ابوبکر صدیق شھدادکوٹوی
نوجوانی زندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتے ہیں کوتاہی اور لاپروہی برتیں تو عمر بھراس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی دورسے ہے، صلاحیتوں میں نکھارآتا ہے، علوم کے مختلف منازل طے کرتے ہیں، یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگیکی پیاس بجھا سکتا ہے۔
اسی دور کے متعلق علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری ‘۔ عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ۔ اسامہ بن زیدؓ نے، خالد بن ولیدؓ ، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اور امام غزالی جیسے مجدد دین علوم کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔
ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب’’Have you Discovered its Real Beauty‘‘ میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ،میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے، اُس نے حیران ہوکر جواب دیا کہ، مجھ سے آج تک کسی نےاس طرح کا سوال نہیں کیا، میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے ، پھر اُس نے اُلٹا مجھ سے سوال کیا کہ زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟
عصر جدید میں جب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب بھی اسی طرح کا ہوتاہے ۔اس وقت نوجوانوں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ دینی تعلیمات سے نابلد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلاب ہے۔ یہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتا ہے ۔قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں نفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے۔
جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے، جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے، جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں حق و باطل کے درمیان فرق بتاتا ہے۔ نوجوان اس کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
عصر حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ ,مقام اور پیسہ بٹورنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ ہر نوجوان ان ہی چیزوںکے پیچھے بھاگتا نظر آرہاہے آج یک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر دیاہے کہ نوجوان دائیں بائیں ، آگے پیچھے دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے، ہر ایک کیرئر بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کر کر رہا ہے۔
وہ سماج میں رہ رہے دوسروں سے بے گانہ ہیں کیونکہ انہیں اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کوشاں تو نظر آتے ہیں لیکن اپنے مقصد وجود سے نا آشناہیں۔ وہ قابل ذکر اسنادکا حامل تو ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر دوسروں کے لیے ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔
علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزراتے ہیں جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد اگیا ہے۔ اسلام کیرئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کرتا ہے۔ اسلام تو قاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طریقے سے کیرئیر بنانے پر زور دیتا ہے۔
کیریئر کی بے چینی ، مستقبل کے عدم تحفظ کے جذبات ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ایک عام مسئلہ ہے۔ دوسروں کے ساتھ اپنے کیریئر کا موازنہ ڈپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ کمفرٹ زون سے باہر نکلیں، اپنے آپ کو مصروف رکھیں اور زندگی کا مقصد سمجھیں۔