اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر شرح سود میں 3 فیصد اضافہ کردیا، ملک میں شرح سود 20 فیصد پر پہنچ گئی، اس سے پہلے اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 17 فیصد تھا، آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے سے قبل پاکستان سے شرح سود بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔
مرکزی بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے 2 مارچ 2023ء کو منعقدہ اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 300 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 20 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ جنوری میں اپنے گزشتہ اجلاس میں کمیٹی نے مہنگائی کے منظر نامے کو بیرونی اور مالیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش قریب المدت خطرات کو اُجاگر کیا تھا۔ ان میں سے بیشتر خطرات حقیقت بن گئے ہیں اور فروری کے مہنگائی کے اعداد و شمار میں جزوی طور پر ان کی عکاسی ہوتی ہے۔ قومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت قیمت (National CPI) بڑھ کر 31.5 فیصد سال بہ سال ہو چکی ہے جبکہ قوزی مہنگائی (Core inflation) فروری 2023ء کے دوران شہری باسکٹ میں 17.1 فیصد اور دیہی باسکٹ میں 21.5 فیصد ہوگئی ہے۔
مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا کہ آج کے اجلاس میں ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ حالیہ تبدیلیوں اور ایکسچینج ریٹ میں کمی کے نتیجے میں مہنگائی کے قریب مدتی منظر نامے میں خاصا بگاڑ پیدا ہوا اور مہنگائی کی توقعات میں مزید اضافہ ہوا۔
اس میں کہا گیا کہ کمیٹی توقع کرتی ہے کہ اگے چند ماہ میں جب ان تبدیلیوں کا اثر سامنے آئے گا تو مہنگائی مزید بڑھے گی اور اس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوگی گو کہ یہ بتدریج ہوگی۔
رزی پالیسی بیان کے مطابق اس سال اوسط مہنگائی متوقع طور پر 27 سے 29 فیصد کی حدود میں ہو گی جبکہ نومبر 2022ء میں اس کی 21 سے 23 فیصد کی پیشگوئی کی گئی تھی۔
اس تناظر میں ایم پی سی نے زور دیا کہ مہنگائی کی توقعات پر قابو پانا بےحد ضروری ہے اور اس کے لیے مضبوط پالیسی ردعمل چاہیے۔
بیان میں کہا گیا کہ جہاں تک بیرونی شعبے کا تعلق ہے اس حوالے سے ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی کے باوجود کمزوریاں برقرار ہیں۔ جنوری 2023ء میں جاری کھاتے کا خسارہ گر کر 242 ملین ڈالر رہ گیا جو مارچ 2021ء سے اب تک پست ترین کی سطح ہے۔
اس میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر جاری کھاتے کا خسارہ، جو جولائی تا جنوری مالی سال 23ء میں 3.8 ارب ڈالر تھا، گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 67 فیصد کم ہے۔
مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا کہ اس بہتری سے قطع نظر شیڈول کے مطابق قرضوں کی ادائیگی اور مالکاری رقوم کی آمد میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی عالمی شرح سود اور ملکی غیریقینی کی کیفیت زر مبادلہ کے ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ زر مبادلہ کے ذخائر پست سطح پر ہیں اور بیرونی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے ای ایف ایف کے تحت جاری نویں جائزے کی تکمیل سے بیرونی شعبے کے قریب مدتی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
مزید برآں، ایم پی سی نے بیرونی کھاتوں پر دباؤ کم کرنے اور دیگر شعبوں کی درآمد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے توانائی کی بچت کے اقدامات کی ہنگامی ضرورت پر زور دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ جی ایس ٹی اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے، سبسڈیز میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل اور کفایت شعاری کی مہم سمیت حالیہ مالیاتی اقدامات سے توقع ہے کہ بڑھتے ہوئے مالیاتی اور بنیادی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ قبل ازیں بتایا گیا کہ معاشی استحکام کے لیے مالیاتی استحکام ناگزیر ہے اور یہ وسط مدت کے دوران مہنگائی کو کم کرنے کے لیے جاری مانیٹری سختی میں مددگار ہوگا۔
کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ قیمتوں میں استحکام کے مقصد کو حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی بھی نمایاں مالیاتی زیاں مانیٹری پالیسی کی اثر انگیزی کو نقصان پہنچائے گا۔
ایم پی سی نے مالی استحکام اور قریب مدتی نمو کے منظر نامے پر مانیٹری سختی میں اضافے کے اثرات کا بھی جائزہ لیا۔
کمیٹی کا خیال ہے کہ مالی استحکام کو لاحق خطرات قابو میں ہیں کیونکہ مالی اداروں کے پاس کافی سرمایہ موجود ہے۔ تاہم نمو پر سمجھوتا (trade-off) کرنا ہوگا۔
بیان کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے اس سابقہ نقطہ نظر کا اعادہ کیا کہ مہنگائی کو کم کرنے کی قلیل مدتی قیمت اس میں اضافے کو تقویت دینے کی طویل مدتی قیمت سے کم ہے، ماسوائے اس کے کہ مستقبل میں غیر متوقع دھچکے آئیں۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق آج کے فیصلے نے پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی شرح سود کو مثبت حدود میں دھکیل دیا ہے۔ اس سے مہنگائی کی توقعات پر قابو پانے اور مہنگائی کو مالی سال 25ء کے آخر تک 5 تا 7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لے جانے میں مدد ملے گی۔
بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے اپنا آئندہ اجلاس 4 اپریل 2023ء کو منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔