• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کس کا اختیار، فیصلہ آج، عدلیہ کے سوا مدت بڑھانے کا اختیار کسی آئینی ادارے کو نہیں، ہمیں بھی ٹھوس وجوہات دینا ہوں گی، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ جنگ، اے پی پی) انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا کس کا اختیار ہے اس حوالے سے عدالت عظمیٰ آج اہم فیصلے سنائے گی، سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی کے الیکشن ازخود نوٹس کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔ آج (بدھ کو) صبح ساڑھے 11 بجے سنایا جائیگا،دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ہمیں بھی ٹھوس وجوہات دینا ہونگی، 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، کسی فریق کی نہیں آئین کی حمایت کر رہے ہیں، سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ پر مشاورت کریں، چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا فرض ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرے، آئین نظام کو مفلوج ہونے کی اجازت نہیں دیتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے، فاروق نائیک نے کہا الیکشن کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں، صدر عارف علوی کے وکیل نے اعتراف کیا کہ صدر نے کے پی الیکشن کی تاریخ دیکر آئینی اختیار سے تجاوز کیا، ایڈوائس واپس لے رہے ہیں،الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے، جسٹس محمد علی مظہرنے کہا صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے، آج بھی قانون بنا کرذمہ داری دے دیتے۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ تمام ادارے انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابندہیں ،انتخابات پر متحرک ہونا کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ منگل کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے بتایا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔ سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھادیا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔دوران سماعت فاضل جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟۔چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ آئین کے تحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرےگا؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نگران وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنرکو دے سکتا ہے؟ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنرکا ہے، وزیراعلیٰ کا نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہرعمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا، آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے، حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہوگا۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ نگران حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کرسکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنرکہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہوگا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہوگا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟ وکیل عابد زبیری نےکہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کیلئے خط لکھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ اگرمان لیا کہ قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے تو پھر صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کرفیصلہ کریں گے کہ صدرکو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے دلائل میں کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا، الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90 دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنرکی تاریخ پر تاخیر کرسکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 ویں دن کا کہہ سکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ گورنرکو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آج الیکشن کمیشن سے گورنرکی مشاورت کرائیں اورکل تاریخ دے دیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں ہوسکتی، آئین سپریم ہے، صدر مملکت کو آئین انتخابات کی تاریخ دینےکی اجازت نہیں دیتا، صدر صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے واضح کہا کہ انتخابات کرانا اور تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ طے الیکشن کمیشن اور اعلان گورنر کوکرنا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب سب واضح ہے تو جھگڑا کس بات کا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت 14،14 دن ملتوی ہو رہی ہے، اتنے اہم آئینی سوال پر اتنے لمبے التوا کیوں ہو رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ کا اختیار آئین کی کس شق کے تحت آیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد شروع ہوتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کردار مرکزی ہے، دوسری جانب کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا کردار مشاورتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، انتخابی مہم کا دورانیہ 2 ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟ 2008 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2008 میں بہت بڑا سانحہ ہوا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی، قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کر دیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں ہی کریں گے، جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا نگران کابینہ گورنرز کو سمری بھجواسکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اور کابینہ دونوں آئین کے پابند ہیں، نگران کابینہ الیکشن کی تاریخ کیلئے سمری نہیں بھجواسکتی۔الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت کام کرنا ہے، الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے 3 طرح کی تاریخ دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن سینیٹ،صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے، ہم صرف پنجاب اور کے پی کے الیکشن کی بات کر رہے ہیں، ہمارا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے استفسار کیا کہ گورنرکے پی کے خط کا کیا مطلب ہے؟ ،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر نے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ تاریخ نہیں دیں گے۔

اہم خبریں سے مزید