکنا مشکل ہے، تاہم پولیس نے دہشت گردوں کو بہترین رسپانس دیا، ٹھریٹ ہیں لیکن پولیس فورس ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔