اسلام آباد (عمر چیمہ) سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں لاہور ہائیکورٹ نے وہ پٹیشن مستردکی تحلیل کی قانونی حیثیت کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کی بنیاد لاہور ہائی کورٹ میں ایک نامور وکیل کی جانب سے دائر کی گئی درخواست تھی لیکن اس نامور وکیل کی درخواست کو عدالت نے اسلئے قبول نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب کی دستخط شدہ سمری کی ’’مصدقہ نقل’’ منسلک نہیں تھی۔
بیرسٹر سلمان خالد چیمہ نے دو درخواستیں دائر کی تھیں: پہلی درخواست انہوں نے اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل جبکہ دوسری تحلیل کے بعد دائر کی تھی۔ اول الذکر کو اس لیے قبول نہیں کیا گیا کیونکہ یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت تھا کہ آیا اسمبلی واقعی تحلیل کی جائے گی۔ جبکہ مؤخر الذکر کو اس اعتراض کے ساتھ واپس کر دیا گیا تھا کہ درخواست گزار کے پاس وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے دستخط شدہ سمری کی مصدقہ نقل نہیں تھی، حالانکہ یہ سمری سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بڑے پیمانے پر زیر گردش تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس کے بعد ان آئینی سوالات نے ایک قانونی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا کسی فرد (عمران خان) کی ہدایت پر اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے اور آیا وزرائے اعلیٰ نے تحلیل کے وقت کوئی مخصوص وجوہات بتائی تھیں۔
تاہم، یہ وہ سوالات ہیں جو بیریسٹر چیمہ نے اپنی درخواستوں میں پوچھے تھے تاہم، انہیں وہ توجہ نہ ملی جن کے یہ مستحق تھے۔بیریسٹر چیمہ اعلیٰ تعلیم یافتہ وکیل ہیں اور تین معروف بین الاقوامی جامعات، ہارورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج میں قانون کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے قبل دائر کی گئی درخواست میں جس وقت پرویز الٰہی مختلف میڈیا انٹرویوز میں کہہ رہے تھے کہ اسمبلی تحلیل کرنا صوبے کے بہترین مفاد میں نہیں ہے اس وقت وہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈکٹیشن دے رہے تھے کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے، حالانکہ عمران خان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی آئینی اختیار نہیں تھا۔
بیرسٹر چیمہ نے اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے انٹرویوز کے پریس تراشے منسلک کیے تھے۔ انہوں نے اپنی پٹیشن میں دلیل دی کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے عوام متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ایسا فیصلہ کرنے سے قبل اس کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا ضروری ہے اور اس فیصلے میں ذاتی مفاد کی بجائے عوامی مفاد کو ترجیح دینا چاہئے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے 1989ء کے فیصلے اور لاہور ہائی کورٹ کے 1993ء کے فیصلے کا حوالہ دیا۔
اول الذکر کیس میں وزیراعلی ظفر اللہ جمالی کی ایڈوائس پر بلوچستان اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی جسے ڈیڑھ ماہ بعد بلوچستان ہائی کورٹ نے بحال کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ اگر ریاست کے ایک حصے کو منہدم کر دیا جائے تو اس سے شہریوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 107؍ کے مطابق اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے لہٰذا طے شدہ مدت سے قبل اسے تحلیل کرنے کیلئے آئین میں وضع کردہ وجوہات کی روشنی میں ہی تحلیل کرنا چاہئے، انتخابات کرانا ایک مشکل کام ہے اور بھاری اخراجات ہوتے ہیں
لہٰذا اسمبلی تحلیل کرنے کا غیر معمولی اقدام انتہائی احتیاط اور آئین میں وضع کردہ شقوں کی روشنی میں ہی کرنا چاہئے۔ 1993ء کا کیس یہ تھا کہ گورنر الطاف حسین نے وزیراعلیٰ منظور وٹوُ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کی۔
اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت اپوزیشن لیڈر پرویز الٰہی تھے۔ عدالت اس دلیل سے متفق نہیں کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دینا خالصتاً وزیراعلیٰ کا استحقاق ہے خواہ یہ ایڈوائس بد نیتی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اسلامی ریاست میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اور یہ اُن لوگوں کے پاس مقدس امانت ہے جن پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ سونپی گئی ہے، لہٰذا اگر یہ بھروسہ توڑا جائے تو عدلیہ اس کی اسکروٹنی کر سکتی ہے۔
ان دونوں کیسز کی روشنی میں بیریسٹر چیمہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پرویز الٰہی کو اپنی خواہشات کی بنیاد پر یا کسی (عمران خان) کے احکامات بجا لاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے سے روکا جائے۔ تاہم، عدالت نے پہلی پٹیشن اسلئے قبول نہیں کی کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا آرڈر موجود نہیں تھا اور اس کے بعد دوسری پٹیشن میں عدالت نے یہ کہتے ہوئے پٹیشن قبول نہیں کی کہ درخواست کے ساتھ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کی مصدقہ نقل منسلک نہیں۔