سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے دن سے 90روز میں انتخابات کرانے کاحکم سامنے آچکا ہے اور اس فیصلے سے بھی دو ججز نے اختلاف کیا ہے تاثر تو یہی تھا کہ فریقین شایدکس نتیجے پر پہنچ جائیں لیکن بادی النظر میں ایسا دکھائی نہیں دیتا بلکہ ایک نیا بحران پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے حکومت اپنا آئنی اور قانونی پوری طاقت سے سامنے لا رہی ہے جس کے پیش نظر قرائن اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ 90دن کے اندر الیکشن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا آر بحران میں مزید اضافہ ہو گا۔
سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے مابین صف آرائی تو کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کا ایک لازمی جزو ہے اور اگر یہ پرامن، بامقصد اور حقیقتاً جمہوریت کے مفاد میں ہو تو پھر اسے جمہوریت کا حسن قرر دیئے جانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن جمہوریت کے نام پر ملک میں نفسا نفسی کا عالم ہو، ریاست بے یقینی اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہوں، جلائو گھیرائو، لانگ مارچ اور نوبت جیل بھرو تحریک کی انتہا تک پہنچ جائے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس صورتحال کی لپیٹ میں ریاستی ادارے بھی ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو پھر الزام ’’جمہوریت‘‘ پر ہی آئے گا اور ان دنوں ملک معیشت، ریاست اور سیاست سب ایسی ہی صورتحال کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور یہ صورتحال کچھ اداروں کے وقار کو بھی مجروح کر رہی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی ساکھ دائو پر لگی ہے۔
کیا یہ صورتحال کسی سیاسی المیے سے کم نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سیاست تو کجا آمریت کے ادوار میں بھی کبھی ایوان صدر اور پاکستان الیکشن کمیشن جیسے دو اہم ریاستی ادارے متصادم نہیں ہوئے لیکن آج یہ دونوں ادارے منفی تاثر کے حوالوں سے ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور صورتحال کے قصووار بھی ہمارا ’’جمہوری نظام‘‘ اور سیاستدان ہیں جو اپنے باہمی تنازعات اور اختلافات پارلیمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں میں سلجھانے کی بجائے قومی اور ملکی مسئلہ بناکر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں اور عدلیہ سمیت دیگر اداروں کو سیاسی تنازعہ کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
ملک میں اپنی شرائط اور مطالبے پر انتخابات کرانے کی ضد کرنے والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس وقت الیکشن کرانے کی متحمل ہوسکتی ہے ملک غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے قرض لے لے کر کمزور ہوچکا ہے عالم یہ ہے افغانستان جیسے ملک نے پاکستانی کرنسی لینے سے انکار اور ڈالر کی شکل میں کاروبار کی شرط رکھ دی ہے۔ بھارت ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کیلئے قلانچیں بھر رہا ہے، خطے کی صورتحال میں فیصلہ کن تبدیلیاں آرہی ہیں اور ہم اپنے سیاسی تنازعات سے جمہوریت، اداروں اور ملک کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔
سوال یہاں یہ بھی ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو کیا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی شکست تسلیم کرلیں گے؟ اس کا جواب ہر سطح پر نفی میں ہے ان کی دانست میں شفاف انتخابات وہی ہوں گے جس میں انہیں دوتہائی اکثریت ملے گی اور وہ خود اس کا اعتراف اور اظہار بھی کرچکے ہیں کہ اگر انہیں دوتہائی اکثریت نہ ملی تو وہ حکومت نہیں بنائیں گے۔ گویا الیکشن کی شفافیت پر عدم اعتماد کرکے ایک مرتبہ پھر الیکشن کا مطالبہ۔
گوکہ حکومت پوری طرح پراعتماد ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اسی بنیاد پر وزیراعظم شہباز شریف بار بار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جدوجہد میں مصروف ہیں جو نظر بھی آرہی ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے معاشی بحران میں شدت کا اندازہ لگانے کیلئے جتنے بھی اشارے ڈیفالٹ کی غمازی کرتے ہیں وہ سب نظر آرہے ہیں حکومت اور عوام دونوں ہی اپنا اپنا رونا رو رہے ہیں اس صورتحال میں حکومت کے مخالفین جو بھی افواہ پھیلانا چاہتے ہیں لوگ اس پر یقین کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔
روز مرہ کی اشیائے ضرورت پر دنوں میں نہیں بلکہ صبح وشام اضافہ ہو رہا ہے جس کا جب دل چاہے قیمتوں میں اضافہ کردیتا ہے کوئی پرسان حال نہیں پٹرول اور ڈالرنے حکومت اور عوام دونوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے ملک میں معاشی بحران کے پیش نظر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان کی ضرورت اس وقت ہی ناگزیر ہوگئی تھی جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا لیکن ظاہر ہے اس وقت ترجیحات کا تقاضا کچھ اور تھا۔ بہرحال ’’دیر آیئد درست آیئد‘‘ لیکن ان اقدامات کا اس وقت محض اعلان کافی نہیں ہے بلکہ اس پر فوری عملدرآمد کیلئے تاریخ کا اعلان اور ہنگامی پروگرام کے تحت بلاتاخیرعملی پیش رفت کی ضرورت ہے یہ درست ہے کہ بعض اقدامات کیلئے کچھ وقت درکار ہوگا لیکن علامتی طور پر ہی سہی کچھ فیصلوں پر تو فوری عملدرآمد ہونا چاہئے تاکہ عوام کا حکومت پر اعتماد مضبوط ہو اگر سرکاری افسران کی گاڑیوں کے پٹرول کی حد ان کے گھر اور دفتر کی مسافت تک کیلئے مقرر کر دی جائے اور دفتری اوقات کے بعد سرکاری گاڑی کے استعمال پر پابندی ہو تو پٹرول کی بچت میں حیرت انگیز کمی ہوگی۔ اس طرح کروڑوں اور اربوں کے اثاثے رکھنے والے وہ ارکان پارلیمنٹ جو ایوان میں غریبوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور بعض ارکان تو ایوان میں صرف حاضری لگانے اس لئے آتے ہیں تاکہ الائونسز وصول کرسکیں۔
دوائیاں اور وہ مراعات جن کے وہ ہرگز مستحق نہیں وہ بھی باقاعدگی سے حاصل کرتے ہیںان پر قدغن عائد کرنی چاہئے۔ برطانیہ جیسے ملک میں جس کی جمہوریت کی مثالیں دی جاتی ہیں وہاں کابینہ کے ارکان کیلئے مجموعی طور پر صرف بارہ گاڑیاں ہیں اور وہ بھی شخصیات کیلئے مختص نہیں جو گاڑی دستیاب ہو وہ استعمال کرلی جاتی ہے۔ ہمیں درس تو برطانوی طرز جمہوریت کا دیا جاتا ہے لیکن ہمارے اخراجات شاہانہ ہیں، پھر تباہ حال معیشت میں سیاست جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔
جیل بھرو، گرفتاریاں، بیانات، الزامات، انتقامی جذبے، کردار کشی، کیا موجودہ معاشی صورتحال میں ملک ان ’’سیاسی عیاشیوں‘‘ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ان دونوں اہم مناصب اور سیاسی ذمہ داریوں کو ان کی عمر اور تجربے سے ناپنے والے ناقدین اکثر وبیشتر اعتراض اٹھاتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے اس صورتحال کو موضوع بحث بناتے ہوئے ان ملکی حالات کی ذمہ داری سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کے لگ بھگ ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں ٹھیک کرنے کیلئے کتنا عرصہ درکار ہوگا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملک کے اہم اداروں کو تقسیم کر دیا ہے عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور میڈیا سب تقسیم ہوچکے ہیں اور عمران خان یہ کام ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب اگر ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو بلاول بھٹو کی بات میں صداقت نظر آتی ہے۔