کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجادنے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بنچ ٹوٹنا پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے، پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ قانونی لحاظ سے صحیح ہوگا سیاسی لحاظ سے متنازع ہوگا، انتخابات ازنوٹس کیس اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے، قومی اسمبلی کے معاملہ پر رات کو عدالت کھولنا عدلیہ کی طرف سے نیک نیتی تھی۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں اسلا م آباد ہائیکورٹ بار کے نومنتخب صدر نوید حیات اور لاہور ہائیکورٹ بار کے نومنتخب صدر اشتیاق احمد خان بھی شریک تھے۔ نوید حیات نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نو رکنی بنچ ٹوٹنے کے بعد کوئی بھی فیصلہ سیاسی لحاظ سے خطرناک ہوگا، آئین کہیں خاموش ہے تو سپریم کورٹ کو اس کی تشریح کا حق ہے، سپریم کورٹ پر ہر سیاسی جماعت حملے کرتی ہے جو خطرناک رجحان ہے، وکلاء برادری سپریم کورٹ اور عدالتوں کے ساتھ کھڑی ہے، عدالتیں کبھی عام آدمی کیلئے چھٹی والے دن نہیں کھلتی ہیں۔اشتیاق احمد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے نو رکنی بنچ پر سوچی سمجھی سازش کے تحت اعتراض کیا گیا تھا، آزاد عدلیہ کو آئین کی تشریح سمیت دیگر سوالات پر فیصلے کرنے کا حق ہے، پانچ رکنی بنچ جو بھی فیصلہ کرے اسے سب کو تسلیم کرنا چاہئے، چند ججوں پر اعتراض کرنے والے خود ہی اپنے فل کورٹ کے مطالبہ کی نفی کررہے ہیں، عدالتیں عوام کیلئے رات کو نہیں کھل سکتیں تو اشرافیہ کیلئے کھولنا ٹھیک نہیں ہے۔پروگرام میں مختلف ماہرین قانون کی آراء بھی شامل کی گئیں۔تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات ازنوٹس کیس میں ہمیں فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں مگر اس کی ضرورت نہیں ہے، آئین کی چار شقوں اور الیکشن ایکٹ کی ایک شق کی تشریح تین یا پانچ ججز بھی کرسکتے ہیں۔سابق صدر سپریم کورٹ بار سینیٹر کامرا ن مرتضیٰ نے کہا کہ ازخود نوٹس کیس میں معاملہ فل کورٹ سے آگے چلا گیا ہے۔سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کیس میں لارجر بنچ بنایا جانا کافی ہے، کوئی پارٹی سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی کہ فل کورٹ یا لارچر بنچ بنایا جائے۔