کہا جاتا ہے کہ قوالی کا سلسلہ حضرت امیر خسرو سے شروع ہوا۔ قوالی ایک بہت قدیم فن ہے، جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ عرب زبان کے لفظ ’’قول‘‘سے یہ لفظ قوالی کی صورت میں وجود میں آیا۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ فن تیرویں صدی میں صوفیائے کرام کے ذریعے پھیلا۔ ’’محفل سماع‘‘ کے نام سے یہ سلسلے شروع ہوئے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے خاص مرید حضرت امیر خسرو کی قوالی کو خسروی سلسلے کا نام دیا گیا۔ آج تک سماع کی محافل میں چشتیہ سلسلے کی قوالی پیش کی جاتی ہے۔
قوالی، فن موسیقی کی ایک ایسی صنف ہے، جو ساز و آہنگ کے ساتھ خالق حقیقی کے لیے حمد و ثناء بیان کرتی ہے۔ ان دِنوں ایک مرتبہ پھرفنِ قوالی اپنےعُروج پر ہے، کیوں کہ اسے نیا انداز دیا گیا، جو نئی نسل کواچھا لگ رہا ہے۔ اب توشادی بیاہ کے مواقعوں پر اور یونیورسٹیز کی تقاریب میں بھی قوالی نائٹ کا اہتمام ہونے لگا ہے۔ اس فن کو پھر سے زندہ کرنے میں استاد نصرت فتح علی خان اوران کے بعد استاد راحت فتح علی خان اور امجد صابری مرحوم نے نمایاں کردار ادا کیا۔
پاک و ہند میں اس فن نے نامور قوال پیدا کیے۔ ان ہی میں تاج محمد نیازی، شاد محمد نیازی کا نام بھی آتا ہے، جو ان دِنوں سماع کی محفلوں میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں اور اپنے خانوادے کا نام روشن کررہے ہیں۔ ان کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے نامور موسیقی اور قوالی کے معتبر گھرانے اتر ولی ضلع علی گڑھ یوپی سے ہے۔ قوالی کا یہ فن اس گھرانے میں پچھلے ساڑھے ساتھ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ تعلق و نسبت کے حوالے سے قوالی کا یہ گھرانہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی و حضرت امیر خسرو سے وابستہ رہا ہے۔
اس گھرانے کے جد امجد شہاب خان، برصغیر پاک و ہند کے عظیم کلاسیکل گائیک تھے۔ تقسیم ہند کے بعد اس گھرانے کے معروف قوال معین نیازی مرحوم اپنے والد محمد علی نیازی اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پہلے لاہور اور پھر کراچی میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ معین نیازی قوال اور ہمنوا کے نام سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ان کی شہرت بہ طور قوال تسلیم کی گئی۔ اس مقبولیت کی بناء پر انہیں عوامی راگی کے خطاب سے نوازا گیا۔ اپنی خُوب صورت اور جان دار آواز کے باعث انہیں جنوبی افریقا میں ٹائیگر کا خطاب بھی دیا گیا۔
جب وہ 1986ء میں اجمیر شریف گئے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے عرس شریف کے موقع پر ان کی مشہور قوالی ؎ جوگن تھاڑی تورے دوار خواجہ اجمیری سرکار ؎ کی مقبولیت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اس قوالی کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹس نے ہندوستان میں بے حد پذیرائی حاصل کی۔ ان کی شہرت دنیا بھر کے قوالی شائقین تک پہنچ گئی۔ 1988ء معین نیازی کے انتقال کے بعد حکومت سندھ نے ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں 1993ء میں ان کی رہائش وائی اسٹریٹ کو ’’معین نیازی قوال اسٹریٹ‘‘ کے نام سے منسوب کردیا۔
یہ اعزاز پاکستان میں پہلی بار کسی قوال کو حاصل ہوا۔ 2004 میں حکومت پاکستان نے فنِ قوالی میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ معین نیازی مرحوم کے بڑے صاحب زادے غوث محمد نیازی نے قوالی کے اس سلسلے اپنے چچا حاجی ناصر نیازی کی سرپرستی میں غوث محمد ناصر نیازی قوال کے نام سے جاری رکھا۔ اپنے والد اور بھائی کے انتقال کے بعد تاج محمد نیازی اور شاد محمد نیازی نے اپنے خاندانی ورثہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس خاندانی فن کو جاری رکھتے ہوئے ’’تاج محمد شاد اور محمد نیازی قوال سے اپنے گروپ کا آغاز کیا، جو آج تک جاری ہے۔
اپنے والد اور بھائی کی طرح ان کے گروپ نے بھی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ انہوں نے فنِ قوالی میں منفرد انداز کو اپناتے ہوئے مختلف زبانوں میں اردو، پنجابی، عربی، فارسی، ہندی، یورپی اور دیگر زبانوں میں سماعتوں میں رو گھولنے والے کلام پیش کیے۔ ان کی قوالیوں پر مبنی مختلف آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بھی ریکارڈ کیے گئے،جو عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوئے۔
تاج محمد نیازی اور شاد محمد نیازی نے نہ صرف وطن عزیز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ، بلکہ بیرون ملک میں بھی اپنی قوالیوں کے ذریعے شہرت پائی۔ معروف ٹی وی چینلز پر ان کی قوالیاں براہ راست نشر کی جاتی رہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ شائقین قوالی کو صوفیائے کرام کے کلام کو اپنی قوالیوں کے لیے منتخب کیا۔
تاج محمد اور شاد محمد نیازی نے اپنے اساتذہ کرام سے مختلف راگوں، ٹھیکوں، میں استھائیاں، بندشیں اور ترانے پیش کرنے کی جو تعلیم حاصل کی، وہ ان کی گائیکی اور فن میں جاں بجا نظر اور محسوس ہوتی ہے اور انہیں اس پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کے چند مقبول عام کلام میں ؎ من کنت مولا، آج رنگ ہے اے ما رنگ ہے ری، مدینے بلانا، ہمیں یا محمد، جوگن کی جھولی بردے آقا، چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے،جسے مقبول عام کلام شامل ہیں۔