جیل بھرو تحریک کے سلسلہ میں سب سے بڑی گرفتاری تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی عمل میں آئی، یہ جیل بھرو تحریک کا پہلا دن تھا اور لاہور میں گرفتاریاں دینے کا اعلان کیا گیا تھا، ملتان کے پی ٹی آئی رہنماؤں کا خیال تھا کہ شاہ محمود قریشی لاہور کی بجائے ملتان سے گرفتاری دیں گے اور ان کے ساتھ ملتان کے موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیدار بھی رضاکارانہ گرفتاری کے لئے خود کو پیش کریں گے، یہاں ملتان میں یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ محمود قریشی صرف اس ریلی سے خطاب کرنے گئے تھے، جو جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں نکالی گئی تھی تھی، ان کا گرفتاری دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ،مگر اس موقع پر پارٹی کے چند رہنماؤں نے جن میں اسد عمر ،اعظم سواتی شامل ہیں ، شاہ محمود قریشی سے کہا کہ پولیس کی خالی وین میں بیٹھتے ہیں، تاکہ علامتی طور پر گرفتاری دینے کا اظہار ہو سکے، لیکن پولیس نے اس موقع پر پھرتی دکھائی اور پولیس وین میں سوار ہونے والے والے رہنماؤں کو گرفتار کرکے کوٹ لکھپت جیل لے گئی۔
بعدازاں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، اگلے ہی دن شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی مہر بانو قریشی ان کی بازیابی کے لئے ہائی کورٹ میں درخواست دیتے نظر آئے، لاہور پولیس نے ڈپٹی کمشنر کے حکم سے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم سواتی سمیت گرفتار رہنماؤں کو کو 30 روز کے لئے نظر بند کر کے کے مختلف جیلوں میں بھیج دیا، شاہ محمود قریشی کو اٹک جیل بھیجا گیا،جس کا ان کے خاندان کو اندازہ نہیں تھا، شاہ محمود قریشی کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست میں ایک طویل اننگز کھیلنے کے باوجود کبھی ریاستی تشدد د یا ہتھکنڈوں کو برداشت نہیں کیا، وہ اپنی 35 سالہ سیاسی زندگی میں اس سے پہلے کبھی جیل نہیں گئے، اس بار بھی وہ جیل نہ جاتے اگر خود اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش نہ کرتے۔
ان کے جیل جانے کے پیچھے بھی ایک کہانی موجود ہے ،ملتان کے پی ٹی آئی حلقوں میں جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد یہ چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ کیا بڑے لیڈر بھی گرفتاری دیں گے یا صرف کارکنوں کو ہی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا، شاہ محمود قریشی بارے تو کارکنوں کی طرف سے باقاعدہ یہ آوازیں اٹھتی رہیں کہ اگر وہ گرفتاری دیں گے، تو کارکن بھی اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کریں گے، لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ شاہ محمود قریشی جیل بھرو تحریک کے آغاز پر ہی جیل یاترا پر چلے جائیں گے، ان کے لاہور سے گرفتار ہونے کا نقصان یہ ہوا کہ جب 25 فروری کو ملتان میں گرفتاریاں دینے کا موقع آیا، تو اس سارے معاملے کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا، مختلف جگہوں پر رہنماؤں نے کارکنوں کو اکٹھا ہونے کی کال دی اور اپنے اپنے ڈیرے آ باد کئے، سب سے زیادہ کارکن نواں شہر چوک پر اکٹھے ہوئے مگر پولیس کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نظر نہ آئی کہ جو گرفتاریوں کے ضمن میں دیکھی گئی ہو، پولیس کا کوئی ڈالا یا وین اس موقع پر وہاں نظر نہیں آئے،بجائے اس کے یہ کارکن اور رہنما گرفتاری دینے کے لئے کسی تھانے یا ڈسٹرکٹ جیل کے سامنے پہنچتے، تھوڑی دیر نعرہ بازی کے بعد سب اپنے گھروں کو چلے گئے، یوں ملتان سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور اس تحریک میں سوائے حادثاتی طور پر لاہور سے گرفتار ہونے والے شاہ محمود قریشی کے ملتان کا کوئی اور رہنما یا کارکن حصہ نہیں ڈال سکا۔
یہاں یہ چہ مگوئیاں بھی ہوتی رہیں کہ ملتان کے رہنماؤں اور ارکان اسمبلی نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ جان بوجھ کر ایسا سلوک کیا ہے، وگرنہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ملتان سے سے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں دے کر شاہ محمود قریشی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری پر ملتان میں کوئی بڑا ردعمل بھی دیکھنے میں نہیں آیا، اور ان کو کو اٹک جیل میں منتقل کرنے کے فیصلہ پر ان کے خاندانی ذرائع تو واویلا کرتے رہے، لیکن پارٹی رہنماؤں کی طرف سے کوئی بڑا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا، گرفتاری کے بعد شہباز گل اظہار یک جہتی کے لئے ملتان پہنچے اور انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے گرفتار رہنماؤں پر ریاستی جبر اور انہیں جیلوں میں سیاسی قیدیوں کی بجائے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی طرح سلوک کرنے پر آواز اٹھائی اور احتجاج بھی کیا کیا، مگر ان کے ساتھ صرف چند لوگ موجود تھے اور پارٹی کہیں کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔
مقامی حلقوں کا خیال یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں جن لوگوں کو نوازا اور دھڑے بندی کے ذریعے پارٹی کو نقصان پہنچایا، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ ان کے کسی ایک حواری نے بھی ان سے یک جہتی کرتے ہوئے ہوئے گرفتاری دینے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور سب ہلکے سے احتجاج کے بعد ایسے نکل گئے، جیسے" جان بچی سو لاکھوں پائے " کی سی صورتحال پیدا ہوئی ہے، پی ٹی آئی بڑی تعداد میں رہنماؤں اور کارکنوں کے نکلنے پر فخر یہ اظہار تو کر رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا جیل بھرو تحریک اس طرح کامیاب ہوگی ؟ ایسے جلسے، جلوس اور ریلیاں تو پہلے بھی تحریک انصاف بہت نکالتی رہی ہے، جس کا اسے کوئی زیادہ سیاسی فائدہ نہیں ہوا، اب عمران خان نے اگر نئی حکمت عملی کے تحت جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا، تو اس کی کامیابی صرف اسی صورت ممکن ہےکہ بڑی تعداد میں گرفتاریاں دی جائیں، راولپنڈی اور گوجرانوالہ سے کارکن گرفتاریاں دینے میں کامیاب رہے۔
سوال یہ ہے کہ ملتان والے کامیاب کیوں نہیں ہوئے ؟ کیا ان کی نیت نہیں تھی؟ یا پولیس سے پہلے ان کے معاملات طے پا چکے تھے ؟جس کی وجہ سےخلاف معمول نہ تو وہاں پولیس نظر آئی اور نہ قیدیوں کی وین پہنچی، لگتا ہے کہ ملتان سے صرف شاہ محمود قریشی کی قربانی ہی اس جیل بھرو تحریک کا پہلا اور آخری قطرہ ثابت ہوگی اور پورا ملتان اسی طرح منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ادھر راجن پور کے قومی حلقہ 193 کے ضمنی انتخاب میں میں اگرچہ یہ کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آئے گا، مگر سارا دن پولنگ یکطرفہ نظر آئی آئی، مقابلے میں تین بڑے امیدوار تھے، تحریک انصاف کی طرف سے محسن لغاری، مسلم لیگ ن کی طرف سے عمار لغاری اور پیپلز پارٹی کی طرف سے سے اختر حسن گورچانی میدان میں موجود تھے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار کھڑا کرنے کی بجائے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے علیحدہ امیدوار کھڑے کئے، حالانکہ فارمولا کے مطابق چونکہ 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار شازیہ عابد دوسرے نمبر پر رہی تھیں، اس لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ٹکٹ ملنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور دونوں جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتار دئیے، یہ نشست تحریک انصاف کے جعفر خان لغاری کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی، پہلے اس نشست پر عمران خان نے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا، مگر بعدازاں انہوں نے یہ فیصلہ تبدیل کر لیا اور ٹکٹ جعفر خان لغاری مرحوم کے بھتیجے محسن لغاری کو دے دیا گیا، عمار خان لغاری سابق صدر مملکت فاروق خان لغاری کے پوتے اور اویس لغاری کے بیٹے ہیں، انہیں ن لیگ نے ٹکٹ دیا، جبکہ تیسرے امیدوار سابق پولیس آفیسر اور پیپلزپارٹی میں تازہ شامل ہونے والے اختر حسن گورچانی تھے، محسن لغاری نے ان دونوں امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرکے یہ نشست جیت لی ہے، تحریک انصاف اپنی اس فتح کو ملکی سیاست کا نتیجہ قرار دے رہی ہے، جس میں پی ڈی ایم بری طرح عوام کی نظروں سے گر چکی ہے اور تحریک انصاف کا پورے ملک میں گراف اوپر جا رہا ہے۔
ادھر ملتان میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات بھی منسوخ ہوگئے ہیں، کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے جن 32 ارکان اسمبلی کو بحال کیا ہے، ان میں ملتان کے تین حلقے این اے 155 ،این اے 156 اور این اے 158 بھی شامل ہیں ، جہاں سے شاہ محمود قریشی، ملک عامر ڈوگر اور ابراہیم خان کو ڈی سیٹ کیا گیا تھا، اب ان حلقوں میں انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے ساری توجہ اس نقطہ پر ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کب ہوتے ہیں اور کب الیکشن کمیشن ان کا شیڈول جاری کرتا ہے؟ نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور اس کا فیصلہ ہی اس معاملے حل کر سکتا ہے۔